صحت مند تفریح کی ضرورت

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں صرف منفی بات ہی خبر بنتی ہے ۔ اخبار کھولیں یا کسی اور خبری ذرائع پر نظر ڈالیں؛ ہر طرف بیماری‘ مایوسی اور موت ہی دکھائی دے گی۔یہ حقیقت ہے کہ عالمگیرموذی وبا کورونا وائرس نے دنیا کو قریباً بند کر دیا ہے ۔ دنیا بھر کے سات ارب لوگ خوف و ہراس اور غیر یقینی پن سے سہمے بیٹھے ہیں‘ جبکہ معمول کے حالات میں جب کہیں سے کوئی بری خبر آتی تھی تو آپ چینل بدل لیتے تھے۔ لوگوں سے کہا جاتا کہ وہ اپنا ماحول بدل لیں ۔ کمپنی یا دیگر سرگرمیاں تبدیل کرلیں۔موجودہ صورت ِحال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تینوں آپشنز دستیاب نہیں۔ کوروناوائرس نے آتے ہی یہ تینوں امکانات ختم کردیے ہیں ۔ کئی ممالک میں کھیل کود ہر عمر کے افراد کے لیے تفریح کا ایک ذریعہ تھے ۔ اب‘ ان پر بھی پابندی ہے ۔لوگ ویک اینڈ پر سینما گھروں میں فلم بینی کے لیے جاتے تھے ۔ اب‘ دنیا بھر میں سینما ہالز بند پڑے ہیں‘ اسی طرح ریستورانوں کے دروازے بھی بند ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام تفریحات کی بندش کے جسمانی‘ ذہنی اور جذباتی اثرات ویکسین کی دریافت سے بھی ختم نہیں ہوں گے ۔ ذرا تصور کریں کہ منفی خبروں‘ تاثرات‘ تصورات اور خیالات سے بوجھل ذہن خوف اور بے یقینی کا شکار ہوکر گھروں میں بند ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دنیا بھر کے بیشتر ممالک اپنی معیشتیں کھول رہے ہیں‘ تفریحی صنعت بھی بند نہیں رہے گی۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔ ضروری ہے کہ تفریحی صنعت بھی خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالے ۔ ذہنی کوفت‘ مایوسی اور خوف کے مارے افراد کوہلکی پھلکی تفریح اور لطف فراہم کرنا ضروری ہے ‘ وگرنہ یہ خوف و ہراس تو ایک اور عالمی وبابنتا جارہا ہے ۔ 
لوگوں کی مایوسی کااندازہ لگانے کے لیے ذرا نیٹ فلیکس اور پرم ویڈیو پر فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد پر نظر ڈالیں؛ اعدادوشمار ذہن مائوف کردیتے ہیں۔ایچ بی او کی پیرنٹ کمپنی وارنر میڈیانے اس کا ہفتوں پر محیط جائزہ لیا ہے ۔ ٹیلی ویژن کی صنعت کے ناظرین میں بیس فیصد اضافہ ہوا‘جبکہ ایچ بی او کے ناظرین کی تعداد میں کووڈ کے بعد 65 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تفریحی پروگرام دیکھنے والوں کی تعداد میں 65 فیصد ‘جبکہ ایچ بی او نائو پر فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔صرف وارنر میڈیا کے ناظرین میں ہی اضافہ نہیں ہوا‘بلکہ نیٹ فلیکس کے چیف کنٹینٹ آفیسر سارندوس نے سی این این کو بتایا ہے کہ اگرچہ کمپنی اعدادوشمار ظاہر نہیں کرنے جارہی ہے‘ لیکن اس کی سائٹ پر ٹریفک کا بہائو بہت بڑھ گیا ہے ۔ ڈینسی پلس جیسی تھرڈ پارٹی کمپنیاں صارفین کے سبسکرپشن اور سائن اپ میں بہت زیادہ اضافہ رپورٹ کررہی ہیں۔ ایمزون کا ایک اور سٹریمنگ پلیٹ فورم ‘ ٹویچ کے ناظرین کی تعداد 31 فیصدبڑھی ہے ۔ 
ریسرچ فرم‘ سٹریم ایلیمینٹ کے دی ورج کو فراہم کردہ مواد کے مطابق؛اس کے گھنٹو ں کی تعداد آٹھ مارچ میں 33 ملین سے بڑھ کر بائیس مارچ میں 43 ملین تک پہنچ گئی ۔ سماجی فاصلہ شروع ہونے کے بعد سے یوٹیوب گیمنگ سٹریمز میں بھی پندرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اب‘ جبکہ کئی ممالک میں لاک ڈائون کم ہونا شروع ہوچکا‘ یہ اعدادوشمار مسلسل بڑھ رہے ہیں‘کیونکہ تفریحی صنعت کو سب سے آخرمیں کھولا جائے گا۔ 
ایک اور بہت بڑی تفریح کھیل کود ہے ۔ فٹ بال‘ ٹینس‘ کرکٹ اور اولمپکس اور دیگر سپورٹس سرگرمیوں کا شدت سے انتظار ہورہا ہے۔لوگوں کا ذہنی تنائودُور کرنے اور اُنہیں جذباتی اور جسمانی تفریح فراہم کرکے لیے سپورٹس کی اہمیت مسلّم ہے ۔نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سرگرمیوں کا اچانک معطل ہوجانا نفسیاتی صدمے کا باعث بنا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس ‘ فرینچ اوپن‘ ومیبلڈن‘ آئی سی سی ورلڈ کپ ‘ سب التواکا شکار ہیں۔ یہ ایک طرح کا مالیاتی لاک ڈائون ہے ۔ سپورٹس انڈسٹری کا عالمی حجم کا اندازہ 756 بلین ڈالر ہے ۔
کووڈ 19 کی وجہ سے عالمی سطح پر لاکھوں ملازمتیں غیر یقینی پن کا شکار ہیں۔ صرف سپورٹس کے پیشہ ورماہرین کی ملازمتیں ہی نہیں ‘بلکہ سپورٹس سروس انڈسٹریز‘ لیگ میچز‘ سیاحت‘ انفراسٹرکچر‘ ٹرانسپورٹ‘ کیٹرنگ‘ میڈیا نشریات وغیرہ کے شعبوں میں بھی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔
الغرض دنیا بھر میں کھیلوں اور تفریح کے معطل ہونے سے پیدا ہونے والا خلا مایوس کن خبروں نے پُر کیا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی نقصان ایک طرف‘ انسانوں کو اس کی بھاری نفسیاتی قیمت چکانی پڑرہی ہے ۔ تفریح نہ ہونے سے تنائو‘ گھبراہٹ‘ مایوسی‘ خود کشی کا رجحان اور رشتوں میں بگاڑخطرناک حد تک بڑھ چکا ۔ ان باڈیز اور بزنس کے لیے کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے‘ تاکہ تفریحی و کھیلوں کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو ملازمتیں مہیا کی جاسکیں ۔
جیسا کہ کہاجاتاہے ‘ کھیل چلتا رہنا چاہیے ‘ وگرنہ زندگی تھم جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اب‘ یہ کھیل اُس طرح نہ چل سکے‘ جیسے کووڈ 19 سے پہلے تھا۔ ویکسین کی دریافت اور آسان دستیابی سے پہلے تفریحی صنعت کو اپنے اندر کچھ جدت لانی ہوگی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مختلف صنعتیں کیا اقدامات اٹھاتے ہوئے بزنس کو محفوظ طریقے سے چلا سکتی ہیں : ۔
1۔ ریسٹ اور ریستوران : دنیا بھر میں ریسٹ اور ریستوران کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ لاک ڈائون کھلنے کے بعد بھی بہت سے ممالک ریستوران کھولنے کے لیے تیار نہیں‘ کیونکہ بند جگہوں پرعوام کا ہجوم وائرس کے پھیلائو کا سب سے بڑا سبب ہے ؛ چنانچہ ریستورانوں کو سنجیدگی سے سوچتے ہوئے اپنی سروسز پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔ پہلی یہ کہ کچھ ریستوران جو کھلی جگہ رکھتے ہیں‘ وہ فاصلے پر ٹیبل لگا سکتے ہیں‘ لیکن وہ ریستوران‘ جن کے پاس باہر کھلی جگہ نہیں‘ وہ ہر ٹیبل کے گرد پلاسٹک کا پردہ لگا کر ہر ایک کے لیے الگ ماحول قائم کرسکتے ہیں۔ریستورانز کو ٹھنڈا کرنے والے سسٹم میں جراثیم کش آلات نصب کرنا ایک اہم پیش رفت ہوگا ۔ ریستورانز کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ محکمہ صحت سے تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کی اسناد حاصل کرلیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایس اوپیز پر عمل درآمدہورہا ہے ‘ اسی طرح سیاحت کی صنعت کو بھی بیرونی سرگرمیاں ‘ جیسا کہ ایڈونچر اور کیمپنگ شروع کرنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ لوگوں کو صحت مندتفریح اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے ۔ 
2۔ سینما اور تھیٹر: سینما اور تھیٹر بھی دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ سینما آسانی سے سماجی فاصلہ برقرار رکھ سکتے ہیں‘ کیونکہ بہت کم فلموں میں ''ہائوس فل ‘‘ ہوتا ہے ۔فلم بینوں کو ایک سیٹ چھوڑ کر بیٹھنے کا کہنا ممکن ہے ‘ تاہم طبی جدت لانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ وینٹی لیشن اور ایئرکنڈیشن جراثیم کش آلات سے لیس ہوں۔وہ اتنے طاقتور ضرور ہوںکہ ہوا میں موجود قطروں کو ختم کرسکیں‘ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک میں ڈرائیواِن سینما کا احیاء بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ لوگ اپنی کاروں میں بیٹھ کر بڑی سکرین پر فلم دیکھتے ہیں۔ ماضی میں یہ مقبول تفریح تھی۔اب‘ یہ پھر سے شروع ہوسکتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ 
3۔ سپورٹس اور دیگر سرگرمیاں : دنیا میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی جارہی ہے‘ وہ مختلف سپورٹس اور ان سے جڑی ہوئی دیگر سرگرمیاں ہیں؛ جیسا کہ فٹ بال‘ رگبی‘ ٹینس یا کرکٹ کے ٹورنامنٹ کئی کئی ماہ تک دنیا بھر میں اپنے شائقین کی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ عظیم کھلاڑیوں اور مضبوط حریف ٹیموں کو میدان میں ایک دوسرے کے مقابل دیکھنے سے زیادہ شاید ہی کوئی پرُجوش تفریح ہو۔
دوسری طرف ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں فٹ بال کے مقابلے شروع ہوچکے ہیں‘ جبکہ دنیا بھر کی معروف کرکٹ کی ٹیمیں بھی میدان میں اترنے والی ہیں‘ تاہم کہا جا رہا ہے کہ فی الحال یہ میچز ان کھیلوں کے تماشائیوں کے بغیر خالی میدانوں میں ہی ہوں گے‘ لیکن امیدہے کہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ ان کھیلوں کے شائقین کوبھی میدان میں جانے کا موقع ملے گا‘تاکہ کھیل کا قدرتی ماحول قائم ہوسکے‘اگر انسانوں کو تفریح نہ ملی‘ تو اُن کے اعصاب چٹخ جائیں گے ‘ نیز موجودہ حالات میں کھیل کود اور تفریح کی صنعت میں جدت لانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ لوگوں کو اس گھبراہٹ کے عالم میں سکون فراہم کیا جاسکے ‘ اس سے اُن کا حوصلہ بڑھے گا اور جذبہ جوان رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں