آئین کی گولڈن جوبلی

آئین کی پچاسویں سالگرہ کا جشن‘ گولڈن جوبلی‘ یقینا بہت اہم موقع ہے۔ آئین اپنی نصف صدی پوری کر چکا۔ پارلیمنٹ جشن منارہی ہے۔ لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے‘ آئین اس پر اظہارِ افسوس کررہا ہو گا‘ کیوں؟ ایک ایسی پارلیمنٹ جس میں عملاً حزبِ مخالف ہی نہ ہو‘ وہ مطلق العنان کے سوا اور کیا ہوگی؟ دس اپریل2023ء ملک کی پارلیمانی تاریخ کا ایک یومِ سیاہ تھا کہ آئین کی گولڈن جوبلی کے جشن میں پہلی دو قطاروں میں وہ افراد براجمان تھے جو گزشتہ دو دہائیوں سے بدعنوانی کے مقدمات سے بچ نکلنے اور بار‘ بار چور دروازے سے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کیلئے قوانین کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے ہیں۔ ماضی کی طرح‘ وہ سوچتے ہیں کہ شاید اپنی پچھلی کارگزاری کو دہرا سکیں۔ امید ہے کہ اس مرتبہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہوگا۔
ابراہم لنکن کا کہنا تھا ''کانگریس اور عدالتوں کے مالک ہم عوام ہی ہیں لیکن اس لیے نہیں کہ آئین کو معطل کر دیں بلکہ اس لیے کہ ان افراد کو اٹھا کر باہر پھینک دیں جو آئین کو مسخ کرتے ہیں‘‘۔ آئین عوام کے لیے ہے۔ عوام اپنی مرضی کے افراد کا ووٹ کے ذریعے چناؤ کرتے ہیں جو ان کے آئینی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے عوام کی مرضی کو غالب کرتے ہیں۔ کیا ہوگا جب آئین کے محافظ سمجھے جانے والے لوگ ہی اسے غیر ضروری قرار دے کر منسوخ کردیں؟ جب عوام کی نمائندگی کرنے والے آپس میں ایک دوسرے کی نمائندگی شروع کردیں؟ جب قانون ساز عوام کے بجائے اپنا تحفظ کرنے لگیں؟ جب آئین کے تقدس کی حفاظت کرنے والے اسے سبوتاژ کرنے پر تل جائیں؟ ان تمام سوالات کا جواب ہے کہ اس کے نتیجے میں ریاست غیر فعال ہو جائے گی اور آزادی کا مقصد خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے آج پاکستان اسی جگہ کھڑا ہے۔ حکومت‘ الیکشن کمیشن اور کچھ دیگر حلقے نوے دنوں میں الیکشن کرانے کے عوام کے آئینی حق کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں؛ تاہم اس تباہ کن عمل کے کچھ حقائق اتنے بھیانک ہیں کہ ان کے ساتھ مفاہمت نہیں کی جا سکتی:
1۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ: آئین کی خلاف ورزی عام طور پر جمہوریت پسندوں سے زیادہ آمر کرتے ہیں۔ آمر آتے ہیں‘ آئین معطل کرتے ہیں اور جموریت کی بساط لپیٹ دیتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کو ایوانِ اقتدار سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ اُس وقت وہ شور مچاتی ہیں کہ آئین کا خون کردیا گیا۔ اِس وقت نام نہاد جمہوری حکومتیں آئین کو معطل نہیں کر رہیں بلکہ خود ساختہ ترامیم سے اسے آلودہ کر رہی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت ان اداروں کے قوانین میں ترمیم کرنے میں مصروف ہے جو احتساب کے ذمہ دار ہیں۔ نئی ترامیم سے نیب ایک ایسا سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے جس پر ٹیکس دہندگان کی رقم ضائع ہورہی ہے۔ کابینہ کے اراکین کے اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں قائم کیے گئے کیسز یکے بعد دیگرے ختم کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد زد پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کا ارادہ عزم کیا جا رہا ہے۔ پنجاب اور کے پی میں نوے دنوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ آیا۔ کوئی بھی اس پر اختلاف نہیں کر سکتا تھا۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس پر لیے گئے از خود نوٹس پر کچھ جج صاحبان نے اعتراض کیا مگر انہوں نے بھی اختلافی نوٹ از خود نوٹس کے حوالے سے لکھے، انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے نہیں۔ مگر اس اختلافِ رائے کی بنیاد پر قانون سازی کے لیے حکومت نے ناقابلِ یقین رفتار سے ایک بل کا مسودہ تیار کیا‘ اسے دونوں ایوانوں سے پاس کرکے صدر کو منظوری کے لیے بھیج دیا۔ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء نامی بل از خود نوٹس لینے کے اختیارات پر تجویز پیش کرتا ہے کہ بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کے بجائے تین سینئر ججوں کی کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی۔ بحث بل کے مندرجات پر کم اور اسے پیش کرنے اور اسے پاس کرنے کے تیز رفتار طریقے پر ہے۔ یہاں تک کہ نابینا بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جلد بازی کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح انتخابات کا انعقاد روکا جائے‘ تاخیر ہو جائے یا یہ ملتوی کر دیے جائیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 224کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جو واضح طور پر مدت کا تعین کرتا ہے۔ گویا یہ کافی نہیں تھا‘ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ایک بل بھی تجویز کیا ہے جو اسے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا حق دیتا ہے۔ ایک بار پھر یہ بل صرف یہی ارادہ ظاہر کرتا ہے کہ 90دنوں میں انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔
2۔ عجیب و غریب تقسیم: یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ ملک قطبیت کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ کسی حد تک درست ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی عوام کی اکثریت اس بات پر قائل ہو چکی کہ معاشی بہتری سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی استحکام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی آئے گا۔ حکومت میں شامل جماعتیں وقتاً فوقتاً معمولی عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں لیکن وہ صرف اپنے مطالبات کی تکمیل کے حربے کے طور پر اختلاف کرتی ہیں۔ بظاہر نظر آنے والی تقسیم نظامِ انصاف میں ہے اور کچھ حد تک اداروں میں۔ نظامِ انصاف میں اختلافِ رائے اچھی علامت ہے لیکن آئین پر اختلاف خطرناک ہے۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان نے تکنیکی بنیادوں پر ایسا کیا تھا۔ وہ تکنیکی بنیادیں قابلِ بحث ہیں اور انہیں عدالت کے اندر ہی حل کیا جاسکتا ہے؛ تاہم حکومت کی جانب سے عدالتی فیصلوں کو اپنے سیاسی کھیل میں شامل کرنے کی مایوس کن حرکت ادارے سے زیادہ معزز جج صاحبان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
3۔ غیر ارادی نتائج: جب کوئی خطرہ مول لیا جاتا ہے تو کئی بار غیر ارادی نتائج بھی نکل سکتے ہیں؛ تاہم بعض اوقات نتائج جاننے کے باوجود فیصلے کر لیے جاتے ہیں۔ جب نتائج تباہی کی طرف لے جا رہے ہوں اور اُس راہ پر چلنے والے لوگوں کو معلوم ہو جائے تو صورتحال خطرناک ہو جاتی ہے۔ موجودہ منظر نامہ ایک ڈراؤنا کھیل دکھائی دیتا ہے جو سٹیک ہولڈرز کھیل رہے ہیں۔ اس سے اٹھنے والا بحران کسی سے سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ وزیر خزانہ جانتے تھے کہ شرحِ مبادلہ اور درآمدات کو کنٹرول کرنے کی کوشش سے معیشت کو دھچکا لگے گا مگر پھر بھی انہوں نے ایسا کیا۔ نیز ایسے اقدامات سے آئی ایم ایف قرضہ نہیں دے گا‘ پھر بھی انہوں نے یہی راہ اپنائی۔ وہ جانتے ہیں کہ الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر وہ اس سے گریزاں ہیں۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہ کرکے وہ آئین اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہ اس پر مصر ہیں۔ وزارتِ دفاع کے ذمہ داران جانتے ہیں کہ انتخابات کیلئے سکیورٹی کی فراہمی سے انکار انہیں آئین سے سرتابی کرنے والوں کے درمیان کھڑا کررہا ہے مگر پھر بھی ایسا کیا گیا۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جو تباہی میں بدل رہا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والے جانتے ہیں کہ اس سے ملک پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ کہ یہ ایک غیرفعال ریاست میں بدل جائے گا۔
مقتدر اشرافیہ اور قانون کی حکمرانی کے علمبرداروں کے درمیان صف بندی ہو چکی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس پارلیمنٹ میں حکومت آئین کی گولڈن جوبلی منا رہی تھی‘ اسی پارلیمنٹ کو وہ آئین کی صریح خلاف ورزی کی توثیق کرنے کا کہہ رہی تھی۔ پارلیمنٹ ایک مخصوص ٹولے کی نمائندگی کی جگہ بن گئی ہے جیسا کہ اس میں منظور ہونے والے بلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہاں ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والی مہنگائی سے زیادہ بحث احتساب کی شقوں اور عدالتی اختیارات کو ختم کرنے کے طریقہ کار پر ہوئی۔ حال ہی میں ناروے کے ایک سکول نے کرپشن کی مثال کے طور پر نصاب میں ہمارے ایک سیاستدان کا نام شامل کیا ہے۔ ایک وزیر صاحب کو برسوں تک مفرور قرار دیا گیا اور اب ان کی اپنی پارٹی کے کچھ سینئر لوگوں نے انہیں ملکی معیشت کو تباہ کرنے والا شخص قرار دیا ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جہاں افراد کے کردار کی اس ترازو پر جانچ ہوگی کہ کیا وہ آئین اور عوام کے حقوق کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ جو آئین کی خلاف ورزی اور اپنے جرائم کو دھو کر صاف کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں