رول ماڈلوں کی ری ماڈلنگ

''دیکھا کیسا دائو کھیلا‘ نظام کو کیسا چکمہ دیا ‘ ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا‘ ایک مرتبہ پھر بچ نکلا‘ اسے کہتے ہیں ہاتھ کی صفائی‘‘ ۔ ہماری نوجوان نسل کو ایسی ہی باتیں اور دعوے متاثر کرتے ہیں ۔ دیکھنے والے ایسے کارناموں کو سراہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ ہے وہ نام نہاد ولولہ انگیز تاثر جو زندگی میں آگے بڑھنے والوں کو مہمیز دیتا ہے ۔
کسی بھی معاشرے کو بنانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کامیابی کی اعلیٰ منازل طے کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ وہ کاروباری افراد‘ ماہرین ِ تعلیم ‘ کھلاڑی‘انسان دوست‘ سیاست دان یا کچھ اور ہوں ۔ کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ دوسروں کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں ۔ ایک رول ماڈل مثال قائم کرتے ہوئے دوسروں کی راہ نمائی کرتا ہے ۔ اُنہیں اپنے کردار سے متاثر کرتا ہے ۔ وہ ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم اپنے رویے اور فیصلوں کو خاص شکل دیتے ہوئے دنیا میں کس طرح اپنا مقام حاصل کرسکتے ہیں ۔ کسی معاشرے کا اجتماعی رویہ اس کے رول ماڈل افراد کے قول و فعل سے ترتیب پاتا ہے ۔ جب ہمیں یہ دیکھ کر پچھتاواہوتا ہے کہ پاکستان کس نہج کو پہنچ چکا تو صرف یہ دیکھیں کہ تین مرتبہ کا وزیر اعظم مفرور ہے ۔ تین مرتبہ وزارت اعظمیٰ سے لطف اندوز ہونے والا ارب پتی بن جانے والا‘ ذرائع سے بڑھ کر اثاثے جمع کرنے کی پاداش میں سز ا یافتہ اور طبی بنیادوں پر ملک سے بھاگا ہوا ہے ۔ عدالتوں نے اُسے مطلوب قرار دیا اور وہ برطانیہ میں پکنک منا رہا ہے۔
رول ماڈل مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی ۔ کسی سماجی نظام میں کون سی قسم کے افراد دوسروں کو متاثر کریں گے ‘ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کامیابی کا معیار کیا ہے ۔ زیادہ تر لوگ دولت‘ شہرت اور طاقت کے حصول کو کامیابی قرار دیتے ہیں ۔ اگر کامیابی کو مثبت رول ماڈلز کے کارناموں سے منسوب کیا جائے تو ان سے ایسی اقدار پروان چڑھیں گی جن سے شائستہ اور مہربان معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اگر معاشرے میں منفی کردار والے رول ماڈلز کی تعداد زیادہ ہو تو معاشرے میں منفی روایات کا چلن عام ہوجائے گا۔
نوجوانوں کو سب سے زیادہ یہی چیز متاثر کرتی ہے ۔ اُن کے ذہن کچے اور نوخیز ہوتے ہیں ۔جوانی ویسے بھی منہ زور اور باغی ہوتی ہے ‘ وہ روایت شکنی میں لطف محسوس کرتی ہے ۔اُنہیں گھروالے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ محنت کریںاور ایمان داری سے کام لیں لیکن جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ ان اقدار کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ فوراً ہی یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں کہ وہ اس معاشرے کے لیے ''غیر موزوں‘‘ ہیں ۔ پاکستان میں اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی نوجوان نسل نے اپنے سامنے مکر وفریب سے کامیابی حاصل کرنے والے رول ماڈل دیکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے :
1۔ اقدار کا الجھائو : کسی بھی قوم کاسماجی ڈھانچہ ایسی اقدار اور روایات کے نظام پر مبنی ہوتا ہے جنہیں معاشرے کی اکثریت نے اپنا رکھا ہوتا ہے۔وقت اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کوئی معاشرہ اسے اہمیت دیتا ہے ۔ مغرب میں وقت کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے ۔ وہ ایک ایک منٹ کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ کا خیال رکھتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں وقت کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اس کی وجہ سے معاشرہ لا پروا‘ غیر محتاط اور غیر ذمہ دار ہوچکا ہے ۔ ہماری پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ رول ماڈل معاشرے کا رویہ ‘یقین اور طرزِعمل تبدیل کرسکتے ہیں ۔
اس میں کوئی ابہام نہیں کہ پاکستانی معاشرہ انتہائی سماجی گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ معاشرے میں منفی رول ماڈلزکا ابھرنا ہے۔کامیابی کے لیے شارٹ کٹ ‘فریب اور دھوکا دہی کا چلن عام ہے اور پکڑے جانے کے باوجود کوئی تادیب نہیں ۔ دولت‘ عالی شان مکانات اور اختیارات رکھنے والے زیادہ تر وہ افراد ہیں جنہوں نے زیادہ محنت کیے بغیر دولت کے انبار لگائے ہیں ۔ یہ بغیرمحنت کے حاصل کیا گیا دھن نوجوانوں کو پرکشش دکھائی دیتا ہے ۔ سیاسی راہ نما ‘ ارب پتی بزنس ٹائیکون اور سرکاری افسران دھڑلے سے ‘ بلاخوف وخطر اپنی غلط کاریوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔ دھوکا‘ فریب‘ جھوٹ اور ریاکاری سکہ رائج الوقت ہے ۔
2۔ قوانین اور قواعد وضوابط کا لچک دار ہونا : بدعنوان ہونے میں کوئی شرم نہیں محسوس کی جاتی ۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ سرکاری افسران جن کی تنخواہ بمشکل ایک لاکھ تک ہے ‘ کے پاس کروڑوں روپے مالیت کے مکانات اور گاڑیاں ہیں ۔ یہ دولت کہاں سے آئی ‘ اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جاتی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ ایسی طرزِ زندگی کے متمنی ہیں ۔ اس گروپ میں شامل ہونا اُن کا مقصدِ حیات بن جاتا ہے ۔کسی سیاسی رہنما کی بیٹی ‘ بیٹے کی شادی ہو یا چوٹی کے کاروباری افراد کی تقریبات‘ لوگ کئی ہفتوں تک ان کے طلسم میں کھو ئے رہتے ہیں ۔ ہر کوئی ان میں شریک ہونا چاہتا ہے ۔ مگر اصراف کی مثال بن جانے والی شادیوں کے منتظمین کو ایف بی آر کے بھجوائے گئے نوٹسز کا کیا بنا؟ کئی ملین روپے کے نوٹسز بھجوائے جاتے ہیں لیکن ان پر کیا کارروائی ہوتی ہے‘ اس بارے کچھ بھی سننے میں نہیں آتا ۔ حقیقی کھیل یہ ہے کہ یا تو خود بااختیاربننے کا راستہ اپنائو ‘ یا پھر سیاسی امیدواروں پر سرمایہ کاری کرو۔ ان کے ذریعے آپ کی مرضی کے مطابق قوانین اور پالیسیوں میں تبدیلی ہوتی رہے گی ۔ جب شریف برادران اقتدار میں تھے تواُنہوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے معاشی اصلاحات کا بل پاس کیا ۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو چھپانے کے لیے ایسا کیا گیا۔ اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک میں بھیجا گیا۔ یہ رقم پھر اُن کے معمولی ملازموں کے اکائونٹس میں آگئی۔ چوری کی گئی رقم کو بیرونی ممالک بھیجنے اور واپس منگوانے کی سہولت پیدا کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کے قوانین سخت نہ کیے گئے ۔ اس کی وجہ سے نہ صرف کالے دھن کی بہت وسیع مارکیٹ وجود میں آگئی بلکہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں بھی ڈال دیا گیا ۔
3۔ بدعنوانی کوئی غیر معمولی بات نہیں : جب بدعنوانی معمول بن جائے تو سقم اور سکینڈل لوگوں کو چونکانے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ایک ہار برآمد ہوا تو شاید ہی کسی کی پیشانی پر شکن آئی ہو۔ یہ ہارترک صدر طیب اردوان کی اہلیہ نے سیلاب متاثرین کے امدادی فنڈ میں عطیہ کیا تھا لیکن یوسف رضا گیلانی نے اسے اپنی اہلیہ کو بطور تحفہ دے دیا۔ ممکن ہے کہ اس ہار کی قیمت بہت سے میٹرو منصوبوں سے کم ہو لیکن اس سے اعتماد شکنی ‘ چوری اور فریب کا پتہ چلتا ہے ۔ اسی طرح موٹر وے پر ٹال ٹیکس ادا نہ کرنا بھی ''معمولی ‘‘معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے معاملات نے کام کرانے کیلئے پیسہ لگانے‘ قطار توڑنے یا مٹھی گرم کرنے کی روایت مضبوط کی ہے ۔ قانون شکنی جرم نہیں ۔ ٹریفک اشارے کی خلاف ورزی کرنا معمول کی بات ہے ۔ ایک خالی سڑک پر سرخ بتی پر رکنے والے شخص کو احمق خیال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی معاشرہ اقدار کے زوال ‘ قانون شکنی‘ انصاف کی پامالی پر بے حس ہوجائے تو اس کے رول ماڈل مجرم‘ دھوکے باز اور بدعنوان افراد بن جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے ‘ وہ یہی ہے۔ ہماری اگلی نسل اسی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے ۔ یہی وہ ماحول ہے جس میں ایان علی جیسے افراد کو جامعات میں مہمان خصوصی کے طور پر بلا یا جاتا ہے۔ اسی عالم میں کرپٹ لوگ سکول جا کر بچوں کو بتاتے ہے کہ بدعنوانی کی خیر ہے۔
ہمیں رول ماڈل کی کامیابی درکار ہے ۔ ضروری ہے کہ سخت محنت اور دیانت داری کو کامیابی کی کنجی تسلیم کیا جائے ۔ یہی وجہ کہ ارشد ندیم اور طلحہ طالب جیسے اولمپینز کی اہمیت ہے ۔ دیکھنا ہے کہ نور مقدم کا خوفناک قتل ایک بڑی کہانی بن جائے۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ یہ دودنیائوں کی کہانی ہے ۔ وہ کہانی ہے جس میں یا تو دولت مند اور طاقتور قتل کر کے بھی بچ جائے گا یا پھر طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو انصاف ملے گا۔ وہ کہانی جس میں بدعنوان قید سے آسانی سے نکل کر باہر چلے جاتے ہیں ‘ یا وہ کہانی جس میں اُنہیں واپس لا یا جاتا ہے تاکہ اپنے جرائم کا خمیازہ بھگتیں ۔ جو بھی کہانی غالب آتی ہے ‘ یہ معاشرہ اسی کی پیروی کرے گا۔ اور یہی ہمارا مستقبل ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں