مقابلہ‘ مقابلوں کا …!

اندھا دھند گولیاں چلائو‘ فائرنگ کرتے رہو‘ ہدف کی ہلاکت تک نہیں ‘ گولیاں ختم ہونے تک۔ اِس کو‘ اُس کو‘ سب کو گولی مار دو۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پولیس اور اس کے مختلف محکموں کے کام کا معیاری طریق کار (SOP) یہی ہے۔ ساہیوال سانحہ ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے اور جو بات ہم گزشتہ سات دہائیوںسے کہہ رہے ہیں کہ پولیس عام شہریوں کی سکیورٹی کیلئے ایک خطرہ بن چکی ہے‘ وہ باربارسچ ثابت ہو جاتا ہے ۔اس موضوع پر کئی ایک مضامین لکھے گئے ‘ مباحثے ہوئے‘ لیکن صورت ِحال جوں کی توں ہے ۔
ہر قتل خوفناک ہوتا ہے ‘ لیکن قانون کے محافظوںکے ہاتھوں قتل مز ید ہولناک ہے‘ کیونکہ قاتلوں سے نفرت کی جاتی ہے ۔ ایسی سرگرمیوں کے خلاف ریاست اور معاشرہ فوری ردِعمل دیتا ہے ۔ قاتلوں کو پکڑا جاتا ہے اور قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے سز ا دی جاتی ہے ‘ لیکن قانون کے ہاتھوں قتل کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں پہلے تو معروف معنوں میں قتل سمجھا ہی نہیں جاتا‘ بلکہ عوام کے وسیع تر مفاد اور تحفظ ِعامہ کے لیے چند دہشت گردوں کی ہلاکت کیلئے کی گئی کارروائی کانام دے کر ورق پلٹ دیا جاتا ہے ۔بادی النظر ایسا جواز درست معلوم ہوتا ہے ‘کیونکہ طاقت کا اندھا استعمال ایسے افراد کے خلاف کیا جاتا ہے‘ جو دوسروں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔یہ وضاحت قانونی پیچیدگیوں‘ ایس اوپیز اور آئینی انحراف کو دبا دیتی ہے ؛ چنانچہ دل دہلا دینے والے قتل بھی ''قانونی اور قابل ِفہم‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔
ساہیوال واقعے نے قوم کو شدید صدمے سے دوچار کردیا۔ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق ؛وہ کار ایک سابق دہشت گرد کی تھی۔ بس ‘پھر کیا تھا‘اس پر اندھا دھند فائر نگ کی گئی۔ شادی پر جانے والے نہتے شہریوں کو بلا اشتعال خون میں نہلا دیا گیا۔ والد ‘ والدہ اور اُن کی تیرہ سالہ بیٹی کو گولیوںسے چھلنی کردیا گیا ‘ جبکہ اُن کے دہشت زدہ چھوٹے بچوں نے اپنی آنکھوںسے یہ ہولناک منظر دیکھا۔ کیا اس سے زیادہ کرب ناک تصویر چشم تصور میں آسکتی ہے کہ آپ کاخاندان کسی وجہ کے بغیر خوفناک حملے کی زد میں آجائے؟ ان بچوں کے ذہنی اور جذباتی صدمے کو حکومت یا ریاست کی کوئی وضاحت ختم نہیں کرسکتی ہے ۔ 
یہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ تو نہیں‘لیکن امید کی جانی چاہیے کہ یہ آخری ہوگا۔ عوام کے تحفظ کے بغیر ترقی کا مطلب تباہی ہے۔ قانون کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادوشمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ انسان حقوق کمیشن پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق؛ جنوری 2014 ء سے لے کر مئی 2018ء تک 3,345 افراد پولیس مقابلوں میں جاں بحق ہوچکے۔ ''پولیس مقابلہ‘‘ کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں میں 23 خواتین اور 12 بچے بھی شامل ہیں۔ جنوری 2014 ء سے لے کر مئی 2018ء تک پولیس مقابلوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں سندھ پہلے نمبر پر ہے ۔ اس عرصے کے دوران سندھ پولیس کے ہاتھوں 1,592 افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ دوسرا نمبر پنجاب کا ہے‘ جہاں 1036 پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1,556 تھی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سندھ اور پنجاب کی نسبت پولیس مقابلوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ خیبرپختونخوا میں ایسے واقعات کم ترین ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق؛ جنوری 2014 ء سے لے کر مئی 2018ء تک خیبرپختونخوا میں صرف 54 پولیس مقابلے ہوئے‘ جن میں جاں بحق ہونے والوںکی تعداد 71 بتائی جاتی ہے ۔ 
یہ فرض کرنا بھی درست نہ ہوگا کہ تمام پولیس مقابلے جعلی ہوتے ہیں‘ لیکن افشا ہونے اور میڈیا تک پہنچنے والی کہانیاںایسے واقعات میں مربوط نظام‘ پیشہ ور صلاحیت اور انسانی ہمدردی کا فقدان ظاہر کرتی ہیں۔ پولیس ''ٖفورس‘‘ کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے یا عوام اور کارکردگی کا جواب دینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایک سابق ایڈیشنل آئی جی کا کہنا کہ کس طرح ان مقابلوںکے ذریعے مجرموں کے خاتمے کی بجائے کچھ دیگر مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اُن کے مطابق ؛ما ضی میں پولیس مقابلوں کو حکومت یا سینئر پولیس افسران کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے‘ لیکن ہر وقت ایسا نہیں ہوتا۔کچھ پولیس افسران ایسے ''کام ‘‘ اپنے طو رپر بھی انجام دیتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پہلے پہل تو پولیس مقابلے کسی قدر نیک نیتی سے کیے جاتے ہیں۔ پولیس کو خدشہ ہوتا ہے کہ ایسے ہائی پروفائل مجرم کوممکن ہے کہ عدالت سے سزا نہ مل سکے؛ چنانچہ اُسے مقابلے میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کسی مجرم کے مخالفین سے رقم لے کر بھی یہ ''کام ‘‘کیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات دونوں پارٹیوں سے رقم لی جاتی ہے اور پھر بس رہے نام اﷲ کا۔ ایسی شہرت رکھنے والے افسران کچھ سیاست دانوں کے بھی کام آتے رہتے ہیں۔ 
ساہیوال سانحہ سے تین ناکامیاں صاف دکھائی دیتی ہیں: پہلی ؛انٹیلی جنس اورکائونٹر ٹیررازم کوارڈی نیشن کی ناکامی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کسی کار کی معلومات بھیجی گئی ہوں ‘جبکہ اُس میں عام شہری سفر کررہے تھے۔ دوسری؛ اپریشنل ناکامی ہے ۔ کار کو ٹائروں پر فائرنگ کرکے کیوں نہ روکا گیا۔ اس کے بعد مسافروں کو باہر نکال کر تلاشی لی جاسکتی تھی‘ لیکن اس کی بجائے نہایت سفاکی سے نہتے اور بے گناہ شہریوں اور نوعمر بچی کو بے رحمی سے خون میں نہلا دیا گیا۔ تیسری؛ سیاسی ناکامی تھی۔ سیاسی قیادت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر تبصرے کیے‘ جو بعد میں حکومت کیلئے شرمندگی اور متاثرہ خاندان کیلئے تکلیف دہ ثابت ہوئے ۔ 
حقیقی ناکامی گزشتہ سات عشروں سے پولیس میں اصلاحات نہ لانا ہے ۔ اس کی وجہ سیاسی غفلت ہے ۔ایک سوپچاس سال پرانا پولیس کا نظام‘ جو 1861ء میںانگریز نے قائم کیا تھا‘ ہر حکومت نے من و عن نافذ رکھا۔ صرف خیبرپختونخوا حکومت نے اسے تبدیل کیا اور وہاں نتائج دیکھے جاسکتے ہیں۔ نئی حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر ایک مختصر مدت کی حکمت ِعملی اپنائے‘ تاکہ آپریشن کے دوران مہلک خامیوں اور غلطیوں کے امکان کو ختم کیا جاسکے۔ اس کیلئے معلومات ‘ آپریشن اور اس کے ذمہ داران کی جانچ ضروری ہے۔ جے آئی ٹی نے وقت مانگاہے‘ جبکہ اپوزیشن نے درخواست کی ہے کہ اس میں مزید ماہرین کو شامل کرلیا جائے۔ دونوں معقول باتیں ہیں۔ ضروری ہے کہ حتمی رپورٹ جامع ہو اور اس میں تمام کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہو ‘تاکہ آئندہ ایسے سانحات کا تدارک ہوسکے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ ایک طویل المدت حکمت ِعملی درکارہے ۔ اس نظام میں اصلاحات ہی اصل چیلنج ہے۔ ان کیلئے نا صرف پولیس کے محکمے ‘ بلکہ سیاسی قیادت‘ عوام اور میڈیا کی سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔ بنیادی اصلاح تو پولیس ''فورس‘‘ کو تبدیل کرکے پولیس ''سروس‘‘بنانا ہے۔ پولیس افسر کا اصل کام پاکستان کے شہریوں کو ہراساں کرنا ‘ انہیں دھمکیاں دینا یا اُنہیں بلاوجہ گولیوں کا نشانہ بنانا نہیں‘ بلکہ انہیں سہولت فراہم کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی درکار ہوگی۔ آئی جی عباس خان کی پولیس پر1992 ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے بیس ہزار سے زیادہ افراد کو پولیس میں بھرتی کیا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ ٹریننگ صرف پیشہ ورانہ مہارت کی ہی نہیں ‘بلکہ رویے‘ اخلاقیات اور نفسیات کی بھی ہونی چاہیے ۔
ان امور کیلئے بہت وقت درکار ہوگا‘ لیکن قلیل المدت اقدامات وقتی فائدہ ہی دیں گے۔ سوچ اور عمل کی تبدیلی کیلئے وقت چاہیے ۔ ساہیوال میں صدمے کا شکارہونے والے بچوں ‘ جن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے والدین کو گولیوں سے بھون دیا گیا‘ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ریاست میں آئندہ کوئی بچہ کسی ''ٖفورس‘‘ کا نشانہ نہ بنے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں