امید کی جگمگاتی کرنیں

2021ء مشکل تھا۔ دکھائی نہ دینے والا تباہ کن وائرس‘ مہنگائی آسمان کو چھوتی ہوئی‘ پیداوار ناقص اور بدامنی کا دور دورہ۔ ماہرین نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن تباہی اور بربادی کی تمام تر دہائی کے باوجود پاکستان نے بہت سے شعبوں میں بہتری دکھائی۔ کارکردگی کو الگ تھلگ کرکے نہیں ناپا جاسکتا‘یہ ایک مربوط عمل کا نام ہے ۔ اس کا تعلق موجودہ حالات کے علاوہ سابق کارکردگی اور عالمی معیار سے بھی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کی پیش کردہ تصویر کی بجائے حالات اور واقعات کے تناظر میں متوازن اندازِ فکر کی ضرورت ہے ۔ 2021ء میں پاکستان نے جن دس شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھائی ‘ وہ اس طرح ہیں:
1۔ خود مختاری پر سمجھوتہ نہ کرنا: پاکستان نے ''ڈومور‘‘ کا جواب ''ہرگز نہیں‘‘ سے دیا۔ تبدیلی تکلیف دہ ہے لیکن جو سچے لیڈر ہوتے ہیں وہ درست‘ اگرچہ غیر مقبول فیصلے کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ پاکستان پہلی بار سپر پاور کے سامنے کھڑا ہوا اور اس کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا۔ اس سے خطے میں اور پاکستان کے اندر ملک کا قد بڑا ہوا ۔ آنے والے وقتوں میں پاکستان کو اس کی معاشی اور سیاسی قیمت نہیں چکانی پڑے گی جو یہ نائن الیون سے چکاتا آیا ہے ۔
2۔ معاشی کارکردگی: 2019ء میں صرف ایک فیصد شرح نمو تھی ۔ اس عالم میں کورونا کی وبا کو حکومت کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا گیا۔ 2021ء میں دنیا بھر میں معاشی شرح نمو منفی رہی لیکن اس وقت پاکستان نے نہ صرف مثبت بلکہ توقعات سے کہیں بڑھ کر پانچ فیصد سے زیادہ معاشی شرح نمو حاصل کی۔ پاکستان نے اب تک کی سب سے زیادہ برآمدات‘ سب سے زیادہ ذخائر‘ سب سے زیادہ ترسیلات‘ آٹو انڈسٹری‘ سیمنٹ انڈسٹری‘ ٹریکٹر انڈسٹری وغیرہ میں سب سے زیادہ فروخت کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستان کے زوال پذیر زرعی شعبے کو 1100 بلین روپے کی سبسڈی کاسہارا ملا جس سے کپاس‘ گندم ‘ چینی اورمکئی کی فصلوں کی پیداوار بہتر ہوئی۔ 2022ء میں معیشت پانچ فیصد شرح نمو سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے‘ تاہم مہنگائی کی شرح بہت بڑھ گئی ہے اس لیے دیکھنا ہوگا کہ کیا معاشی افزائش کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں ۔
3۔ کورونا مینجمنٹ : دنیاوبائی مرض کی یکے بعد دیگر اُٹھنے والی لہروں کی زد میں ہے۔ مغرب اور بھارت میں زیادہ تر لہروں کی وجہ کورونا کو غلط طریقے سے مینج کرنا تھا۔ اس عالم میں اپنے کم وسائل‘ کم علم اور جدید ٹیکنالوجی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے پاکستان ان دیوقامت ممالک کے مقابلے میں کسی قطار شمار میں نہیں تھا لیکن اس نے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ عالمی ادارہ صحت سے لے کر ورلڈ بینک تک نے پاکستان کو ایک کیس سٹڈی قرار دیا ہے کہ زندگی اور معاش کو کیسے بچایا جائے۔ وزیر اعظم کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر پوری دنیا میں لکھا گیا‘ اس پر بات کی گئی۔یہ کئی دہائیوں میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ہے جسے بدقسمتی سے اجاگر نہیں کیا گیا۔
4۔ موسمیاتی تبدیلی کو اہم موضوع بنانا: عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی ایک بہت سلگتا ہوا موضوع ہے لیکن اس میں پاکستان کی کوئی آواز شامل نہیں تھی۔ چند سال پہلے تک ایسا ہی تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی سے لے کر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تک یہ اعلان کرتے ہیں کہ ممالک کو پاکستان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی تعریف و توصیف کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی آفات سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی پیش رفت کر رہا ہے۔
5۔ خارجہ پالیسی میں پیش رفت: پاکستان نے اپنی علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت کو بحال کرنے میں بہت بڑی پیش رفت کی ہے۔ تین سال قبل ایران‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ تقریباً تلخ تعلقات کے باعث پا کستان تنہا ہو گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے میں بتدریج کامیابی حاصل کی۔ مودی کی ہندوتوا پالیسیوں کو بے نقاب کرنے میں وزیر اعظم نے جرأت مندانہ موقف اپنایا ۔ ہٹلرکا حوالہ ایک ایسا تیر تھا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔ پاکستان نے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کیے ہیں اور مرکزی مذاکرات کار اور وسط ایشیا کے ساتھ شراکت دار بن گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے فلسطین میں اسرائیلی مظالم بند کرانے کے لیے اقوام متحدہ پر زور دیا نیز افغانستان پر او آئی سی کو متحد کرنا بھی ایک کامیابی ہے ۔ پاکستان میں منعقدہ او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس اس بات کا ایک بہت بڑا اشارہ تھا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے غیر اہم رہنے کے بعد علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک بار پھر مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
6۔ سماجی تحفظ کی چھتری: کورونالہر آنے پر سڑکوں پر لاکھوں افراد کی بھگدڑ یا بھوک اور افلاس سے اموات متوقع تھیں۔ بھارت میں یہ خدشہ حقیقت بن گیا۔ لوگوں کے گھر کی طرف بھاگنے کے خوفناک مناظر میڈیا پر چھائے ہوئے تھے۔اس عالم میں پاکستان پھر ایک روشن مثال بن کر ابھرا۔ احساس پروگرام نے غریبوں کو مالی ریلیف دیا‘ اس طرح یہ عالمی بینک کی درجہ بندی کے مطابق غربت کے خاتمے کا دنیا کا چوتھا بہترین پروگرام بن گیا۔ پناہ گاہیں متعارف کرائی گئیں‘ کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام نے غریب ترین افراد کے لیے کھانا اور پناہ حاصل کرنا ممکن بنایا۔ پروگرام کی شفافیت اس منصوبے کی پہچان تھی۔
7۔ صحت کی سہولیات کی فراہمی میں انقلابی اقدام: اس حکومت کی سب سے بڑی کامیابی صحت تک رسائی کا ہمہ گیر پروگرام ہو گا۔ ہیلتھ کارڈ وہ کام کررہا ہے جو اوباما کیئر پروگرام بھی کرنے میں ناکام رہا۔ یہ فی کنبہ 10 لاکھ روپے کے حساب سے صحت کی دیکھ بھال کی مفت سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ ہسپتالوں کے انتخاب میں سرکاری اور نجی ہسپتال شامل ہیں۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ اس سے صحت کے مسائل غریب افراد کے لیے کمرتوڑ ثابت نہیں ہوں گے۔ پولیو کا تقریباً خاتمہ بھی ایک قابل ذکر کامیابی ہے کیونکہ گزشتہ سال ملک میں پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔ امید ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد اس سال پاکستان پولیو فری ملک قرار دے دیا جائے گا۔
8۔ سٹارٹ اپس کا نمایاں فروغ: کووڈ کے دوران نوجوان کاروباری افراد نے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ پاکستان میں سٹارٹ اپس نے 2021ء میں 300 ملین ڈالر سے زائد فنڈز اکٹھے کیے جو گزشتہ چھ سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ائیرلفٹ سے لے کر تجاہ ٹیکنالوجیز تک اور ''تاجر‘ ‘سے لے کر'' بازار‘‘ تک نوجوان آئی ٹی ایجادات تیار کر رہے ہیں جو سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ یہ بے مثال تیزی نہ صرف مالیاتی فروغ ہے بلکہ پاکستان کی ممکنہ صلاحیتوں کا عملی اظہار بھی ہے۔یہ راستہ پاکستان کو جدت‘ سرمایہ کاری اور نوجوانوں کی قیادت کا سرچشمہ بنا سکتاہے ۔
9۔ تاریخی قانون سازی: گزشتہ حکومت کے 69 بلوں کے مقابلے پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے تین سالوں میں 100 بل منظور کیے۔ وائرس کے پھیلائو کے باوجود نہ صرف قانون سازی زیادہ تھی بلکہ قانون سازی کی نوعیت بھی تاریخی تھی۔ زینب الرٹ بل‘ ویمن پراپرٹی رائٹس بل‘ اینٹی ریپ بل‘ سینئر سٹیزن بل جیسے خواتین سے متعلق بل سب تاریخی کارنامے تھے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین جیسی اصلاحات اور اوورسیز ووٹنگ رائٹ بل جس کی زبردست مخالفت ہوئی تھی بھی مشترکہ اجلاس سے منظور کرائی گئی۔
10۔ کھیلوں کی بحالی: اگرچہ پاکستان نے اولمپکس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ اس کے کھلاڑیوں کی کارکردگی نے کھیلوں کے ادارے میں اصلاحات کی طرف توجہ ضرور مبذول کرائی۔بہت سی کارپوریٹ کمپنیاں اب ان باصلاحیت ستاروں پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں جنہیں مالی مدد کی ضرورت ہے۔ شاید کھیلوں کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کرکٹ ٹیموں کی T20 ورلڈ کپ میں کارکردگی تھی۔ بھارت کو 13 سال بعد ورلڈ کپ میں شکست دی اور پھر اس کے بعد اتنی اچھی کارکردگی نے قوم کے حوصلے بلند کر دیے۔ پاکستان نے 2021ء میں کھیلے گئے چھبیس T20 میچوں میں سے 20 میچز جیت کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ بابر‘ رضوان‘ شاہین‘ شاداب اور حسن علی جیسے میچ ونر کے طور پر تقریباً نصف ٹیم کا ہونا ایک نادر کارنامہ ہے۔
2021ء کا حقیقی فتح کا مظہر صرف کارکردگی نہیں بلکہ لیڈر کی سوچ ہے۔ مسلسل تناؤ کے باوجود وہ جرأت مندانہ فیصلے لینے کے لیے توانا دماغ اور دل رکھتے ہیں‘ چاہے یہ سمارٹ لاک ڈاؤن ہو یا امیر اور غریب کے لیے یکساں صحت کی دیکھ بھال یا امیر اور غریب کے لیے یکساں نصاب‘ توجہ اس بات پر رہتی ہے کہ معاشرے کے سب سے کمزور لوگوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔ مہنگائی نے یقینا اس کارکردگی کو دھندلا دیا لیکن احساس پروگرام سے فراہم کردہ ریلیف قیمتوں میں اضافے کو کم کرے گا تاکہ 2022 مزید ترقی اور خوشحالی کی منزلیں سرکرے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں