مخفی جنگ

ہم حالت ِ جنگ میں ہیں لیکن یہ ایک مختلف قسم کی جنگ ہے ۔ اس قسم جنگیں کسی نہ کسی سطح پر جاری ہیں‘ کچھ نظر آتی ہیں کچھ نظروں سے اوجھل ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان روایتی جنگ لڑرہے ہیں‘ یہ ایک متنازع زمین پر فوجی ہتھیاروں سے لڑی جارہی ہے ۔اس قسم کی جنگوں کو کبھی انتہائی تباہ کن سمجھاجاتا تھا ‘ لیکن انہیں دیکھنا‘ ان میں مداخلت کرنا اوران میں کردار ادا کرنا بہت آسان ہے ‘ لیکن اس قسم کی طرز ِحرب اب ازکارِ رفتہ ہوچکی۔ یہ اُن ممالک تک ہی محدود ہے جو دنیا کی ترقی کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔ وہ دنیا جو مخفی جنگوں کی طرف بڑھ چکی ہے ۔ 
بیسویں صدی کے آغاز میں لڑی جانے والی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد ایک نیا عالمی نظام متعارف ہواجس کے تحت اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کردیا گیا‘ جس سے جنگ کا خطرہ کم ہوجائے ۔ تجارتی بلاک قائم کرکے جنگ کا تدارک کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کی ایک مثال یورپی یونین ہے جس کے ذریعے تجارتی انحصار قائم کرتے ہوئے تنازعات کو دبایا گیا۔ یہ کوششیں کچھ عرصہ تک کامیاب رہیں‘ لیکن ان کے وجہ سے ایک مختلف قسم کی کشمکش نے سر اُٹھانا شروع کردیا ۔ چین ایک معاشی قوت بن کر ابھراتواس کی برآمدی قوت نے یورپی کاروبارکی مسابقت کمزور کردی ۔ اسی طرح جاپانی کاروں کے سامنے امریکی کاریں غیر مؤثر اور مہنگی دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے تجارتی جنگوں کا تصور پیدا ہوا۔ عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) تجارتی تنازعات سے نمٹنے کی کوشش میں ہے ۔امریکا نے چینی اشیا پر محصولات کی شرح بڑھا دی تا کہ امریکی مصنوعات قیمت میں اُن کا مقابلہ کرسکیں۔ جواب میں چین نے امریکی اشیا پر محصولات کی شرح بڑھا دی ۔ 
فوجی جنگوں اور تجارتی جنگوں کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ دکھائی دیتی ہیں اور قابل ِ مذمت ہیں۔ ان جنگوں میں مصروف اقوام پردوسری اقوام اورا دارے تنقید کرسکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک تیسری قسم کی جنگی حکمت ِعملی نے سر اُٹھایا ‘ اسے ہائبرڈ وار کہا جاتا ہے ۔ اس قسم کی جنگوں میں بیرونی اوراندرونی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اندرونی عوامل کو متحرک کرنے کیلئے کسی قوم میں سے ایسے گروہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اُسی معاشرے کے خلاف کشمکش اور تشددپر آمادہ ہوسکیں۔ اس کی کلاسیک مثال پاکستان ہے ۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا ۔ امریکا کے افغانستان پر حملے نے پہلے سے ہی غربت اور تنہائی کے شکار قبائلی علاقوں کے نظام کو درہم برہم کردیا ۔ اس محرومی کا فائدہ بھارت اور افغانستان نے اُٹھایا اور باغی گروہوں کی سرپرستی کرنا شروع کردی۔ ان گروہوں نے سکولوں‘ مساجد‘گرجا گھروں اور اور دیگر مقامات پر حملے کیے۔ یہ صورتحال کم و بیش پندرہ سال تک جاری رہی ۔ 
دور ِحاضر کی جنگیں غیر واضح ‘پنہاں اور مکر وفریب سے عبارت ہیں۔ چونکہ وہ اوجھل ہیں اس لیے اُنہیں روکنا ناممکن ہے ۔ ان کا بنیادی مقصد ایسی فضا قائم کرنا ہے جو پالیسی اور منصوبوں کو بگاڑتے ہوئے ترقی کاراستہ روک سکے اور اس سے ملک میں لاقانونیت اور عوامی اشتعال پھیل جائے ۔ اس جنگ کے سہولت کار وں نے جادو کی ٹوپی نہیں پہنی لیکن وہ دکھائی نہیں دیتے ۔ بعض اوقات آپ اُن کی نشاندہی کرلیں تو بھی گرفتار نہیں کرسکتے ۔ وہ بہت قریب لیکن پہنچ سے بہت دور ہیں۔ وہ آپ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں لیکن آپ کے لیے نہیں ۔ وہ بظاہر ہر چیز درست کررہے ہیں لیکن اس سے کوئی اچھی چیز سامنے نہیں آتی۔ اس چھپے دشمن پر قابو پانے کے ہتھیار گولہ بارود سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور جدید ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پانچویں نسل کے ہتھیاروں کا نام دیا گیا ہے ۔ ان ہتھیاروں کی پہنچ‘ رسائی ‘د ائرہ کار اور تنوع لامتناہی ہے ۔ یہ ہتھیار آسانی سے سرحدیں پار کرجاتے ہیں۔ حقائق مسخ کرتے ہوئے نئے حقائق تخلیق کرتے ہیں۔ یہ ہتھیار معاشروں‘ نظریات اور فہم و ادراک کو نشانہ بناتے ہیں۔ پراپیگنڈا کااصول وہی ہے جو گوئبلز کا نظریہ تھا‘کہ اتنا جھوٹ بولا جائے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے کہ وہ سچ لگنے لگیں۔ اس جنگ کے اہم ترین ہتھیار مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ معلومات کی شاہراہ اور اس کا ارتفاع: ہر بڑی طاقت کے پاس بڑے جنگی اسباب اور اثاثے ہوتے ہیں۔ موجودہ پوشیدہ جنگیں فاصلاتی بازو استعمال کرتے ہوئے لڑی جاتی ہیں۔ اس کا مرکزی میدان سوشل میڈیا ہے جس پر جھوٹی سچی خبروں کی بمباری جاری رہتی ہے ۔ جھوٹی خبریں تخلیق کی جاسکتی ہیں‘ اُنہیں کروڑوں ناظریں تک پھیلایا جاسکتا ہے ۔ معلومات کی راہیں مل کر ایک عظیم شاہراہ کو ترتیب دیتی ہیں۔ شمالی علاقہ جات کے انتشار اور افراتفری میں اضافے کی وجہ صرف سرحد پار کرنے والے دہشت گرد ہی نہیں بلکہ دور دراز سے رواں دواں معلومات کی شاہراہ بھی ہے ۔ 2018 ء میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے انکشاف کیا تھا کہ صرف ایک دن میں افغانستان میں پانچ ہزارسوشل میڈیا گروپس نے جنم لیا ۔ ممکن ہے اس کے پیچھے بھارت یا اسرائیل کی تکنیکی مہارت کارفرما ہو۔ 
2۔ سائبر ڈیلر اور سہولت کار: معلومات اور گمراہ کن معلومات ایک طاقت ہے ‘مواد کو شاہی درجہ حاصل ہے ‘ تجزیے کے سرپر تاج ہے ۔ جو بھی اپنے ہدف ممالک کی آبادی‘ اس کی ڈیموگرافی‘ نفسیات اور سماجی محرکات کے بارے میں معلومات رکھتا ہے ‘ وہ اس کا بادشاہ گر بن سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں معلومات کو مخفی رکھنا بہت مشکل ہے ۔ ہیکنگ سے لے کر معلومات چرانا‘ نقل کرنا‘ چربہ تیار کرنا ایک سائنس ہے ۔ جدید لیب میں بیٹھے ہوئے سائنس دان یہ کام کررہے ہوتے ہیں ۔ آج کمپنیاں بارڈ ر سکیورٹی کی نسبت سائبر سکیورٹی کو مشکل پاتی ہیں۔ فیس بک اور کیمبرج انیلٹیکا جیسی کمپنیوں پر معلومات افشا کرنے کا الزام لگا‘یہ معلومات انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ کوویڈ 19 کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی بھی ابھری۔ کیلی فورنیا میں زوم پر الزام لگا کہ اس نے اپنے صارفین کی ذاتی معلومات دیگر کمپنیوں‘ بشمول فیس بک‘ کو دیں۔ 
3۔ ریاستوں کے غیر ریاستی عناصر: ابتدائی جنگی ہتھیاروں میں غیر ریاستی عناصر اہم کردار ادا کرتے تھے ۔ پانچویں نسل کے آلاتِ حرب میں ریاستی عناصر کا کردار دکھائی تو دیتا ہے لیکن یہ حقیقی نہیں ہوتا۔ یہ دراصل کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ وہ حکومتوں‘ سرکاری محکموں‘ اسمبلی‘ وزارتوں اور مشاورت کے عمل میں بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ تھنک ٹینکس اور ٹاسک فورسز میں بھی اُن کی موجودگی ہوسکتی ہے ۔ وہ حقیقی‘ باصلاحیت اور تجربہ کار مردو خواتین ہوتے ہیں جوعشروں سے اپنے اپنے میدان میں نام رکھتے ہیں۔ اہم فیصلہ سازاداروں میں موجود ہو کر فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بظاہر محب وطن‘ پارٹی کے رکن اور شک و شبہ سے بالا تر ہوتے ہیں‘ لیکن دراصل مخفی طریقے سے کسی ایجنڈے پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ اس کیلئے وہ غیر محسوس طریقے سے اہم پالیسیوں اور منصوبوں میں اتنی باریکی سے خلل ڈالتے ہیں کہ اُنہیں مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی غلطیوں کی قیمت حکومت کو چکانی پڑتی ہے ۔ 
یہ تینوں عناصر پانچویں نسل کے ہتھیاروں کو مزید مہلک بناتے ہیں اور اہم یا غیر اہم افراد کی شکل میں فعال رہ کر ایسے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں جو بیرونی حملے سے حاصل نہیں ہوتے ۔ امریکا نے چین پر الزام لگایا کہ اس نے امریکا اور یورپ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلایا ۔ وہ اسے بھی پانچویں نسل کے ہتھیاروں کانام دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا طریق کار نیا ہو لیکن Sun Tzu نے اپنی کتاب ''دی آرٹ آف وار‘‘ میں کہا تھا کہ بہترین جنگی حکمت ِعملی لڑے بغیر دشمن کو زیر کرنا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں