تجارتی اقدار کے بجائے انسانی اقدار

سٹاک مارکیٹ کی جانچ کرنے والے ادارے ‘ جیسا کہ ڈائو جانز اور نصدق کے گراف سر کے بل گر چکے ۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مندی ہے‘ حصص قدر کھو رہے ہیں۔ پوری دنیا کساد بازاری‘ خسارے اور دیوالیہ ہونے کی باتیں کررہی ہے ۔ نظر نہ آنے والے وائرس کا حملہ یک لخت آنے والی قدرتی آفت ہے ‘جس نے دنیا پر حقیقی معنوں میں سکتہ طاری کردیا ہے۔ زیادہ تر افراد کا خیال ہے کہ کوئی بھی اس کی پیش بینی نہیں کرسکتا تھا۔یقینا یہ ایک ''قدرتی ‘‘ آفت ہے ۔ یقینادشمن نامعلوم اور نظروں سے اوجھل ہے۔ بے شک اس کا تدارک کرنے میں وقت لگے گا۔ سٹاک مارکیٹوں کی حالت دگرگوں ہے۔ ایسی تبدیلیوں سے فوری طور پر نمٹنا یا ان کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ لیکن دنیا میں کچھ جانی پہچانی حقیقتیں دائمی اور اٹل بھی ہوتی ہیں۔ تجارتی قدریں اتار چڑھائو کا شکارہوتی ہے ‘ لیکن انسانی اقدار تبدیل نہیں ہوتیں۔سٹاک مارکیٹ میں جب حصص کی قدر تیزی سے گر رہی ہوتی ہے تو بازار بند کرکے ایک بریک لے لی جاتی ہے ۔ پورے میکانیات کا جائزہ لیا جاتا ہے ‘ لیکن انسانی اقدار کی گراوٹ پر کوئی بریک نہیں لیتا ۔ کسی نے موجودہ صورت ِ ِحال پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے: ''زمین کو مرمت کے لیے کچھ وقت کے لیے بند کردیا گیا ہے‘‘ لیکن کاروبار کے اصولوں اور زندگی کے اصولوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ جب ہم کاروبار میں اصولوں کو پامال کرتے ہیں تو کاروبار تباہ ہوجاتے ہیں‘ اسی طرح جب ہم زندگی کے اصول توڑتے ہیں‘ تو زندگی ہمیں تباہ کردیتی ہے ۔ 
اس وقت علم طب‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سامنے سب سے بڑا سوال کورونا وائرس ہے۔ انسان جانیں بچانے کے لیے ویکسین بنانے پر پوری توجھ مرکوز کی جارہی ہے ۔ یقینا سب سے بڑی ترجیح یہی ہونی چاہیے ‘ لیکن اس سیارے‘ جہاں ہم رہتے ہیں‘ کی بحالی اور بہتری کا معیاری طریق کار بھی وضع کیا جانا چاہیے‘ تا کہ آئندہ ایسی وبائیں نہ پھوٹ پڑیں۔اس تباہ کن آفت کا روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے زندگی کی سرگرمیوں کو معطل کردیا ہے‘ تاہم امید کی جا رہی ہے کہ معاشی اور پیداواری سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز ہوجائے گا‘کورونا وائرس کے خطرے کا تدارک کیا جائے گا؛ ممکن ہے کہ یہ دنیا میں موجود رہے ‘ لیکن سات بلین انسان اس کی ہلاکت خیزی پر قابو پاکر آگے بڑھ جائیں گے ‘لیکن جسم کو متاثر کرنے والے اس وائرس سے کہیں چیلنج ذہن ‘ قلب اور روح کو متاثر کرنے والا وائرس ہے‘ جو اس آفت کا باعث بنا۔ یہ وائرس سو چ کے ڈی این اے میں بری طرح راسخ ہوچکا ‘ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ویسی ہی اجتماعی کاوش درکار ہے‘ جیسی کورونا سے نمٹنے کے لیے کی جارہی ہے ‘ لیکن سوچ کے وائرس کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ۔ اس کے لیے کوئی دوا یا ویکسین نہیں‘ بلکہ ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ دیکھنا ہوگا کہ زندگی کی اصل ا قدر کیا ہیں ؟اصول وہ بنیاد ہیں‘ جن پر زندگی‘ روزگار اور کاروبار کا دارومدار ہے ۔ جب بنیادیں مضبوط نہ کی جائیں تو ان پر کھڑی عمارت بھی کمزور ہوجاتی ہے ۔ آسمان کو چھونے والی عمارتیں ہوں یا کاروباری ادارے‘ ا ن سب کے لیے بنیاد مضبوط درکارہے ۔ کمزور بنیادوں ہوں گی تو ماحول کی شدت عمارت میں دراڑیں ڈال دے گی۔ یہ بات انسانوں پر بھی صادر آتی ہے اور کاروبار پر بھی ۔ انسان چاہے کتنے ہی خوش اور خوشحال کیوں نہ دکھائی دیں‘ اگر وہ زندگی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کریں گے اور اقدار کی پامالی روا رکھیں گے تو فطرت بھی اُنہیں سخت ہاتھ دکھائے گی‘اسی طرح عظیم الشان دکھائی دینے والے کاروبار جب اپنے خفیہ ہتھکنڈوں کی زد میں آتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا تختہ ا لٹ جاتا ہے ‘ جیسے 2009 ء کے مالیاتی بحران میں ''لیمن برادرز‘‘ جیسی بڑی بڑی کمپنیاں راتوں رات اجڑ گئی تھیں۔ 
کورونا وائرس کے خطرے کو محدود کرلیا جائے گا‘ لیکن اس کے مکمل خاتمے کے لیے عالمگیر سطح پر ترجیحات کا از سرِ نو تعین کرنا ہوگا۔ کورونا کے بعد کی دنیا میں ابھرنے والا عالمی نظام صرف معمول کے بزنس کا ہی نہیں ‘بلکہ غیر معمولی حالات میں زندگی کے امکانات کا بھی احاطہ کرے گا۔ اب تک دیکھنے میں آیا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنس بھی کورونا کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہے ۔اس لیے انسان کو ایک با ر پھر بنیادی امور کی طرف لوٹنا پڑا؛ ہاتھ صاف رکھیں‘اچھی طرح صابن سے دھوئیں‘ کھانستے ہوئے منہ کو ڈھانپیں‘ کیونکہ حفظان ِ صحت کے یہی اصول آپ کو بچا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امرکہ ہے کہ بنیادی اصولوں اور اقدارکو تعلیم‘ کاروبار اور تعلقات کا لازمی حصہ قرار دیا جائے ۔ کورونا کے بعد کی دنیا میں جن اہم اقدار کونظام کا مرکزی حصہ بنانا ہوگا ‘ وہ یہ ہیں:۔
1۔ انسانی فلاح کا اولین ترجیح : جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے تو اُنہیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ ان کی توجہ شہریوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر مرکوز ہونی چاہیے ۔ معاشی ترقی کی پیمائش ڈائو جونز کے پیمانوں کی بجائے عوام کی خوشی اور خوشحالی سے کی جائے ۔ فلاح کی اصل تعریف سمجھنے اور اسے مزید نکھارنے کی ضرورت ہے ۔ برق رفتار زندگی نے انسانوں کو تھکا دیا ہے۔ بھاری بھرکم بینک بیلنس بھی زندگی کے عدم توازن ہونے کا مداوہ نہیں کرسکتے ۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے کس چیز کی اہمیت ہے ۔ ماحولیاتی توازن کو ترجیحی بنیادوں پر برقرار رکھنا چاہیے‘ کیونکہ اس میں بگاڑ کے نتیجے میں ہولناک قدرتی آفات آئیں گی ۔ دنیا میں ہونے والے لاک ڈائون کی معاشی قیمت کھربوں ڈالرہے ‘ اگر اس رقم کا ایک فیصد حصہ بھی ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے پر خرچ کیا جاتا تو دنیا کو ایسی تباہی سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ 
2۔ لالچ کی بجائے ضرورت کو اہمیت دیں: معاشرے اور افراد کے لیے سوچنے اور غور کرنے کا وقت ہے ۔ برانڈز‘ اشیائے نمود اور بلا ضرورت مہنگی خریداری کے پیمانے میں تلنے والی زندگی بیکار ہے ۔ ہمیں ان سے زیادہ صاف ہوا میں سانس لینے اور محفوظ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے ۔ ہمہ وقت زیادہ سے زیادہ مال و دولت کے حصول کی دوڑ انسان سے جسمانی اورذ ہنی تنائو اور رشتوں سے دوری کی صورت بھاری بھرکم خراج وصول کرتی ہے ۔ لوگوں کے پاس اپنے ‘ اور دوسروں کے لیے وقت ہی نہیں ۔ وہ کبھی خوش اور مطمئن نہیں ہوتے ۔ شاید سب سے بڑی جس تبدیلی کی ضرورت ہے ‘وہ پر خلوص اور سادہ زندگی کی طرف واپس لوٹنا ہے ۔ آگے نکلنے کی جنونی دوڑ نے انسانوں کو نہ ختم ہونے والے خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا کردیا ہے ۔ وہ ایک ایسا شکاری بن چکا ‘ جس نے اپنے شکار پر جھپٹنا بھی ہے اور خود کو کسی اور کا شکار ہونے سے بچانا بھی ہے ۔
3۔ عیاشی کی بجائے سادگی: د نیا کے طاقتوروں کو یوں زمین بوس ہوتے دیکھنا انسان کو زندگی کی حقیقت سمجھا تا اور اس کے دل میں عاجزی اور انکساری کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔ عالمی طا قتیں کہلانے اور صدیوں تک کمزور ممالک کودبائے رکھنے والے ممالک آج اس دکھائی نہ دینے والے وائرس کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
4۔ مسابقت کی بجائے تعاون: ہر قیمت پر طاقت حاصل کرنے کارجحان اب ایک بھیانک مذاق بن چکا ہے۔ عالمی طاقتیں‘ جی سیون اور جی ٹوینٹی جیسے بااثر‘ اور وسائل اور ٹیکنالوجی سے مالا مال ممالک اس وقت لاچار ی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کورونا نے اس تصور کو حقیقت میں تبدیل کردیا ہے کہ انسانوں کی بہتری اور بدحالی مشترکہ ہے ‘ اگروائرس کسی ایک ملک ‘ یا کسی ایک فرد میں ہو تو یہ ہر کسی کو متاثر کرسکتا ہے ۔ طاقتور اور کمزور‘ اور امیر اور غریب کی تفریق پر مبنی پرانا نظام تبدیل کرنا پڑے گا۔ اجارہ داری کی لکیر کھنچنے کی بجائے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی طرف جانا ہوگا۔ 
آخر میں بس یہی عرض ہے کہ جس طرح ہاتھوں کو صاف رکھنا کورونا وائرس کے خلاف تحفظ دیتا ہے ‘ اسی طرح دلوں کو صاف رکھنا انسانیت کو بدسلوکی سے بچاتا ہے ۔ روح کی پاکیزگی اناپرستی کے خلاف تحفظ دیتی ہے ۔ یہ منفی جذبات دنیا کے لیے زہر ِ قاتل ہیں۔ الغرض اب تجارتی قدر‘ نفع کے پیمانوں اور مال کے حصول سے ہٹ کر انسانی قدروں ‘ فلاح عامہ کے اصولوں اور سماجی رشتو ں کو فروغ دینے کا وقت ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں