امید کی جنگ

''جتنے چاہو بلو جیز (Blue Jays) کو مار لو اگر تم ان کا نشانہ لگا سکتے ہو‘ لیکن یاد رکھو کسی گیت گانے والے پرندے‘ موکنگ برڈ کو مارنا گناہ ہے‘‘۔ یہ جملہ Harper Lee کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب1960ء میں اس وقت شائع ہوئی جب امریکہ جابرانہ دور سے گزر رہا تھا اور شہری حقوق کی تحریک کی قیادت ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کررہے تھے۔
سریلے پرندے کسی بھی معاشرے میں اچھائی کی علامت ہیں۔ نسل پرستی اور ناانصافی میں گھرا ہوا امریکی سماج انتہائی پستی سے دوچار تھا۔ یہ مشہور جملہ بتاتا ہے کہ جب جبر کی فضا گہری ہوتی ہے اور تشدد کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں تو اس وقت معقولیت برقرار رکھنے کا راستہ سریلے گیت گانے والے پرندوں کو ہلاک نہ کرنا بھی ہے۔ موکنگ برڈ انتہائی بے ضرر پرندہ ہے جو صرف گیت گاتا ہے۔ یہ پرندہ سخت اور سفاک ماحول میں نرمی کی علامت اور گھٹاٹوپ سیاہی میں روشنی کی رمق اور امید کی کرن ہے۔
پاکستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ صرف اس آواز کو دبانے کی کوشش نہیں جو ظلم کے خلاف اٹھی ہے بلکہ اس سے بھی خطرناک بات ہے کہ امید کے وہ غنچے کچلے جارہے ہیں جو ملک کے شہریوں کے دلوں میں کھلے ہیں۔ جو چیز لوگوں کو متحرک ہونے‘ منصوبہ بندی کرنے‘ کھڑے ہونے اور اچھے مقصد کے لیے لڑنے پر مجبور کرتی ہے وہ امید ہے۔ جب آپ کسی کی امید ختم کردیتے ہیں تو گویا اس شخص کو کاٹھ کے ڈھانچے میں بدل دیتے ہیں۔ حکومت کا یہی منصوبہ ہے۔ یہی ایجنڈا ہے۔ لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا‘ یہ سب بیکار ہے‘ کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ یہ چکر مایوسی سے شروع ہوتا ہے‘ مایوسی کو پروان چڑھاتا ہے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو ناامیدی پر ختم ہوتا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے کامیاب نہ ہونے کا بیانیہ دہرایا جا رہا ہے۔ اس ماحول میں تحریک انصاف کی طرف سے اعلان کردہ ہر چیز کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا بہت کم احساس ہے کہ وہ صرف عمران خان پر توجہ مرکوز کرنے اور اس طرح سیاست کے مرکز یعنی ووٹ اور ووٹر کو نظر انداز کرنے کے جنون کا شکار ہو چکے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کون سی جنگ جاری ہے اور تزویراتی سعی کا ہدف کیا ہے:
1۔ حکومت بالمقابل تحریک: ان حکمرانوں کے لیے جو طاقت پر انحصار کرتے ہیں‘آگے بڑھنے کا واحد راستہ مخالفین پر قابو پانا ہے۔ مزاحمت کو کچلنا ان کی حکمت عملی ہے۔ ان کے پاس وسائل کی بہتات ہے‘ وہ فیصلہ ساز بھی ہیں اور پھر ان کا منصوبہ بھی آزمودہ اور نتائج افزا ہے۔ عمران خان پر ذاتی اور سیاسی طور پر حملہ کرنے کی موجودہ حکمت عملی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ وہ گولی کا نشانہ بن چکے ہیں‘ انہیں لانگ مارچ چھوڑنا پڑا‘ پھر ان کی جسمانی حرکات و سکنات زمان پارک تک محدود تھیں۔ ذاتی حملے کے آڈیو صفِ اول میں کھڑے حامیوں کے لیے بھی ناگوار ہیں۔ شہباز گل‘ اعظم سواتی‘ فواد چوہدری جیسے ان کی ٹیم کے اراکین کی گرفتاریاں اور تشدد کچھ طبقوں میں خوف اور مایوسی پیدا کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ پائیدار نہیں ہے اور نہ ہی متاثر کن ہے۔ ایک حد سے بڑھ جانے والا خوف ایسا ردِعمل پیدا کرتا ہے جس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ دوسری طرف عمران خان اپنے پیروکاروں کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان کے پاس عہدہ‘ طاقت‘ وسائل نہیں ہیں لیکن وہ ذاتی کوششوں اور قربانیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے لوگوں کو حکومت کی یلغار کا مقابلہ کرنے کی تحریک دے رہے ہیں۔
2۔ الزام بالمقابل ذمہ داری: معیشت خوفناک ڈھلوان پر بے مہار دوڑ رہی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے بحران سے نبرد آزما ہونے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ (ن)لیگ کے دونوں وزرائے خزانہ کی اندرونی کشمکش شروع ہوگئی‘ جس نے پی ٹی آئی کو معاشی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے ان کے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اس طرح وہ اب دو متبادل حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے چونکہ ان کی 11ماہ کی حکومت کی نااہلی عقل و فہم سے ماورا ہے‘ انہوں نے اپنی 2013ء سے 2018ء کی کارکردگی کا تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی سے موازنہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گڑے مردے اکھاڑے کی سعی لاحاصل کسی کو متاثر نہیں کررہی۔ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ معیشت کی خرابی کو پچھلی تین دہائیوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور پھر کہا جائے کہ تحریک انصاف میثاقِ معیشت پر سنجیدہ نہیں۔ اس بات میں کچھ وزن ہے لیکن زیادہ نہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی حکومت سے مقبول سیاسی جماعت سے مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے کاروباری اور پیشہ ور افراد اپنی تحلیل ہوتی ہوئی آمدنی کو بچانے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو معیشت کو بچانے کے لیے پی ڈی ایم کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے لیکن یہ صرف دباؤ کے تحت کیے جانے والے قلیل مدتی مطالبات ہیں جو طویل مدت میں فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر پی ڈی ایم پارٹیاں گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت میں ہیں اور پاکستان کی ترقی میں مسلسل ناکام رہی ہیں تو وہ اپنے پیدا کردہ مسائل کا حل کیسے ہو سکتی ہیں؟
3۔ سازشیں بالمقابل انتخابات: جب آپ امید کا خون کر رہے ہوتے ہیں تو آپ امکانات کے تمام دروازے بند کرکے لوگوں کا احساس بڑھاتے ہیں کہ وہ بے بس اور لاچار ہیں۔ انتخابی عمل لوگوں کی امید وں کا چراغ روشن کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کوشش اس وقت بھی فرق ڈال سکتی ہے جب طاقتور لوگ ان کے خلاف ہوں۔ 17جولائی اور 16اکتوبر کے انتخابات نے تمام سیاسی طاقتوں کو شکست دی۔ یہ ایک بہت بڑی امید ساز پیش رفت تھی۔ جب 13جماعتوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا کہ انتخابات نہ ہوں۔ سب سے پہلے انہوں نے انتخابات کو ملتوی کرنے اور اسمبلی کو تحلیل کرنے سے روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتی تھیں کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی آئین کی خلاف ورزی کرنے والی ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومتی ایوانوں سے نظام انصاف میں اثر و رسوخ رکھنے والے منتخب افراد اور میڈیا کو انتخابی حکمت عملی کو یقینی بنانے کے لیے منظم کیا جا رہا ہے۔ اپنے غیر قانونی ارادوں کا کھلے عام پرچار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ بات کھلم کھلا بتانے کا‘ کہ عمران خان نااہل ہو جائیں گے اور گرفتار ہو جائیں گے‘ مقصد یہ ہے کہ اب خان کا کھیل ختم ہو چکا۔ ان کی تمام کوششیں اکارت جائیں گی۔ ڈھٹائی اتنی واضح ہے کہ وہ عمران خان کو ملنے والی جان سے مارنے کی دھمکیوں پر بھی کان نہیں دھرتے۔
4۔ ذاتیات بالمقابل سیاسیات: عمران خان پر حملے سب ذاتی نوعیت کے ہیں۔ آڈیو لیکس کا ہدف ان کی ساکھ کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ ان کا سلیکٹڈ کا سابق بیانیہ دھول بن کر اڑ چکا۔ پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ کی تاریخ میں 13پارٹیاں سب سے زیادہ چنی گئی ہیں۔ خان کی حکومت کو نااہل قرار دینے والے دوسرے بیانیے کا سامنا خود انہیں ہے کیوں کہ ان کی نالائقی نے معیشت کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔ توشہ خانہ کچھ آگے بڑھتا دکھائی دے رہا تھا لیکن پھر لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحب نے ماضی کی گفٹ لسٹیں طلب کر لیں۔ عوام کے نزدیک اس کیس میں بھی جان نہیں رہی۔ اب پوری توجہ یہ ثابت کرنے پر مرکوز ہے کہ عمران خان نے ڈیکلریشن پیپرز میں ٹیریان وائٹ کا اعلان نہیں کیا۔ اس سب کا مقصد صرف پی ٹی آئی اور عمران خان کو بدنام کرنا نہیں بلکہ عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا بھی ہے کہ وہ انہیں دوبارہ حکومت میں نہیں آنے دیں گے۔
زیادہ تر تحریکوں کو امید مہمیز دیتی ہے۔ جدوجہد مستقبل بہتر بنانے کی جدوجہد ہوتی ہے۔ طاقت‘ جبر اور دبائو توقعات کی کھیتی اجاڑ دیتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ ہتھکنڈے مردہ تن میں نئی روح بھی پھونک دیتے ہیں۔ پاکستان میں کیا ہوا ہے؟ ایک قو م جو بہت عرصہ سے جدوجہد کا باب بند کرکے قومی عمل سے لا تعلق تھی‘ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران یک لخت بیدار ہوکر آمادۂ عمل ہو چکی ہے۔ اس امید کا اظہار بار ہا اس جملے میں ہوتا ہے: عمران خان ہماری آخری امید ہیں۔ اور اسی کی وجہ سے انہیں عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مائنس عمران کا آپریشن جاری ہے۔ اسی لیے جیل بھرو کا آپشن اختیار کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے‘ جب تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں تو ہی امید کی کرن جگمگاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں