منصوبہ تمام ہوا!

''اپنے منصوبے کی وجہ سے آخرکار ہر ٹیکنیک یا تو کامیاب ہوتی ہے یا ناکام‘‘۔ جم سٹین میئر (Jim Steinmeyer) ٹیکنیک یہ ہے کہ سب سے پہلے دیکھا جائے کہ کون سا منصوبہ کام دے گا۔ اس کے بعد یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اگر منصوبہ جان دار نہیں تو لوگوں کو چکما دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے پر عمل کرنے والے عام طور پر منصوبہ ساز نہیں ہوتے اور اس طرح داؤ پیچ کھیلنے کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا آغاز جوشیلا اور انجام دھماکہ خیز ہو سکتا ہے لیکن خبردار‘ ہونی ہوکر رہی۔ جی ہاں! اور یہ بھی منصوبے کا حصہ ہی تھا۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ گزشتہ سال جو کچھ ہوا‘ اس کی کئی ماہ تک منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو۔ کچھ سوچتے تھے کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے کہانی کے غبارے سے خود ہی ہوا نکل گئی لیکن زیادہ تر کا خیال تھا کہ اس منصوبے کی عمر تھی ہی ایک سال۔
منصوبہ کسی موضوع کا خاکہ ہوتا ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے واقعات کا تسلسل ضروری ہے۔ یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات کا رخ مرکزی واقعے کی طرف تھا۔ یہی اس منصوبے کی تفصیل ہے۔ اس پس منظر میں عدم اعتماد کا ووٹ‘ وفاداریوں کی تبدیلی‘ مخالف جماعتوں کا اتحاد‘ سب چھوٹے چھوٹے واقعات تھے جو مل کر بالآخر نو اپریل 2022ء کو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ یہاں تک تو منصوبہ ٹھیک تھا‘ لیکن اس کے بعد جوکچھ ہوا‘ وہ منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ وہ چیزیں ہوئیں جو کسی منصوبہ ساز کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ لوگ جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئے۔ تحریک انصاف نے سوشل و مین سٹریم میڈیا پر مرکزی توجہ حاصل کر لی۔ ان توجہ دینے والوں کو کئی ایک مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ارشد شریف بھی انہی میں سے ایک تھا جو کینیا میں پولیس گردی کا نشانہ بن گیا اور پھر اس منصوبے کے واقعات قابو سے باہر ہونے لگے۔ تین چیزوں سے پتا چلتا ہے کہ شاید ہم ڈرامے کے حتمی مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
1۔ تخت کی وارث آن پہنچے: مریم نواز واپس آ چکیں۔ ان کی واپسی کا مطلب ہے کہ انہوں نے منصوبے کو واضح شکل دینے کے لیے حکمت عملی طے کر لی ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں بہت واضح ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے‘ گرفتار کیا جائے اور سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ نواز شریف دوبارہ اہل ہوں‘ مقدمات سے بری ہو جائیں اور پھر وزیراعظم کے طور پر منصب سنبھال لیں۔ اس دوران پارٹی کے ردِعمل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نواز شریف نے اپنی بیٹی کو مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر جیسے اہم عہدوں پر فائز کردیا۔ ردِعمل آئے اور نظر انداز کر دیے گئے‘ لیکن ان کے نتیجے میں پارٹی میں رخنہ پڑ گیا۔ مریم کی واپسی کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھی۔ ان کی تقریریں جتنی جارحانہ ہیں‘ اتنی ہی بے معنی بھی ہوتی ہیں۔ تقریروں میں حاضر سروس شخصیات کا نام لے کر تنقید نئے بیانیے کی تصدیق کرتی ہے۔ ڈیل یہ تھی کہ ایک شخص کے علاوہ باقی جس کو مرضی رگید ڈالو‘ کو ئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اور کسی نے بگاڑا بھی نہیں۔ لیکن یہ بیانیہ اس وقت دھول بن کر اڑ گیا جب ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز نے مریم نواز کی ماضی کی تقریروں کا حال سے موازنہ کر کے آئینہ دکھا دیا۔ اس دوران ہر شہر میں شاہی ٹولہ ٹیکس دہندگان کے وسائل ہوا میں اڑا رہا ہے حالانکہ مریم نواز کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں لیکن حکومتی سطح پر کسی میں اس حوالے سے سوال کرنے کی ہمت نہیں۔
2۔ غلط اہداف کو نشانہ بنانا: اس دوران ''الیکشن نہیں‘‘ کا کھیل زوروں پر تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے گورنر کی مشاورت سے الیکشن کمیشن کو 90روز میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے احکامات کے باوجود کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ سپریم کورٹ نے آخر کار از خود نوٹس لیا۔ اس پر عدالت عظمیٰ میں تین دن تک پُرمغز بحث ہوئی جس میں تقریباً تمام فریقین نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ 9 ججوں پر مشتمل لارجر بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ کارروائی کا آغاز منصوبے سے باہر نہیں تھا۔ کچھ جج اس پر بحث کرنا چاہتے تھے کہ کیا اس مسئلے پر از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے؟ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ پہلے اسمبلیاں کیوں تحلیل کی گئیں۔ کچھ نے ایک ساتھی جج کو شامل کرنے پر سوال اٹھایا۔ اگلے روز 4 ججوں نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔ ان میں سے دو سوموٹو پر ان کے تکنیکی اعتراض کی وجہ سے اور دو حکومتی حلقوں کے تحفظات کی وجہ سے الگ ہوئے۔ مریم اور پی ڈی ایم والے خوش تھے کہ ان کے پاس اکثریت ہے۔ تاہم تین دو کی اکثریت سے نتیجہ ہر قیمت پر نوے دن میں انتخابات کے حق میں سنایا گیا۔ اس نے پی ڈی ایم کے ہاتھ پائوں پھُلا دیے۔ وزیر قانون نے بیان دیا کہ اگر آپ ان دو ججوں کو بھی شامل کریں جنہوں نے اس بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تو فیصلہ چار تین سے انتخابات نہ ہونے کے حق میں ہے۔ ایسے بودے جواز پی ڈی ایم کے کھوکھلے پن کا کھلا اظہار ہیں۔ وہ اتنی ناکامیوں کے باوجود اب بھی ایسے حالات پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو انتخابات کو ناممکن بنادیں۔ اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہے۔
3۔ حکومتی دباؤ بمقابل عوامی دبائو: سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ایک اور منصوبے کے خدوخال واضح ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایک اصل اور پُرکشش منصوبہ ہے۔ عوام شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگائی کی شرح 41 فیصد سے زائد تک پہنچ چکی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت اقتصادی میدان میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ سازش یہ تھی کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جس سے تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل تاریک بنایا جا سکے۔اب آئے روز آڈیو لیک کی جارہی ہیں۔ کچھ دیگر کے علاوہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی سابق سی سی پی او لاہور کے ساتھ آڈیو لیک ہوئی۔ اس سے کچھ ہلچل ہوئی لیکن لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مہنگائی کا جبر برداشت کرتے ہوئے آڈیو سنیں گے جب کہ ان کے پاس خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔ لوگ حیران ہیں کہ پی ڈی ایم کی ساری باتیں عام آدمی کے بجائے عمران خان کے گرد گھومتی ہیں۔ دوسری طرف تضادات بہت زیادہ ہیں۔ عمران خان کے خلاف کیسوں میں انہیں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف 75کے قریب ایف آئی آر درج ہیں۔ عمران خان کی درخواست یہ ہے کہ ان پر قاتلانہ حملے کے دوران بندوق کی گولیوں کی وجہ سے ٹانگ کا زخم ابھی تک نہیں بھرا۔ ان کی درخواست ہے کہ وہ ویڈیو لنک پر پیش ہوں گے۔ اس سے انکار کر دیا گیا اور ان کے خلاف اس حکم کے ساتھ وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جائے۔ عوام زیادہ باشعور ہیں۔ انہوں نے یہ آواز اٹھائی کہ جس شخص نے عمران خان کو گولی ماری اور اس نے اعترافِ جرم کیا‘ اسے تو لائیو وڈیو لنک کی سہولت دی جاتی ہے کیونکہ اس کی جان کو خطرہ ہے مگر ستم ظریفی یہ کہ جس کو گولی لگی اور اس کے لیے ایک اور قاتلانہ حملے کا منصوبہ تیار ہے‘ اسے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا جارہا ہے۔ یعنی جو قاتل ہے‘ اسے ریلیف دی جا رہی ہے اور جو گولی کا نشانہ بنا اس کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔ یہ صورتحال کئی کہانیوں کی گرہ کھولتی ہے۔ اس نے سارا پول کھول دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ اس میں بھی خطرہ ہے لیکن جب عمران خان لاہور اور اسلام آباد میں پیشی پر پیش ہوئے تو وہاں ریکارڈ ہجوم کا سیلاب امڈ آیا۔ ان مناظر نے 13 جماعتوں کے کسی بھی منصوبے کو غیر متعلقہ بنا دیا ہے۔
حکومتی منصوبہ سازوں کو اندازہ نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے کہ ہر منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے‘ اگر یہ خوش فہمی پر مبنی ہو۔ اگر اس کی بنیاد صرف اور صرف انتقام پر ہو۔ اگر اس کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو۔ کھوکھلی بنیادوں پر استوار اس عمارت کی قسمت میں ڈھے جانا ہی لکھا ہوا ہے۔ حکومتی منصوبہ سازوں کے اب خود پریشان ہونے کا وقت آیا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب کوئی منصوبہ عملی جہت اختیار کرنے سے پہلے ہی بے نقاب ہو جائے تو یہ سمجھ لیں کہ فریق لڑنے سے پہلے ہی اپنی80فیصد جنگ ہار چکا۔ ایک عمر رسیدہ تجزیہ کار کو گرفتار کرنا بھی حکومت کی کوئی اچھی منصوبہ بندی نہ تھی۔ حکومت کو بھی ایسی انتقامی کارروائیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ زندگی بذات خود ایک زیرک منصوبہ ہے۔ منصوبہ ساز ہستی انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ اور وہی بہترین منصوبہ ساز ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے منصوبے ناقص ہوتے ہیں‘ ان کے عزائم منفی ہوتے ہیں‘ اس لیے ناکامی ان کی منتظر ہوتی ہے‘ چاہے دنیا کی تمام طاقتیں ان کے ساتھ ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب حکومتی منصوبہ سازوں کا احتساب ہوگا؟ اس سوال کا جواب اس بات کا تعین کرے گا کہ اب اگلا منصوبہ کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں