انسداد ِ دہشت گردی کی کوششوں پر نظر ِثانی کی ضرورت

دہشت گردی مشرق سے شروع ہوتی اور مغرب کو متاثر کرتی ہے ۔ دہشت گردی کی فنڈنگ شمال میں ہوتی ہے اورجنوب کو غیر مستحکم کرتی ہے۔ دہشت گرد ایک مسخ شدہ نظریے کے پیروکار ہیں۔ مخصوص سوچ کو پھیلانے کے لیے دہشت گردوں کو فنڈ ز فراہم کیے جاتے ہیں۔ دشمن ممالک پراکسی جنگیں لڑنے کے لیے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں‘ علیٰ ہذاالقیاس۔ دہشت گردی کی وجوہات اور اثرات کا تعین کرنے کے لیے گزشتہ ایک عشرے کے دوران بہت سے تصورات کی کڑیاں ملائی گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اخذ کیے گئے تمام نتائج پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔ دہشت گردی اب کسی خاص علاقے تک محدود نہیں رہی ۔ اس کی سوچ‘ ہدف‘ گہرائی‘ نامیاتی ساخت‘ اساس‘ وسعت‘ اثر‘ عروج‘ فنڈنگ‘ نفسیات‘ مہارت اور رسائی اب غیر متوقع مقامات پر بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ طریق ِکار اور اوقات بھی چونکا دینے والے ہیں۔ تاہم دہشت گردی کی اصل جڑ کو جاننا ‘ اور یہ پتہ چلانا کہ تمام تر اقدامات کے باوجود یہ پھیلتی کیوں جارہی ہے‘ ضروری ہے ۔ سری لنکا میں ایسٹر پر گرجا گھروں میں ہونے والے افسوس ناک حملوں میں تین سو کے قریب افراد جاں بحق ‘ا ور پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ترجیحات کا از سر ِ نوجائزہ لیا جانا ضروری ہوچکا ہے۔ 
سری لنکا میں پیش آنے والی واقعات انتہائی چونکا دینے والے ہیں۔ یہ وہ مثالی ملک تھا جس نے کئی عشروں کی دہشت گردی کے بعد ایسا امن حاصل کیا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں ایک پٹاخہ بھی نہیں چلا تھا۔ وہاں ہونے والے خوفناک دھماکے یا د دلاتے ہیں کہ دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ جڑیں‘ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک میں ‘ نوآبادیاتی دور میں گڑی ہوئی ہیں۔ خانہ جنگی کی جڑیں'' تقسیم کرواور حکومت کرو‘‘کی برطانوی پالیسی میں پیوست ہیں۔ سری لنکا میں دوبڑے گروہ ہیں‘ تامل اور سنہالی۔ سنہالی اکثریت کا خیال تھا کہ انگریز تامل اقلیت کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ جب 1948 ء میں برطانوی نوآبادیاتی دور ختم ہوا تو سنہالی اکثریت نے کاشت کاری کرنے والے تامل کسانوں کو بے دخل کردیا‘ سنہالا کو ملک کی سرکاری زبان ‘اور بدھ مت کو ملک کا مذہب قرار دے دیا۔ تامل باشندوں نے احساس ِ محرومی سے مغلوب ہوکر آزادی کی تحریک شروع کردی۔ انہیں 1976 ء میں ویلوپیلائی پرابھکران کی صورت ایک لیڈر مل گیا جس نے تامل ٹائیگر تنظیم تشکیل دی۔ اس کا مقصد تامل باشندوں کی آزادی کی جنگ لڑنا تھا۔ 1983 ء میں ایل ٹی ٹی ای نے ایک فوجی قافلے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں تیرہ فوجی مارے گئے ۔ ردِعمل میں ہونے والے فسادات میں تین ہزار تامل مارے گئے ۔ اس واقعے کو بلیک جولائی کہا جاتا ہے ۔ یہ سری لنکا میں وسیع پیمانے پر ہونے والے تشدد کا نقطۂ آغاز تھا۔ تامل گوریلوںکی مبینہ طور پر بھارت نے فنڈنگ اور پشت پناہی کی ۔ انڈیا نے ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے 1987 ء میں ایک مشن بھیجا‘ لیکن تین سال بعد واپس آگیا۔ 1991ء میں ایک تامل ٹائیگر خود کش حملہ آور نے بھارت کے وزیر ِاعظم‘ راجیو گاندھی کو قتل کردیا۔ 1993 ء میں سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریماداسا (Ranasinghe Premadasa) کو قتل کردیا گیا۔ اس کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہ کی ‘ لیکن تما م انگلیاں ایل ٹی ٹی ای کی طرف اٹھیں ۔ 1997ء میں اقوام ِ متحدہ نے اس گروہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ لیکن ایل ٹی ٹی ای کی کارروائیوں کا سلسلہ نہ رک سکا۔ 2001 ء میں اس نے کولمبو ائیرپورٹ پر حملہ کیااور نصف کے قریب قومی ائیرلائن کو تباہ کردیا۔ اس حملے میں ایک فوجی طیارہ بھی تباہ ہوا۔ 
2002 ء میں ناروے نے حکومت اور ایل ٹی ٹی ای کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ کرایا۔ لیکن طرفین نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔ مئی 2009 ء میں سری لنکا نے اعلان کیا کہ فوج نے تمام جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور پرابھکران کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ آخر کار جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا۔ اُس کے بعد سے سری لنکا ایک پرامن ملک تھا لیکن اس دوران بدھ مت کی اکثریت کی وجہ سے اقلیتیں ویسی ہی محرومی محسوس کررہی تھیں جیسی تامل کرتے تھے ۔ 2013 ء میں بدھ مت کے ہجوم نے ایک مسجد پر حملہ کرکے بارہ افراد کو زخمی کردیا۔ اکثر اوقات بدھ راہب مسیحی عبادت میں رکاوٹ ڈالتے رہے ہیں۔ اس طرح سری لنکا کی فضا پرتشددمذہبی عناصر سے گہری ہورہی تھی۔ اس کا بھرپور اظہار ایسٹر کوایک ہولناک واقعے کی صورت دیکھنے میں آیا۔ 
خطے میں دہشت گردی کی لہر پھر سے نمودار ہوچکی ہے ۔ حالیہ دنوں پاکستان میں بلوچستان میں دومرتبہ حملہ کیا گیا۔ مبینہ طور پر ایران کی طرف سے آنے والے مسلح افراد نے اورماڑہ کے قریب چودہ افراد کو گولی مارکر شہید کردیا۔ اپریل کے آغاز میں داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے افراد کو نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتے کابل میں سرکاری دفاتر پر حملہ کیا گیا۔ سری لنکا میں ہونے والے حملے کے بعد مالی‘ عراق اور سعودی عرب میں دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹس آئیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ داعش سے وابستہ عالمی دہشت گردتنظیمیں متحرک ہوچکی ہیں۔ سیکھنے والا سبق یہ ہے کہ دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کے تدارک کے لیے ہوم سکیورٹی یا داخلی سکیورٹی کا کردار بہت محدود ہے۔ بہتر قانون سازی اور قانون کے مؤثر نفاذ سے اس کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن یہ کوششیں اس وقت تک ادھوری رہیں گی جب تک دہشت گردی کے پھیلائو کا جواز‘ چاہے وہ جو بھی ہو‘ جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا جاتا۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا‘ اب وہ مؤثر نہیں رہا۔ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آئے تو اس کا الزام سرحد پار پر لگایا جاتا ہے ۔ اس پر الزام در الزام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ پھر کچھ امن پسند ہمسایوں کی طرف صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے بیانات دیے جاتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کے درمیان معاملہ اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن جب میڈیا اس کی کوریج بند کردیتاہے تو معاملہ ٹھنڈ ا پڑجاتا ہے ‘ تاوقتیکہ ایک اور حملہ ہوجائے ۔ 
دنیا بھر میں ابھرنے والی دہشت گردحملوں کی تازہ لہرغیر معمولی اور انتہائی پریشان کن ہے ۔ نیوزی لینڈ میں پچاس‘ اور سری لنکا میں تین سو کے قریب افراد عبادت گاہوں میں گولیوں کا نشانہ بنے ۔ ہمیںاس سیاہ لہر کو روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کا سوچنا ہوگا۔ اس ضمن میں کچھ اہم معروضات درج ذیل ہیں :1۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ فورس: وہ دن گئے جب کشمکش کا شکار دو ممالک میز پر بیٹھ کر تنازع کا حل تلاش کرلیتے تھے ۔ دہشت گردی ایک پیچیدہ اور الجھا ہوا نیٹ ورک ہے جس میں بہت سے کھلاڑی شامل ہیں۔ ان کے مشترکہ دشمن اور مقاصد ہوسکتے ہیں؛ چنانچہ خطے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو آپس میں مل بیٹھنا ہوگا۔ خطے کے ممالک‘ جیسا کہ سری لنکا‘ پاکستان‘ افغانستان‘ انڈیا ‘ ایران‘ سب ہی دہشت گردی سے متاثرہیں۔ یہ ممالک مل کر دہشت گردی کے خلاف علاقائی تزویراتی حکمت ِعملی بنا سکتے ہیں۔ 2:ثالثی کرنے والے سٹیک ہولڈر ز کا گروپ: ثالثی کے لیے کسی بااثر تیسرے فریق کو شامل کرنا اہم ہوگا۔یہ ممالک ‘ جو تمام اراکین کے لیے قابل ِقبول ہوں‘ دہشت گردی ‘ کشمکش یا تشدد کی صورت میں مداخلت کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔3:علاقائی امن کی مہم: تمام ممالک کی سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر سرحدوں سے ماورا ہوکر امن‘ بھائی چارے اور اپنائیت کا پیغام پھیلانا چاہیے ۔ اس کے لیے سوشل میڈیا اور زمینی پلیٹ فارمز استعمال کیے جائیں۔ روایتی جنگ اور انسداد ِدہشت گردی کے آپریشنز اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس کے لیے سکیورٹی‘ سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی سطح پر مربوط اور جامع کوشش ‘ جسے انٹیلی جنس‘ آگاہی اور غیر روایتی اقدامات کی معاونت حاصل ہو‘ کی ضرورت ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں