کشمیر عالمی توجہ چاہتا ہے

ہونی ہو کر رہی ۔ بھرپور انتخابی فتح کے نشے میںمست مودی نے کشمیر پر چڑھائی کردی۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار صرف پیلٹ (چھرے) ہی نہیں‘ کلسٹر بم بھی ہیں۔ وسیع پیمانے کا مطلب ہے کہ اس سے شکار ہونے والے افراد کی تعداد اور عمر کا پیمانہ متعین نہیں۔گھائل ہونے والوں میں بچے‘ خواتین‘ بیمار‘ معمر‘ نا بینا‘ نوجوان ‘ معصوم‘ سب شامل ہیں۔ کسی کو امان میسر نہیں۔ تازہ ترین انڈین جارحیت کسی'' پلوامہ‘‘ کار د ِعمل نہیںاور نہ ہی یہ کوئی'' سرجیکل سٹرائیک‘‘ ہے ۔ یہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں جبری طور پر شامل کرنے کا ایک طے شدہ منصوبہ ہے ۔ بی جے پی حکومت کی تازہ ترین کارروائی اس دنیا میں رہنے والے انسانوں کے قانونی‘ آئینی اوراخلاقی ضمیر پر حملہ ہے ۔ 
پہلے کلسٹر بم پھینکے گئے ‘ جنہوں نے سرحد کے دونوں جانب بہت سے بچوں ‘ عورتوں اور نوجوانوں کو معذور بنادیا۔ اس کے بعد فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کیا‘ اور آخر میں قانونی بم گرایا گیا۔ بی جے پی حکومت نے انڈین آئین کا آرٹیکل 370 ختم کردیا۔یہ آرٹیکل 1954 ء میں ایک صدارتی حکم نامے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 370 کی صورت وجود میں آیا تھا۔ یہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل35Aکشمیر سے باہر کے بھارتی شہریوں کو ریاست میں مستقل طور پر آباد ہونے‘ زمین خریدنے‘ مقامی حکومت میں ملازمت حاصل کرنے یا تعلیمی وظائف حاصل کرنے سے روکتا ہے ۔ مذکورہ آرٹیکل ختم ہونے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ انڈین حکومت کی دیگر ریاستوں کی طرح کی ایک ریاست بن جاتی ہے ۔ پینتیس ہزار فوجی دستوں کا اضافہ ‘کرفیو‘ کشمیررہنمائوں کی گرفتاری اور میڈیا کے بلیک آئوٹ سے یہ صورت ِحال کشمیریوںکے اثاثوں اورحقوق پرکسی ڈاکے سے کم نہیں۔ اگر چہ پاکستان نے بھرپور انداز میں احتجاج کیا‘ لیکن دنیا ابھی تک پریشان کن سچائی کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے ۔ مودی نے کشمیر میں ایسی ننگی جارحیت کیوں کی ؟ اس جسارت کے پیچھے تین عوامل ہیں:
1۔انتخابات کے بعد استحکام :مودی کو بھاری فتح ملی تھی‘ اور اس کی بنیاد پلوامہ کے بعد قومی سلامتی کی اچھالی گئی مہم تھی ۔ اگرکوئی آزمایا ہوا فارمولہ نتائج دے رہاہوتو اس پر عمل جاری رکھا جاتا ہے ؛چنانچہ مودی نے ''چوکیدار‘‘ کے جعلی تصور کو ایک قدم آگے بڑھانے ‘ اور ایسا کرتے ہوئے تمام اخلاقی اور قانونی حدود کو روندنے کا فیصلہ کیا ۔ مودی کو علم ہے کہ بے روزگاری کا ایشو ‘ جو اُن کی گزشتہ مدتِ اقتدار کے اختتام کے قریب ایک سنگین وبال بن کے سامنے آیا تھا‘ کہیں نہیں جارہا؛ چنانچہ اُن کے لیے محفوظ اور کامیاب اقدام کشمیر پر جارحیت کرنا تھا۔
2۔عالمی دبائو :مسئلۂ کشمیر میں کافی جان پڑ چکی ہے ۔ اقوام ِمتحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجبر کی دلخراش داستانیں سامنے لایا ہے ۔ پر تشدد ہجوم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں چھپائے نہیں چھپ رہیں۔ یہ واقعات عالمی میڈیا تک پہنچ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر ٹرمپ کی پیشکش نے وزیر ِاعظم عمران خان کے حالیہ دورہ ٔ امریکہ کے دوران مسئلۂ کشمیر کو مرکزی ایشو بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مسترد کردی۔اس کے ردِعمل میں بھارت نے آئین کے آرٹیکلز کو معطل کرکے امریکہ اور پاکستان کو ایک پیغام دیا کہ اب یہ دوطرفہ معاملہ بھی نہیں رہا۔اب انڈیا یک طرفہ طور پر اپنے مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا۔ 
3۔افغان قیام ِامن کے امکانات:افغانستان میں امن کے امکانات روشن ہونے سے پاکستان کا کردار مزید اہم ہوگیا ہے ۔ اس پر بھارت نے مزید جارحانہ رویہ اختیار کرلیا۔ افغان طالبان کے ساتھ گفتگو نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہے ‘ اوراس کامیابی کا سہرا پاکستان کے سرجارہا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان علاقائی اور عالمی طور پر مزید طاقتور ہورہا ہے ۔ اس سے بھارت کے بیانیے‘ کہ پاکستان دہشت گردی پھیلاتا ہے ‘اور پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کرنے کی کوششوں کو شدید زک پہنچی ہے ۔ اس لیے انڈیا اب مختلف قسم کے جنگی حربے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہرائے گا‘ جیسا کہ اس نے پلوامہ کے بعد کیا تھا ‘تاکہ امن کے عمل کو سبوتاژ اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے ۔ 
پاکستان کے لیے یہ صورت ِحال خطرناک ہے ۔پاکستان نے کشمیریوں کے حقوق کے لیے تاریخی جنگ لڑی ہے ‘ مگر پاکستان کو انڈیا کے ناگہانی عزائم سے خبردار رہنااور ان کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے ۔ 
1۔ سفارتی دبائو بڑھانا:سفارتی ذرائع پہلے ہی استعمال کیے جارہے ہیں‘ لیکن ان کی سرعت اور شدت بڑھانے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ جس دبائو اور جبر کا کشمیر ی سامنا کررہے ہیں‘ اُن کی طرف سے رد ِعمل خارج ازامکان نہیں۔ انڈیا اس کا بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے ۔ اس کو روکنے کے لیے پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ ملاقات اور ملائیشیا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم اور ترک صدر کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے ضروری ہیں۔ تاہم سب سے بڑا دبائو وائٹ ہائوس کی مذاکرات کی پیشکش ہے ۔ یقینا ‘ جیسا کہ توقع تھی‘ انڈیا نے اس سے انکار کردیا ہے ‘ لیکن انڈیا کو ایسا کرنے دیں‘ تاکہ مغربی رہنما اس پیہم انکار پر کسی قسم کے بیانات دینا شروع کردیں۔ پاکستانی نژاد برطانوی اراکین ِ پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر پر برطانوی پارلیمنٹ میں بحث شروع کرنا بہت اہم ہوگا۔ اقوام ِمتحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھنا پہلا قدم ہے ‘ لیکن وزیر ِاعظم اور وزیر ِخارجہ کی اُن سے ملاقات اقوام ِ متحدہ پر مزید دبائو بڑھائے گی۔ 
2۔علاقائی لابی تشکیل دینا :علاقائی ہمسایوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے بھارت کی ممکنہ جارحیت ‘ جو خطے کی سلامتی کو دائو پر لگاسکتی ہے ‘ سے آگاہ کرنا چاہیے ۔ چین نے بلاشبہ حوصلہ افزا بیانات دیے ہیںصورت ِحال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح افغان حکومت اور طالبان کو بھی کشمیر جنگ کے خطرناک نتائج سے خبردار کرنے کی ضررت ہے ۔ ایک خطہ جس میں غیر مستحکم افغانستان‘ جنگ کے دہانے پر ایران اور دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہوں‘ اس میں تنائو کم کرنا دنیا کے ہر ملک کا فرض بن جاتا ہے ۔ خطرے کو ٹالنے کے لیے بیک ڈور چینل میں کام کرنے والی علاقائی لابی کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ 
3۔کشمیر تنائو کو افغان قیام ِامن کے عمل کے لیے نقصان دہ قرار دینا:بدقسمتی سے کشمیر کو عالمی برادری سے اتنی حمایت نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی ۔ ماضی میں انڈیا اسے دنیا کے سامنے کشمیریوں کی جدوجہد ِآزادی کی بجائے سرحد پار مداخلت کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں انڈیا کو افغان قیام ِامن عمل کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے ۔ انڈیا کو پاکستان کے ساتھ سرحد رکھنے والا غیر مستحکم افغانستان درکار ہے ۔ اسی میں اس کا معاشی اور سیاسی فائدہ ہے؛ چنانچہ وہ امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کے لیے تیار ہوگا۔ پاکستان کشمیر جارحیت کو اس زاویے سے پیش کرے۔ 
انڈیا کو کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے او ر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے سے روکنے والا ٹرمپ کارڈ‘ خود مسٹر ٹرمپ ہیں۔اور صدر ٹرمپ کے لیے ٹرمپ کارڈ افغان امن ہے ۔ اگر پاکستان اُنہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ مودی کی کشمیر میں مہم جوئی کا پہلا خون افغان امن ہوگا تو امریکی انڈیا پر کافی دبائو ڈال سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہماری حقیقی آزمائش یہ ہوگی کہ ہم بر ِ صغیر میں امن کو افغان امن کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں