شہنشاہ کا لباس

لوگ دھوپ میں کھڑے گھنٹوں انتظار کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آٹے کے تھیلے ان کی طرف اچھالے گئے‘ آٹے کے ساتھ عزت بھی رزقِ خاک ہوئی۔ انسانوں کو تیسرے درجے کے 10کلو آٹے کے تھیلے کے لیے لڑتے اور اپنی جان گنواتے دیکھنا دل شکن تھا۔ دل پارہ پارہ تھا لیکن صرف اُن کا‘ جن کے سینے میں دل ہے‘ وہ جو خود کو انسان سمجھتے ہیں۔ ملک‘ صنعت اور عوام کی ابتر صورتحال پر حکومت کی سرد مہری خوف ناک ہے۔ جس دوران ملک سماجی انتشار کے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے‘ حکمران سکیمیں لڑانے میں مصروف ہیں کہ وہ ایسا کون سا حربہ استعمال کریں کہ اپوزیشن کو کچل سکیں‘ اسے دندان شکن جواب دے سکیں اور اس کی ہر بات مسترد کر سکیں۔
ملک ورطۂ حیرت میں ہے بلکہ دنیا بھی حیران ہے کہ جو چیز سب کے لیے اظہر من الشمس ہے کہ حکمرانوں کا سیاسی سرمایہ ڈوب رہا ہے‘ وہ خودحکومت کو کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ آئی ایم ایف نے یہ بات کی ہے‘ عالمی بینک نے یہ دکھا دیا ہے‘ عالمی اشاعتوں نے اس کا تجزیہ کیا ہے‘ تمام ملک اس پر چیخ رہا ہے۔ پھر بھی وزیراعظم شہباز شریف لاہور کے نامکمل فلائی اوور پر گئے اور وہاں لوگوں کو معطل کرکے منصوبے کو فوری طور پرمکمل کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعظم‘ اس کا بھائی اور اس کی بیٹی سعودی عرب کے شاہی مہمان بنے لیکن اس دوران ملک میں عوام کی زندگی جہنم بنی رہی۔ عوام اور حکمرانوں میں تضاد تو ہمیشہ سے تھا لیکن اتنا شدید کبھی نہیں جتنا آج کل ہے۔ یہ احساس ابھی تک نہیں ہو پایا کہ دونوں کی زندگی میں یہ فرق اب اس مرحلے پر ہے جہاں اگلے قدم پر شورش کے خار زار ہیں۔ ماضی میں اس مرحلے سے گریز کر لیا جاتا تھا لیکن اب وقت تبدیل ہو چکا اور حکمرانوں کی زیادتیوں نے بھی عوام کے سامنے کوئی متبادل نہیں چھوڑا:
1۔ شہنشاہ کا نیا لباس: اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ ملک معاشی اور سیاسی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ یہ شہنشاہ کے نئے لباس کا اثر ہے۔ یہ ہنس کرسچن اینڈرسن کی لوک داستان ہے۔ ڈنمارک کے شہنشاہ کو شان و شوکت اور نمود و نمائش کا بہت خبط تھا۔ وہ سرکاری خرچ پر اپنے کپڑوں پر شاہانہ خرچ کرتا۔ دو دھوکے باز شہر میں آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ وہ اس کے لیے ایسے کپڑے تیار کرنے جارہے ہیں جو بہت شان دار ہیں لیکن وہ کپڑے احمقوں یا نااہل لوگوں کو دکھائی نہیں دیں گے۔ شہنشاہ اور اس کے اہل کار کپڑا تیار کرنے والی لوم کو دیکھنے جاتے ہیں۔ سب دکھاوا کرتے ہیں اور کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی احمقوں میں شمار نہیں ہونا چاہتا۔ آخر کار وہ دن آ جاتا ہے جب شہنشاہ سوٹ پہن کر شہر میں چلتا ہے۔ ایک بچہ بتاتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں پہنا ہوا لیکن شہنشاہ فخریہ انداز میں چلتا ہے اور عوام کی تمسخر بھری نظروں کا نشانہ بنتا ہے۔
یہ پی ڈی ایم حکومت کی کہانی ہے۔ اسحاق ڈار بتا رہے ہیں کہ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں اور آئی ایم ایف چند دنوں میں پیکیج جاری کرنے والا ہے۔ رانا ثنااللہ ڈنکے کی چوٹ پر بیانات دے رہے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ ان یقین دہانیوں کے ساتھ وزیراعظم ملک میں سب اچھا ہے کا بہانہ بنا کر گھوم رہے ہیں۔ عوام بے وقوف نہیں۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حکومت کی نااہلی اور نالائقی نے ملک کے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ان کا واحد مقصد عوام کے وسائل پر اپنے شاہانہ قیام کو طول دینا ہے۔ خسارے کو کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں‘ آمدنی بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں‘ آئی ایم ایف کے سامنے حقیقی حکمت عملی پیش کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں‘ مہنگائی کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں‘ حال ہی میں غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے مزید 39لاکھ لوگوں کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ اور کوئی منصوبہ بندی ہے ہی نہیں۔ حکومت کی نہ کوئی سمت ہے‘ نہ فعالیت اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی حکمت عملی۔ اس بحران کے باوجود وزیراعظم اور ان کا خاندان سعودی عرب میں اپنے استقبال پر نازاں ہے۔ یہ صرف ستم ظریفی نہیں بلکہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
2۔ خارجہ پالیسی: موجودہ حکومت خارجہ پالیسی تقریباً تبدیل کر چکی ہے۔ سیلاب کے لیے امداد کے حصول کے لیے امریکہ اور یورپ کے ابتدائی دوروں اور علاقائی کانفرنسوں میں وزیر مملکت نے برائے نام شرکت کی۔ انسدادِ دہشت گردی کے لیے مزید رقم مانگنے کے علاوہ امریکہ کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے لیے امداد کے علاوہ یورپ کے لیے کوئی پالیسی نہیں۔ لوگ آپ کو اہم اجلاس میں کیوں بلائیں گے اگر آپ کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ مودی کو مسلسل بے نقاب کرنے پر مجرمانہ غفلت اور حکومت کے بودے اور بے جان بیانات ناقابلِ معافی ہیں۔ پلوامہ حملے پر بھارت نے کھلبلی مچا دی جبکہ پاکستان میں اس موضوع پر سکوت طاری ہے۔ پلوامہ ایک خود ساختہ فالس فلیگ آپریشن تھا جس کا ہدف پاکستان تھا۔
ستیہ پال ملک 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے گورنر تھے۔ اس وقت قافلے پر حملے میں 40 بھارتی فوجی مارے گئے تھے اور سارا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا تھا۔ کرن تھاپر کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ داخلی سلامتی کی تمام خامیاں اس نے براہِ راست اس وقت دیکھیں جب مودی نے انہیں اس واقعے کے فوراً بعد کاربٹ پارک کے باہر سے فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے ان سے کہا کہ اس بارے میں چپ رہیں اور کسی کو نہ بتائیں۔ ستیہ پال کا کہنا تھا کہ این ایس اے اجیت ڈوول نے بھی ان سے کہا کہ وہ خاموش رہیں اور اس بارے میں بات نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں فوراً احساس ہو گیا کہ اس کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا اور حکومت اور بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ ایک بڑا سکینڈل تھا جس پر وزیر خارجہ کو کم از کم پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھی تاکہ میڈیا میں بھارت کا اصل چہرہ اجاگر کیا جا سکے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
3۔ رائے دہندگان کا اشتعال: جب ملک کا سربراہ ہی کچھ نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس ظاہر کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے دماغ اور بصارت بھی نہیں۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ آٹے کے تھیلے مفت دے کر وہ عوام کے اشتعال کو ختم کر دیں گے۔ انہیں لگتا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی جھوٹی یقین دہانی کرا کے وہ صنعتی برادری کی ناراضی کا مقابلہ کرسکیں گے۔ انہیں لگتا ہے کہ فنڈز کی کمی کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر وہ ووٹروں کو پرسکون کر دیں گے اور ان پر کوئی تنقید نہیں ہوگی لیکن عوام تیار اور منتظر ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عوام کی طاقت کا مظاہرہ آزمائش کا وقت آنے پر ہوگا۔
لوک داستانوں میں شہنشاہ عوام کا پیسہ خرچ کرتا تھا۔ شہنشاہ کے آدمیوں نے اسے بے وقوف بنایا۔ وہ اتنا خود پسند تھا کہ خود کو دیکھنے سے قاصر رہا۔ وہ طنز اور استہزا کا نشانہ بن گیا۔ عوام کی جیت ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوام کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام کی اذیت اور تکلیف میں اضافہ ہورہا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ان چیخوں کا نتیجہ لہو رنگ نکلنے کے بجائے آئینی اور قانونی نجات کی صورت نکلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں