نئی عالمی بدنظمی

چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں اتنی ہی جوں کی توں رہتی ہیں ۔ غلط؟ اس معروضے کو غلط ہونا چاہیے‘ لیکن بدقسمتی سے یہ درست ہے۔ وبائی مرض کا خوف ابھی ختم نہیں ہوا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انسانی ذہن کی سیکھنے اور نئے افکار پیدا کرنے کی صلاحیت دم توڑ چکی ہے۔ تنازعات‘ پابندیاں‘ جنگیں وبائی امراض سے پہلے کا عالمی چلن تھا ۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ اسی شدت اور سفاکیت کے ساتھ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ کیا دنیا رہنے کے لیے بہتر جگہ ہے؟ کیا دنیا زیادہ پرامن ہے؟ کیا دنیا زیادہ محفوظ ہے؟ کیا دنیا صحت مند ہے؟ کیا دنیا زیادہ خوشحال ہے؟ ان سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اس نے انتشار‘ افراتفری اور ایسا خلفشار پیدا کر دیا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نہیں دیکھا گیا تھا۔ امیر ترین ممالک میں بھی زندگی گزارنے کی لاگت غریبوں اور تنخواہ دار طبقے کے لیے عذاب بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معیشتوں اور صحت کے شعبے میں اس بڑے بحران کے باوجود قومیں اور خاص طور پر ورلڈ آرڈر بنانے والے اب بھی پرانے طریقوں کو جاری رکھنے پر کیوں مصر ہیں۔ جواب ذیل میں ہے:
1۔ فاتح کا فلسفہ ہی غالب ہوتا ہے: سابق امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی مساوات کے اصولوں کو ختم کر دیا۔ قوم پرستی‘ امریکن ازم‘ نسل پرستی کی خام نمائش‘ ان سب کا واضح اظہار تھا۔ افغانستان پر ''مدر آف آل بمز‘‘ پھینکنے سے لے کر میکسیکواورامریکی سرحد پر دیوار کی تعمیر تک سپر پاور کانسلی تعصب سب کو لپیٹ میں لے رہا تھا۔ ہاں ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے کچھ لمحات تھے لیکن تسلط‘ توسیع‘ کنٹرول کا فلسفہ واضح تھا۔ وبائی امراض میں خوراک ذخیرہ کرنے سے لے کر دنیا میں جنگوں کو سپانسر کرنے تک مغرب نے ایک سفید فام‘ خوب صورت اور پر لطف چہرے کے ساتھ پاور سپیریئر کہلانے کے ارادے کو ظاہر کیا ہے۔ چھوٹے ممالک تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیاروں کی جانچ کی عملی تجربہ گاہ ہیں۔
2۔ تباہی اور تعمیر کا فارمولہ: مغربی مداخلت کے لیے بتایا جانے والا مشہور جواز ''قوم کی تعمیر‘‘ہے ۔ تمام جنگیں (کہنے کو) دوسرے ممالک کے لوگوں کو بچانے کے لیے ''نیک نیت‘‘کے ساتھ ہی لڑی جاتی ہیں۔ پہلے وہ حملہ کرتے ہیں اور اپنی بڑی دفاعی صنعت کو فروغ دیتے ہیں۔ پھر جب ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہو جاتا ہے تو وہ مشروط امداد فراہم کرتے ہیں۔ یہ امداد پھر معیشتوں کی تعمیرِ نو کے لیے کثیر القومی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح ہر ملٹی نیشنل ممالک سے بڑا ہو جاتا ہے۔ ایپل کی مجموعی مالیت پاکستان کی جی ڈی پی سے چار گنا ہے۔ یہ ملٹی نیشنلز کامیابی کی علامت بن چکی ہیں۔یہ بہت بڑے‘ منظم اور اچھی تنخواہ دینے والے ادارے ہیں۔ پوری دنیا کے شہری خاص طور پر چھوٹے ممالک میں ان میں کام کرنے اور زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے والے ''حیرت انگیز‘‘ نظام کے بڑے پرستار بننے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس سے غریب ممالک میں فکری دیوالیہ پن اور امیر ممالک میں جدت طرازی کا سلسلہ چل نکلتا ہے ۔
3 ۔ کٹھ پتلی حکومت کا فارمولہ: مغرب اطاعت گزار حکمرانوں کو پسند کرتا ہے۔اس طرح بہت سے چھوٹے ممالک میں امریکی اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے میں مدد دیتے ہیں ۔ افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی‘ اپنے آدمی کے ذریعے اس کنٹرول کی واضح مثالیں ہیں۔ سٹریٹجک اہمیت کے حامل دیگر ممالک میں وہ امداد اور مراعات کے ساتھ حکومتوں کو رام کرتے ہیں۔ وہ کنٹرول کے بدلے میں آمرانہ حکومتوں اور سلطنتوں کی پشت پناہی کرنے کو تیار ہیں۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات دو مثالیں ہیں۔ صدر مشرف مغرب کی آنکھ کا تارا اس لیے تھے کیونکہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مغرب کا اتحادی بنا دیا تھا۔
4 ۔ عالمی اداروں کا نیٹ ورک: اس کے بعد بین الاقوامی ادارے ہیں۔ یہ مالی یا قانونی فورمز جو دنیا کو بڑے پیمانے پر تنازعات‘ معاشی مسائل وغیرہ سے بچانے کے لیے ہیں‘ درحقیقت ان کی باگ ڈور متمول افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ مسئلہ اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ و رلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے لیڈر منتخب نہیں ہوتے بلکہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے نامزد ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان اداروں میں ووٹنگ کی طاقت امیر ممالک کے حق میں بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کے پاس تمام اہم فیصلوں پر ڈی فیکٹو ویٹو پاور ہے اور وہ جی سیون ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر دونوں ایجنسیوں میں نصف سے زیادہ ووٹوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کا 85 فیصد ہیں‘ کا ان میں حصہ برائے نام ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین عالمی مسئلہ ہے جبکہ کشمیر شاید ہی کوئی مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہو۔
5۔ ہائبرڈ جاسوسی: عالمی نظام کو کنٹرول کرنے کا ایک اور حربہ غیر ملکی مشن ہیں۔ ان مشنز کا مقصد صرف سفارتکاری کے روابط کو فروغ دینا نہیں بلکہ فکری اور ثقافتی طور پر دراندازی کے لیے انٹیلی جنس آنکھیں بننا ہے۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا تھاکہ کیبلز دور دراز کے سفارت خانوں سے مختلف مشنز سے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کوارٹرز کو بھیجی گئیں۔ 2008ء اور 2009ء کی تقریباً نصف درجن کیبلز جو کہ زیادہ جارحانہ انٹیلی جنس جمع کرنے کی تفصیلات بتاتی ہیں ‘واشنگٹن سے بھیجی گئی تھیں اور ان پر سیکرٹری کونڈولیزا رائس اور ہلیری رودھم کلنٹن نے دستخط کیے تھے۔ یہ مشن مقامی اہداف کو بیوروکریسی‘ سیاست اور دانشوروں وغیرہ میں شامل کرتے ہیں تاکہ انٹیلی جنس حاصل کی جا سکے اور ثقافتی راستہ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں بلیک واٹر ایک مثال تھا اور ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس بات کا مظہر تھا کہ ان کی مداخلتیں کس قدر صریح ہیں۔
6۔ غیر نقدی: کاروباری حیثیت‘ خاندانی خواہشات‘ مختلف ٹارگٹ گروپس میں اہم لوگوں کے کریڈٹ کارڈ کے اخراجات جیسی گہری معلومات کے ساتھ‘ ان بیرونی ممالک کے ایجنٹ مختلف طریقوں سے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک ذریعہ این جی اوز ہیں۔بین الاقوامی خیراتی ادارے فنڈ حاصل کرتے ہیں اور بڑی تنخواہیں دیتے ہیں۔ وہ سرکاری محکموں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ ان میں سے اگر سبھی نہیں تو کچھ کلیدی بیوروکریٹس کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے جنہیں شیشے میں اتارا جاسکتا ہے۔ وہ ان کے بچوں کو نوکریاں یا سکالرشپ وغیرہ کی پیشکش کریں گے اور بدلے میں پالیسیوں وغیرہ میں اہم لیکن غیر محسوس تبدیلیاں لائیں گے جن کی طرف بہت دیر تک کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ سیاست دانوں کو فیملی کے ساتھ مہنگی کانفرنسوں اور کورسز میں مفت سفر کی پیشکش کی جاتی ہے اور وہ بعض مغربی ایجنڈوں کی حمایت کرنے کے لیے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ یوکرین پر اقوام متحدہ کے ووٹ سے گریز کرنے پر عوام میں حکومت کو احتجاجی خط بھیجنے پر یورپی یونین کا تازہ ترین تنازع ایک بہترین مثال ہے۔ یورپی یونین کے موقف کی حمایت کرنے والے اہم سیاستدانوں کے بیانات اسی اثر و رسوخ کا نتیجہ ہیں۔
7۔ ابلاغِ عامہ کے ہتھیار: شاید نظام یا بدنظمی پیدا کرنے والا سب سے طاقتور ہتھیار مغرب کے پاس بیانیہ سازی کی مشینری ہے۔ تصاویر اور خبریں بنانے کے لیے نرم طاقت اور صلاحیت کو استعمال کرنے کی ان کی صلاحیت بے مثال ہے۔ روس اور چین ان کا مقابلہ بندوق سے کر سکتے ہیں لیکن ان کے پاس بیانیہ سازی کی صلاحیت نہیں ہے یا وہ پھیلاؤ یا گہرائی نہیں ہے جو مغرب کے پاس ہے۔ مغرب کی ہر جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں لیکن آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ یوکرینیوں یا یورپیوں کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان کے نیوز نیٹ ورک‘ ان کے نیٹ فلکس‘ ان کی ویڈ یو گرافی شدہ مسخ شدہ دستاویزی فلمیں کسی کا بھی برین واش کر سکتی ہیں۔
سرد جنگوں کا دور ختم ہو چکا ۔ عالمی جنگوں کا دور بھی تمام ہوا۔ علاقائی جنگوں کا دوربھی لد چکا ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا زیادہ پرامن اور رہنے کے قابل ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور منقسم ہے۔ ہم ایسی حالتِ جنگ میں نہیں ہیں جو حملوں سے شروع ہو اور جنگ بندی پر ختم ہو۔ ہم مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں۔ پانچویں نسل کی جنگیں ان کے حملے میں پوشیدہ اور غیر محسوس ہوتی ہیں پھر بھی ان کا حملہ مہلک اور مسلسل ہے۔ قبضے کا نوآبادیاتی دور بہت واضح تھا۔ نئی حکمت عملی زیادہ شاندار اور بظاہر کم جارحانہ ہے۔ یہ تصورات کی تخم ریزی کا عمل ہے ۔ یہاں سوچ کی پیوند کاری ہوتی ہے ۔ یہاں باغ کو کنٹرول کرکے من پسند ثمرات حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ خوفناک ہے لیکن آنکھیں بند کرنے سے یہ ختم نہیں ہوجائے گا۔ اس خرابی کا بندوبست کرنا ہوگا۔ یہ تبھی ہوگا جب ہم سرد جنگوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سردمہری کی جگہ نرم انسانی جذبات کو جگہ دی جائے۔ سب سے بڑی ضرورت وسیع پیمانے پر امن‘ اجتماعی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے وسیع ہتھیاروں کو دوبارہ بنانے اور فروغ دینے کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں