جیوری کا فیصلہ نوشتۂ دیوار ہے

آئین کی خلاف ورزی‘ ہجوم‘ شیلنگ‘ مار پیٹ‘ تشدد‘ فرار۔ عمران خان کی ہر سماعت کے موقع پر یہی مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ افسوس کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے اور آئین سے سرتابی کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کردیے۔ افسوس‘ جس شخص کی زندگی مسلسل خطرے کی زد میں ہے‘ اسے نشانہ بنانے کے لیے گھیرا جا رہا ہے۔ افسوس کہ قاتل (وہ شخص جس نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی) کو تو عملی طو رپر سہولت فراہم کی جارہی ہے‘ جبکہ وہ شخص جو قتل ہونے سے بال بال بچا ‘ اسے اس سے محروم رکھا جا رہاہے۔ قانون جانتا ہے‘ قانون ہی غالب ہے‘ قانون ہر چیز پر مقدم ہے‘ قانون ہدایت دیتا ہے اور قانون ہی قانون ہے۔ ان سب عوامل یا ان میں سے کچھ کا تعلق اس بات سے ہے کہ قانون پیش کون کررہاہے‘ قانونی شہادت کیا ہے اور فیصلہ کسے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے یہ جیوری‘ جج اور فیصلے کی بات ہے۔ مقدمے کے فریقین کی قسمت کا فیصلہ اسی بات پر ہونا ہے۔
غیرفعال سیاست کے ماحول میں دیگر ہر قسم کی حرکیات فعال ہیں۔ طاقت کے کھیل میں گورننس کے ستونوں جیسا کہ پارلیمنٹ‘ عدلیہ یا میڈیا کا ٹرائل ہورہا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کی باہمی کھینچا تانی اس نظام کی مضبوطی کو بھی آزمائش میں ڈال رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امریکہ اور برطانیہ جیسی جمہوریتوں کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ داخلی سیاسی ہنگامہ خیزی کے باوجود وہ فعال رہتے ہوئے اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے برطانیہ سیاسی طوفانوں کا مرکز رہا ہے۔ کئی ایک وزرائے اعظم آئے اور چلے گئے۔ کیمرون کے بعد تھریسامے‘ بورس‘ لزٹرس اور اب رشی سوناک۔ حکومتوںکا آنا جانا لگا رہا۔ امریکہ میں ٹرمپ کی لائی ہوئی تباہی اور بائیڈن کی گراوٹ کے باوجود نظام چلتا رہا۔ پاکستان میں طاقت کے کھیل کا تسلسل اور کھلاڑی اتنے زیادہ ہیں کہ سیاستدانوں کی آمد و رفت تمام نظام کو الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ ان مواقع پر دیگر ستونوں جیسا کہ عدلیہ اور میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جو بھی گردو پیش کے حالات ہوں‘ ان کا اپنا کردار ہوتا ہے جو وہ اپنے دائرے میں رہ کر ادا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنا سو فیصد درستی کے ساتھ ممکن نہ ہو لیکن ترقی یافتہ دنیا میں وہ کہیں زیادہ اور ترقی پذیر دنیا میں وہ کہیں کم ایسا کر پاتے ہیں۔ پاکستان میں اتحاد ان کے درمیان ہے جو زیادہ سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ چار بنیادی قوتیں درستی کے عمل سے کھلواڑ کررہی ہیں:
1۔ عدالتی فعالیت اور قطبیت: قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ ادارہ موضوع بحث رہا ہے۔ کبھی عدلیہ کو بے اختیار اور کبھی فرماں بردار دیکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدلیہ کے کردار پر دھبا ہے۔ بعد ازاں جسٹس عبدالقیوم کی آڈیو لیک جس میں شہباز شریف بینظیر کی سزا میں توسیع کا حکم دیا جا رہا تھا‘ نے عدالتوں اور ججوں کی ساکھ مجروع کردی۔ عمومی تاثر یہ بن چکا تھا کہ عدالتیں طاقتور دھڑوں کے کھیل کا میدان ہوتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے معاملے میں ضیا الحق اور بینظیر کے معاملے میں شریف خاندان پیش پیش تھا۔ 2015ء میں جسٹس جواد ایس نے اپنے مختصر دور میں زرداری اور شریفوں کے اربوں روپے کے کرپشن کیسز کو ختم کرنے پر سوال اٹھایا۔ بدقسمتی سے یہ دور چند ہفتوں کے لیے تھا۔ اس کے بعد زیادہ فعال
آصف سعید کھوسہ کا دور آیا جب نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کیس کا فیصلہ ہوا۔ اس کے بعد ثاقب نثار اور جسٹس گلزار کے دور میں جوڈیشل ایکٹوازم دیکھنے میں آیا۔ موجودہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) عدالتوں پر حملے کی اپنی تاریخ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عدالت میں صوبائی انتخابات کی تاریخوں کے معاملے کے ساتھ‘ مریم نواز نے عوامی خطابات میں سماعت کرنے والے ججوں کی تصاویر لہرا کے ان پر شدید حملہ کیا۔ اس سے بینچ نو کے بجائے پانچ ججوں کا ہو گیا۔ فیصلہ 3:2 کی اکثریت سے آیا اور اس میں اختلافی نوٹ شامل تھے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ انتخابات 90دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ اب الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے برعکس پنجاب میں انتخابات 8اکتوبر تک ملتوی کر دیے ہیں۔ سیاست کے غیرفعال ہونے سے عدالتوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔ بدلے میں عدالتیں اب قانون‘ طاقت‘ ایجنڈے اور دباؤ کے گرداب میں ہیں۔ اہم ٹولز آڈیوز‘ وڈیوز دھمکیاں اور لالچ بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ فیصلہ کرتے ہوئے کون کہاں کھڑا ہے ۔
2۔ سیاسی اور اقتصادی صورتحال: معیشت گر نہیں رہی‘ گر چکی ہے۔ تصورکریں کہ 20بلین ڈالر قرض واجب الادا ہے اور بمشکل دو بلین ڈالر خزانے میں موجود ہیں۔ کنٹینرز سے بھری بندرگاہوں کا تصور کریں جن میں لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور خوراک اوردرآمدی اشیا خراب ہورہی ہیں۔ تصور کریں کہ وزیر دفاع کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہو گیا ہے اور وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ڈیفالٹ نہیں ہے۔ تصور کریں کہ تمام عالمی ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی ریٹنگ مسلسل کم کر رہی ہیں۔ تصور کریں کہ گرانی کی شرح 42فیصد کے نشان کو چھو رہی ہے۔ اس کی کوئی انتہا نہیں اور نہ ہی حکومت کے پاس اس کا کوئی حل ہے۔ اس کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ کسی طرح عمران خان کو نااہل‘ گرفتار یا قتل کر دیا جائے۔ اس منظر نامے میں اس کے بعد کے انتشار اور غیرملکی حکم نامے کے سامنے مکمل ہتھیار ڈالنے کے مناظر سے سٹیک ہولڈرز لرزاں ہیں۔ پولیس نے جس طرح سے ایک ریلی کو گھیرے میں لیا جو شروع ہی نہیں ہوئی تھی اور ایک بے گناہ کارکن ہلاک ہوا‘ وہ حکومت کی مایوسی کا مظہر ہے۔ پولیس تشدد کے باوجود چیئرمین تحریک انصاف نے کارکنوں کو پرامن رہنے کی ہدایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کا دھڑن تختہ نہیں ہوا لیکن عدالتیں اپنی وراثت کے باوجود دباؤ کو محسوس کررہی ہیں۔
3۔ ''عوامی مفاد‘‘ کا سونامی: امریکہ میں جیوری عمائدینِ شہر پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں کیس کی سماعت کا جائزہ لینے اور فیصلہ سنانے کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ جج کو قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ ''عوامی مفاد‘‘ کا نعرہ بلند ترین ہے۔ 90سال کے بوڑھے سے لے کر ایک بچے تک سبھی اس فکر میں مبتلا ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا کیونکہ معلومات پر پابندی تھی اور عوام کی کوئی آواز نہیں تھی۔ سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی ہر ایک کے پاس رسائی ہے اور ہر ایک کے پاس پیش کرنے کے لیے ایک موقف ہے۔ اس سے سٹیک ہولڈرز پر ناقابل برداشت دباؤ قائم ہوا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ مخالفین تحریک انصاف/ عمران خان کو باہر کرنے کے لیے اکٹھی ہو چکے ہیں۔ وہ منصوبہ سمجھ چکے ہیں‘ وہ سازش جانتے ہیں‘ وہ حکمت عملی سمجھ چکے ہیں۔ مخالفین اس قسم کے دباؤ کے عادی نہیں۔ وہ سوچتے رہے ہیں کہ یہ ایک پارٹی کی طرف سے ٹرولنگ ہے۔ وہ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مشکل کا سامنا کررہے ہیں کہ ہر شہری اب یوٹیوبر یا ٹک ٹاکر ہے۔ انہیں یہ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ پابندی کے باوجود پوری دنیا میں لوگ ان کے بارے میں اتنے کھلے انداز میں بات کر رہے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کا ہر عمل رد عمل میں لاکھوں آوازوں کو ابھارتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ عدالتوں‘ اداروں اور حکومت کا تعاقب ایک ایسی صورتحال ہے جس کے وہ عادی نہیں تھے۔
معیشت‘ سیاست اور اقدار کے اس انحطاط میں سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ لوگ اب بھی پرعزم اور ثابت قدم ہیں۔ رضاکاروں کی گرفتاری نے تحریک کے جوش و خروش کو عملی شکل میں نمایاں کردیا ہے۔ جب چیئرمین تحریک انصاف لاہور ہائی کورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد جارہے تھے تو عدالتوں کے باہر کے مناظر بے مثال تھے۔ طویل سخت موسم گرما‘ خزاں‘ سردی اور بہار کی آمدو رفت کا پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد دائرہ مکمل ہو چکا ہے۔ بہت سے افسانے بکھر چکے ہیں۔ بہت سی تصویریں ٹوٹ چکی ہیں۔ بہت سے چہروں پر سے نقاب سرک چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جج اب بھی اپنے فیصلے میں متذبذب ہوں لیکن جیوری کا فیصلہ یہ ہے کہ ''پاکستان کے لوگ کھڑے ہوں گے اور ان کا شمار کیا جائے گا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں