وسط جولائی سے خبردار رہیں

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح کیا ہے؟ اس میں کمی بیشی‘ یکسانیت‘ کمی کے بعد پھر اضافہ‘ سرکاری اعدادوشمار پر سب کا دھیان ہے ۔ عالمی سطح پر تحقیق کا ارتکازاسی پر ہے ‘ بحث کا موضوع بھی یہی ہے۔ پراسرار وائرس ابھی تک انسانی تحقیق کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے‘ تاہم اب یہ اتنا بڑا معمہ نہیں رہا۔ رواں سال کے آغا ز میں اس کے بارے بے ہنگم معلومات کا سیلاب بہہ نکلا تھا‘مگر اب سائنس اور تحقیق کسی معقول نتیجے پر پہنچ رہی ہے ۔ اس موضوع پر لکھے گئے مضامین‘پیپرز ‘ ماڈلزاور تشریح نے نیٹ پر ٹریفک جام کردی تھی‘ انسانی ذہن معلومات سے بوجھل ہوچکا تھا‘ مگر اب ممالک کو احساس ہوچکا ہے کہ زیادہ تر وائرسز کی طرح SARS-CoV-2 بھی کہیں نہیں جارہا۔ مستقبل قریب میں اس کاکوئی آسان حل نہیں ‘ ہمیں اس کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہو گا ۔ اس طرح کہ زندگی کے معاملات چلتے رہیں۔ 
کئی حوالوں سے پیش گوئیاں اور اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ یہ خوف اپنی جگہ پر موجود ہے کہ غریب ممالک اس سے نمٹنا مشکل پائیں گے ‘ لیکن امیر اورطاقتور ممالک کی اناڑی انتظامیہ نے بھی صورت ِحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ دیگر ممالک کے ساتھ براہ ِراست موازنہ مشکل ہے ۔آبادی‘ جغرافیائی اور معاشی حالات کا فرق اور سیاسی ترجیحات اور فیصلوں کا اثر یکساں نہیں ‘جس کی وجہ سے تجزیہ آسان نہیں۔ مشرق ِ بعید کے ممالک نے کوویڈ 19 کو بہتر کنٹرول کیا ۔ یورپی ممالک اب اس تجربے کی پیروی کرتے ہوئے اپنی معیشتیں کھولنے لگے ہیں۔ اس دوران متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی بھی آنے لگی ہے‘ تاہم شمالی اور جنوبی امریکا ابھی تک متاثرہ افراد کی شرح کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
اب ممالک ایک مرتبہ پھر وبا کی دوسری لہر سے نمٹنے کی تیاری اور منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ جنوبی ایشیاکے ممالک کے متفرق تجربات ہیں‘ بیرونی دنیا سے آنے والے مسافر ان ممالک میں فروری میں وائرس لائے تھے۔ دیگر ممالک کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے یہ جلد ہی لاک ڈائون کی طرف چلے گئے ۔ شروع کے چند ایک مہینوں میں پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں متاثر ہ افرادکی شرح سست تھی‘ تاہم ان کی لاک ڈائون کی حکمت ِعملی ایک جیسی نہیں تھی ۔ پاکستان دوسرے ماہ لاک ڈائون سے نکل آیا۔پہلے مہینے حکومت ِ پاکستان نے محنت کش طبقے کی مالی معاونت کے لیے نقدرقوم کی فراہمی کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام چلایا۔ دوسری طرف بھارت سخت لاک ڈائون کی طرف چلا گیا۔ بدقسمتی سے اس کی وجہ سے محنت کش طبقے میں وسیع پیمانے پر بے روزگاری پھیل گئی ۔وہ لوگ اپنے آبائی گھروں تک جانے کے لیے ہنگامی طور پر روانہ ہوگئے ۔ ملک میں ایک طرح کی بھگدڑ سی مچ گئی تھی‘ جس میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی پیش آئے ۔ 
مگرپاکستان نے اپنی کمزور معیشت کو دیکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈائون کا آپشن آزمایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ متاثرہ علاقوں کو شناخت کیا جائے اور وائرس کو محدود کرنے کے لیے لاک ڈائون کیا جائے ۔ دیگر مقامات پر صحت کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے معیشت اور صنعت کو کھولا جائے ۔ اس دوران بھارت کو کئی ریاستوں میں مزدوروں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے کرفیو لگانا پڑا‘ پولیس سے تصادم کے نتیجے میں جانی نقصان بھی ہوا۔ مئی میں پاکستان میں رمضان تھا‘ اس مہینے میںویسے بھی جسمانی سرگرمیاں کم ہوتی ہیں۔ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد توقع سے کم رہی‘ تاہم اس کی وجہ سے عوام میں بے فکری کا احساس پیدا ہوگیا۔ معاشی سرگرمیوں کے تعطل کی وجہ سے حکومت پر دبائو تھا کہ عید پر مارکیٹیں کھول کر معیشت کا پہیہ چلایا جائے ۔عید پر روایتی طور پر چھوٹی اور درمیانے سائز کی صنعتوں کی مصنوعات زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ کئی ماہ سے لاک ڈائون برداشت کرنے والے افراد نے مارکیٹوں کا ایسے رخ کیا جیسے جیل سے رہا ہوکر جارہے ہوں۔ مارکیٹیں کھچا کھچ بھرنے سے وائرس کے خطرناک پھیلائو کاماحول پیدا ہوگیا۔عوام میں یہ احساس بھی تھا کہ اُن کے ہاں متاثرہ افراد کی تعداد مغربی ممالک سے بہت کم ہے ۔ اس کی وجہ قدرتی طور پر قوت مدافعت بتائی گئی ۔ خوشحال افراد نے عید ملن پارٹیاں بھی کیں۔ان میں جوش و خروش سے شرکت کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں جون میں یومیہ متاثر ہونے والوں کی تعداد دوہزار سے بڑھ کر سات ہزار تک پہنچ گئی ۔ 
وبا کے تیز پھیلائو کو دیکھتے ہوئے لوگ ایک مرتبہ پھر محفوظ سماجی فاصلہ اختیار کرنے لگے ۔ حکومت نے ایس اوپیز پر عمل نہ کرنے والی مارکیٹوں کو سزا دی؛ ماسک پہننا لازمی قراردے دیااور خاندانوں کو باہر نکلنے سے روک دیا ۔ یہ اقدامات وائرس کاپھیلائو روکنے میں مددگار ثابت ہوئے ۔ حکومت کا اندازہ تھا کہ جون کے اختتام تک متاثرہ افراد کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ جائے گی‘ لیکن یہ اس سے ایک لاکھ کم رہی ۔ ابھی بھی خدشہ ہے کہ جولائی کے اختتام تک یہ تعداد چار لاکھ تک پہنچ سکتی ہے ‘ لیکن اس کا دارومدار جولائی کے آخر میں ہونے والی عید پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی کا آخری ہفتہ انتہائی احتیاط ‘ منصوبہ بندی اور تیاری کا متقاضی ہے ۔گزشتہ عید کے نتائج سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے :
1 ۔ حکومت کا ایکشن : حکومت کو زیادہ سے زیادہ اعدادوشمار اکٹھے کرنے ہیں۔ سمارٹ لاک ڈائون کی تدبیر مؤثر ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں وبا کا پھیلائو تھم گیا ہے ۔ تاہم مواد اکٹھا کرنے کے لیے زیادہ مہارت اور جدت کی ضرورت ہے ۔کوئی علامت ظاہر ہونے پرٹیسٹ کا رجحان کم ہوگیا ہے کیونکہ لوگ اب مغرب کی تقلید کرتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بنارہے ہیں۔ حکومت ہر گھرجا کر ٹیسٹ نہیں کرسکتی ‘ اُس نے جو کچھ کیا اور جس سرگرمی میں مزید اضافہ کرنا چاہیے ‘ وہ سمارٹ سیمپلنگ ہے ۔ اس میں مارکیٹ سے ملحق رہائشی علاقوں کوبھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ وہ زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ایسے تمام علاقوں میں سختی سے لاک ڈائون کیا جاناچاہیے ۔ ایک اور اہم فعالیت اُن دکانوں‘ دفاتر اور افراد کو جرمانہ کرنا ہے جو ماسک پہننے کی پابندی نہیں کرتے ۔ ماسک کے بغیر سروس کی عدم فراہمی کی پالیسی بنائی جائے۔ دکانوں کی ویڈیو بنائی جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ماسک کی پابندی ہورہی ہے یا نہیں۔اس سے عوام پر ماسک کی پابندی کرنے کا دبائو رہے گا۔ 
2۔ عید پر شاپنگ کم کریں: جون میں وائرس کے پھیلائو میں تیز رفتار اضافہ اُن دنوں میں نوٹ کیا گیا جب عید سے چار دن پہلے مارکیٹیں کھلیں اور لوگ سیلاب کی طرح خریداری کے لیے لپکے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مرتبہ پورا جولائی عید کی خریداری کے لیے مارکیٹوں کو کھلا رکھے تاکہ رش سے بچا جاسکے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ معمول سے زیادہ فاصلہ رکھ کر محفوظ طریقے سے خریداری کریں۔ اسی طرح ہوم ڈلیوری کا طریق کاربھی اختیار کیا جاسکتاہے ۔ پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے ‘ اس عید پر اسے زیادہ فروغ دینا چاہیے ۔ یہاں ایک مسئلہ البتہ قربانی کے جانورکی خریداری کا ہے ۔ اگرچہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مویشی منڈیاں شہروں سے باہر لگیں گی‘ لیکن اگر اسے بھی آن لائن کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ آن لائن جانور منتخب کرکے ذبح کراکے اس کا گوشت پیک کرکے گھر پر مل جائے تو اس سے منڈیوں میں ہجوم ختم ہوجائے گا۔ 
3۔ عید پر روایتی رویوں میں تبدیلی : عوام کو اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت بھی ہے ۔ گزشتہ عید کی طرح عید ملن پارٹیوں کو انتہائی محدود رکھا جائے ۔ ہمیں شائستگی سے انکاراور گریز کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ وائرس کو ہجوم سے پیار ہے ۔ تہوار ‘ تقریبات اور دوستوں اور رشتے داروں کے ملنے کے مواقع اُسے بھی مرغوب ہیں۔ اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ کیا اُنہیں اپنے دوست احباب کی صحت عزیز ہے یا وائرس کی خوشی؟ وائرس کو وار کرنے کے مواقع سے محروم کرنے کے لیے محفوظ فاصلہ رکھنا ضروری ہے ۔ سب لوگ اپنے اپنے گھر پر رہیں‘ محفوظ رہیں۔ یہ فیصلہ صحت کی حفاظت کرتے ہوئے بہت سی جانیں بچا سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں