گھڑیوں کی لوٹ سیل

ایک گھڑی چرا لی‘ پکا ثبوت مل گیا‘ پکڑ لو‘ گرفتار کرلو‘ یہ تو سیدھا سادا دو ٹوک کیس ہے۔ اسمبلی کی نشست سے ہٹا دو۔ گزشتہ گیارہ ماہ سے ہم یہی کچھ سنتے چلے آرہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس‘ خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ سے خریدی گئی گھڑیوں پر خوب واویلا کیا گیا۔ سینکڑوں پریس کانفرنسیں ہوئیں‘ روزانہ ٹاک شو آن ائیر چلے‘ اس پر تجزیوں اور تبصروں کا تانتا بندھا رہا۔ یہ سابق وزیراعظم کے خلاف پی ڈی ایم کا فیصلہ کن کیس قرار پایا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کو پہلے ہی نشست سے محروم کر دیا تھا۔ کمیشن نے انہیں سزا دلانے کے لیے عدالت میں کیس بھی کررکھا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت کے وزیراعظم نے تحائف کی ادائیگی کردی تھی۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مجوزہ قوانین کے مطابق تحائف خریدے جا سکتے ہیں۔ اعتراض ان کا یہ ہے کہ تحائف فروخت کرکے منافع انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کیا۔
گھڑی کی چوری کو گھناؤنا فعل قر ار دیا گیا کیونکہ عمران خان کی ساکھ مجروع کرنے والے تمام بیانیے کا دارومدار اسی پر تھا۔ تیرہ پارٹیاں مائنس عمران منصوبہ بنا چکی تھیں۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے انہیں عہدے سے ہٹایا جانا ضروری تھا اور عہدے سے ہٹانے کے لیے گھڑی کی خریدو فروخت کو دھماکہ خیز انداز میں جرم اور غیر قانونی سرگرمی کے طور پر پیش کرنا لازم تھا۔ اس مقصد کے لیے قوانین دریافت کیے جانے تھے جو الیکشن کمیشن
آف پاکستان کو انہیں نااہل کرنے کا جواز دیتے اور پھر انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا۔ اسی لیے عمران خان کی گرفتاری کی سرتوڑ کوشش جاری تھی۔ اس بیانیے میں کوئی جان تو تھی نہیں مگر اتنی گرد ضرور اڑا سکتا تھا جس سے حکومت کی مایوس کن کارکردگی اور خود کو بچائو کی مہم عوام کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔ زیادہ تر من گھڑت کہانیوں کی طرح توشہ خانہ بھی اب پی ڈی ایم کے لیے ایک دردِ سر بن چکا ہے۔ توشہ خانہ صرف مالیاتی ہیرپھر ہی نہیں بلکہ سیاست دانوں اور عوامی عہدے داروں کی ذہنیت بھی بے نقاب کرتا ہے:
1۔ تحائف ریاست کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ منصب داروں کے لیے: توشہ خانہ فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''خزانہ‘‘۔ مغل دورِ حکومت میں توشہ خانہ وہ جگہ تھی جہاں شہزادے موصول ہونے والے تحائف اور تمغے رکھتے تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کو سفارتی تحائف قبول کرنے کی اجازت نہ تھی۔ تحائف موصول ہونے پر انہیں جمع کرا دیا جاتا اور بعد میں دوسرے حکمرانوں کے ساتھ تحائف کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان میں توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے تحت ایک سرکاری محکمہ ہے۔ وقتاً فوقتاً ان تحائف کو ملکیت میں لینے کے ضابطے بدلتے رہتے ہیں۔ تخمینہ کے مطابق قیمت کے دس فیصد سے لے کر موجودہ پچاس فیصد تک یہ تحائف لاتعداد سرکاری اہلکاروں نے لیے ہیں۔ تحائف کی قیمت کا تعین غیرشفاف ہوتا ہے۔ دس لاکھ روپے کے تحائف کی قیمت پانچ لاکھ لگائی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر عوامی عہدے دار نے بیش قیمت اشیا پر اس بھاری رعایتی قیمت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے ان کی مادیت پرست ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ قانونی اور مالی قواعد کی پابندی کر رہے ہوتے ہیں لیکن پھر قواعد کون بناتا ہے؟ وہ خود۔ پاکستانی سیاست پر موروثی حکمرانی کا غلبہ رہا ہے۔ اس میں تصور ہے کہ ریاست کو ملنے والے تحفے حکمران خاندان کے ذاتی تحفے ہیں۔ سب سے عام تحفہ گھڑیاں ہیں۔ مہنگی ترین گھڑیاں عام طور پر مشرقِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرف سے تحفے میں دی جاتی ہیں اور انہیں خوشی سے قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد برائے نام نرخ پر خرید لیا جاتا ہے۔ شوکت عزیز 31گھڑیوں کے ساتھ سر فہرست ہیں۔ 2002ء سے شریف خاندان نے 17گھڑیاں جبکہ زرداری خاندان نے 11گھڑیاں لیں۔ یقینا یہ نامکمل ریکارڈ ہے کیونکہ 2002ء سے پہلے دونوں جماعتیں دو دوبار حکومت میں تھیں۔ شاہد خاقان عباسی سات گھڑیاں لے گئے اور ان کے تین بیٹوں کو بھی گھڑیاں ملیں۔ خواجہ آصف اور مریم نواز نے تو چادریں اور انناس تک بھی نہیں چھوڑے۔
2۔ چھپائیں‘ تلاش کریں اور لے اُڑیں: اگر یہ سب قانون کے مطابق تھا تو ریکارڈ پبلک کیوں نہیں کیا گیا؟ نواز شریف نے 2015ء میں اپنے دورِ حکومت میں ان تحائف کے لیے خفیہ ایکٹ بنایا جو بذاتِ خود بدنیتی پر مبنی تھا۔ کوئی بھی چیز جو خاص طور پر ایک ریاست کی طرف سے دوسری ریاست کو بطور تحفہ دی جاتی ہے اور وہ عوامی معلومات میں ہو‘ اسے کیوں چھپائیں؟اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سارے قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں‘ جنہیں عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر سب سے بڑا تحفہ مہنگی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کو گاڑیوں کو لے جانے کی اجازت نہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں نے یہ کام کیا ہے۔ 2008ء میں نواز شریف نے ایک مرسڈیز بینز جبکہ 2009ء میں آصف زرداری نے 2 بی ایم ڈبلیوز اور ایک ٹویوٹا لیکسس اپنے پاس رکھی۔ گویا کروڑوں روپے کی ہیرا پھیری کی۔ مریم نواز نے مبینہ طور پر 2006ء میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں دی گئی بی ایم ڈبلیو وصول کی اور اپنے پاس رکھی تھی۔ یہ سوالات برسوں سے انفارمیشن کمیشن کے سامنے اٹھائے گئے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اب جبکہ عدالت نے توشہ خانہ کی بلی کو تھیلے سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے‘ مزید دریافت اور تجزیہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں ایسے انکشافات سامنے آئیں گے جو موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی رات کی نیندیں حرام کر سکتے ہیں۔
3۔ غبن کرنے والوں کو سزا دینا: عمران خان پر توشہ خانہ کیس نے یقینا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ حکومت اب نہ پائے رفتن‘ نہ جائے ماندن کی صورتحال سے دوچار ہے۔ وہ اس کیس کو عمران خان کو سزا دینے اور بھاری جرمانے اور سزا کے ساتھ نااہل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے حکمرانوں نے ایسا رجحان قائم کیا جو انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان میں سے تقریباً سبھی نے توشہ خانہ سے تحائف بہت زیادہ تعداد میں اور قدرے کم شفافیت کے ساتھ لیے ہیں۔ عمران خان کے کیس میں تحائف کے اعلان کی نظیر انہیں بھاری سزائیں دلا سکتی ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگوں نے اپنے اثاثوں کا اعلان کیا ہے۔ اگر نہیں تو تحفے کہاں ہیں؟ کیا وہ دوبارہ بیچے گئے؟ اگر ہاں تو رسیدیں کہاں ہیں؟ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات اٹھیں گے کہ تحائف لینے والے افراد کیوں کر اس کے حقدار تھے۔ کیبنٹ ڈویژن کے فراہم کردہ ریکارڈ پر عدالت ناخوش ہے۔ توشہ خانہ کیس خزانے کی تلاش میں بدل سکتا ہے۔ عدالت اڑائے گئے مال کی تلاش کا حکم دے سکتی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں توشہ خانہ کے قوانین میں تبدیلی کی ہے تاکہ ان خوفناک تفصیلات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے کہ کس طرح اس سرکاری خزانے کو نجی خزانہ سمجھا جاتا رہا۔ 8مارچ کو نئے توشہ خانہ پروسیجر برائے تحائف کی قبولیت اور تصرف 2023ء میں وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے گائیڈ لائنز کا ایک تازہ سیٹ شامل ہے۔ میمو کے مطابق قوانین میں سب سے اہم تبدیلی میں 300 ڈالر سے زیادہ کے تحائف شامل ہیں جو توشہ خانہ کے قوانین کے مطابق فوری طور پر ریاست کی ملکیت بن جاتے ہیں۔ یہ ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ پہلے کی لوٹ مار پر سیاہی نہیں پھیرتا۔ یہاں تک کہ مستقبل میں بھی کامیابی ان اصولوں کی شفافیت اور پورے بورڈ پر اطلاق میں مضمر ہے۔ سرکاری عہدے داروں کے ہر بیرونی دورے پر ملنے والے تحائف سفر سے واپسی پر عوام کے سامنے لانے چاہئیں۔ پہلے اس کا محض تذکرہ ناقابلِ تصور تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ توشہ خانہ کے خزانے بہت قیمتی اور اہم ہوتے ہیں اور بعض اوقات انسان کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں