عالمی ضمیر کو آواز

سب لوگ الفاظ کے ذریعے ہی اپنا مفہوم ادا کرتے ہیں‘ لیکن جب نکتہ آفرینی‘ سوز ِدل اور جوش ِ جنوں کے پیرائے میں لپٹے الفاظ وجد آفریں اور فکر انگیز تقریر کا روپ دھارتے ہیں تو روایتی لفاظی اور جملہ بندی بہت پیچھے رہ جاتی ہے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان کی اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 27ستمبر کی تقریر اس پلیٹ فورم سے ہونے والے سالانہ اظہار ِخیال کی رسم سے کہیں بڑھ کر تھی۔ تقریر کیا تھی ‘ ایک وضاحت‘ ایک جوش‘ ایک اپیل‘ ایک وارننگ‘ ایک بیان‘ ایک سوچ‘ ایک عزم‘ ایک فیصلہ اور سب سے بڑھ کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دنیا پر منڈلاتے ایک خطرے سے آگاہی تھی۔ اس تقریر کا بہت انتظار کیا جارہا تھا‘بے تابی تھی کہ وزیر ِاعظم پاکستان کیا کہیں گے‘ کیسے کہیں گے‘ ہر پہلو پر شدت سے بحث کی جارہی تھی ۔ عام طور پر جن تقاریر کی قبل از وقت موشگافی‘ جانچ پرکھ‘ انتظار اور اشتیاق کا تنائو ہووہ اکثر توقعات کے بوجھ تلے دب کر ناکام ہوجاتی ہیں‘ تاہم یہ تقریر موضوع ‘ مواد‘ انداز اور اثر کے اعتبار سے لاجواب تھی۔ 
عظیم تقاریر مربوط مواد اور واضح او ر دوٹوک پیغام کا مرقع ہوتی ہیں۔ تکلم آمادہ ٔعمل کرتا ہے تو سوچ کے زاویے واضح کرتا چلا جاتاہے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چار نکات بیان کیے : ماحولیاتی تبدیلیاں‘ منی لانڈرنگ‘ اسلامو فوبیا اور کشمیر۔ انہوں نے عالمی سکیورٹی کو لاحق ان چاروں خطرات پر اپنا فوکس رکھا اور پھر حقائق اور ٹھوس مثالوںسے ان کی وضاحت کی ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے سے گلیشیئرز پگھلنے اور ان کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کی ۔ عالمی برادری کو بتایا کہ پاکستان اربوں درخت لگا کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ دنیا سے اپیل کی کہ گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو کنٹرول کیا جائے ‘ ان سے وہ ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں جن کاان گیسز کے اخراج میں کوئی کردار نہیں۔ 
تقاریر لفاظی اور طوالت سے بوجھل ہوکر بوریت سے لبریز مشقت بن جاتی ہیں۔ سامعین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تکلمانہ انداز اختیار کیا جائے۔ اقوام ِ متحدہ کی تقاریر عام طور پر بیانات ہوتے ہیں جو سپاٹ لہجے میں کاغذ سے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ کاغذ پر لکھی گئی تقاریرکی صورت میں مقرر سامعین کی طرف نہیں دیکھتا۔بصری رابطہ منقطع رہنے سے سماعت بھی بیدار نہیں ہوتی؛ چنانچہ ہال یا گیلری میں بیٹھے سامعین سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھی‘ اس کی بجائے ہال میں موجود سامعین اور میڈیا پر تقریر سننے والوں کی طرف دیکھتے ہوئے‘ اُن کے سمعی اور بصری دریچوں پر دستک دی اور انہیں مخاطب کیے رکھا۔ تقریر کیاتھی‘ وہ تو گفتگو کررہے تھے‘ وہ گفتگو جو مخاطب کی توجہ کھینچ لیتی ہے۔ دوران ِ گفتگو انہوںنے ہالی ووڈ کی ایک فلم''ڈیتھ وش‘‘ کی بھی مثال دی کہ کس طرح ناانصافی اور ظلم کا شکار افراد انتہا پسند بن کر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ 
عام طور پر اقوام ِ متحدہ میں کی جانے والی تقاریر سفارتی احتیاط کا پہلو لیے ہوتی ہیں۔ ان میں حساس موضوعات کوشاذو نادر ہی زیر ِ بحث لایا جاتا ہے ۔لیکن وزیر ِاعظم عمران خان کی تقریر رسمی حدود اور تکلفات سے ماورا تھی۔ انہوں نے اسلام اور اس کی حقیقی روح کی بات کی اور دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ اسلامو فوبیا کی آڑ میں مسلمانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے ۔ بہت دلیری سے مودی کے آرایس ایس نظریے اور اس کی تاریخ کی وضاحت کرتے ہوئے اس کا ہٹلر کے نازی ازم کے ساتھ تعلق جوڑا۔ مغرب کے جارحانہ رویے کے مقابلے میں مسلمان رہنمائوں کی چشم پوشی اور گریز پر مایوسی کا اظہار کیا۔ مذہب کاموضوع حساس ہونے کے باوجود انہوں نے کوئی تنائویا دبائو محسوس کیے بغیر بہت کھلے الفاظ میں کہا کہ مغرب پیغمبر ِاسلامﷺ کے مرتبے اور مسلمانوں کے نزدیک آپ ؐکے بلند مقام کا فہم ہی نہیں رکھتا ۔ 
تقریر کا فن یہ ہے کہ مقرر مشکل ترین پیغام کو بھی قابل ِفہم ‘ قابل ِ قبول اور متاثر کن بنا دے ۔ اس کے لیے مثالیں‘ استعارے اور تشبیہات استعمال کی جاتی ہیں۔ وزیر ِاعظم کی تقریر کا سب سے دلیرانہ پہلو آر ایس ایس کا حوالہ‘ مودی کے نظریے کا ہٹلر سے تعلق جوڑنااور حضور پاک ﷺ کے حوالے سے مغرب کے مخصوص رویے کا ذکر کرنا تھا۔ انہوں نے براہ ِراست ہدف کو نشانہ بھی بنایا ‘لیکن مغربی سامعین کو بات سمجھانے کے لیے تمثیل اور حوالے بھی استعمال کیے ‘ جیسا کہ یہودیوں کی نسل کشی‘ ہولو کاسٹ کا ذکر اس اندازمیں کرنا کہ مغربی میڈیا اور سامعین کو ناگوار نہ گزرے ۔ الفاظ او ر ان کا استعمال ایک بات‘ لیکن تقریر کا سب سے مشکل حصہ چہرے کے تاثرات‘ باڈی لینگوئج اور لہجہ ہوتا ہے ۔ بعض اوقات بہت خوبصورت تقاریر غلط ادائیگی اور تخاطب کی وجہ سے غیر متاثر کن رہتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ الفاظ پیغام کا صرف سات فیصد ابلاغ کرتے ہیں‘ باقی 93 فیصدابلاغ لہجے انداز اور خاموش تاثرات سے ہوتا ہے ۔ سپاٹ لہجہ‘ تاثرات سے عاری الفاظ‘ ہاتھوں اور بازوں کا غلط استعمال اچھی سے اچھی تقریر کو بھی خبرنامے کی طرح بے کیف بنا سکتا ہے ۔اس تقریر میں یہ تمام خوبیاں موجود تھیں۔ موضوع کی مناسبت سے لہجے کی تبدیلی‘ تقریر کا پُر اعتماد اور بلند آہنگ آغازاور موضوع کے تبدیل ہونے سے لہجے کا نکھرتا ہوازیر و بم ۔ چہرے کے تاثرات الفاظ اور موضوع کے چنائو سے ہم آہنگ تھے۔ ناانصافی اور ظلم ‘ اور اس پردنیا کی بے اعتنائی کی بات کرتے ہوئے چہرے پر تکلیف اور کرب کا اظہار تھا۔ دنیا کو خطرے کا احساس دلانے اوراس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کے لیے ہاتھوں اور بازوں کا استعمال بہت واضح پیغام دیتا تھا۔ 
ارسطو نے کسی کو قائل کرنے کے فن کے تین عناصر بیان کیے ہیں:سامعین کے مزاج کو سمجھا‘ عقلی دلائل دینا اور جذبات کو ابھارنا ۔ عظیم تقاریر ان عناصر کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ تقریر میں عالمگیر اصولوں پر مبنی دلائل ہونے چاہئیں تاکہ سامعین کو عقلی اور منطقی طور پر قائل کیا جاسکے۔ اس کے بعد جذبات کو ابھارا جائے ‘ لیکن سب سے پہلے ضروری ہے کہ حاضرین اور سامعین اور وقت کے مزاج کو سمجھا جائے ۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر ''میراایک خواب ہے‘‘ کا شمار تاریخ کی عظیم ترین تقاریر میں کیا جاتاہے ۔ 1963 ء میں کی گئی اس تقریر کا وقت وہ تھا جب امریکہ میں نسلی پرستانہ حملے ہورہے تھے اور ان کا نشانہ سیاہ فام افراد تھے ۔ یہ تقریر اتنی طاقتور تھی کہ اس نے تاریخ کا دھارا بدل کررکھ دیا۔ سفید فام انصاف اور مساوات کے عالمگیر اصولوں کو تسلیم کرنے لگے ۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے جذبات اور خلوص کے برملا اظہار سے تقریر کو انتہائی متاثر کن بنا دیا‘ لیکن سب سے طاقتور عنصر مقرر کا کردار اور ساکھ تھی۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تحریک کے لیے انتھک محنت کی تھی ؛چنانچہ اُن کے الفاظ میں اثر تھا۔ 
وزیراعظم عمران خان بھی ساکھ رکھتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اُن کی جذباتی اپیل متاثر کن ہے ؛ چنانچہ جب وہ اپنی تقریر کا اختتام عالمی برادری سے ایک سوال پر کرتے ہیں ''کیا دنیا انصاف اور انسانیت کے ساتھ کھڑی ہوگی یا سوا ارب آبادی کی مارکیٹ کو ترجیح دے گی؟‘‘ اس جاں گسل سوال کا جواب بر صغیر کے ڈیڑھ ار ب انسانوں کی قسمت کا تعین کرے گا۔ تاریخ کے اوراق میں موجود یہ ناقابل ِفراموش تقریر عالمی برادری کے ضمیر سے سوال کرتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں