پشاور کا اندوہنا ک سانحہ ،جس میں ہمارے 132بچوں کو خون میں نہلا کر دہشت گردی کی بدترین تا ریخ رقم کی گئی ،کو پاکستان کے لیے نائن الیون کے مترادف قرار دینا غلط نہیں ۔ 2001ء میں گیارہ ستمبرکو القاعدہ نے نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر ہائی جیک شدہ جہاز ٹکرا کر اسے زمین بوس کر دیا تھا اور اسی روزپینٹاگون کے ایک حصے میں بھی جہاز کریش کیا۔ ان واقعات میں قریباً تین ہزار شہری لقمۂ اجل بن گئے اورچھ ہزار سے زیا دہ زخمی ہو ئے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے ''یوم سقوط ڈھاکہ‘‘ کے روز آرمی پبلک سکول پر تحریک طالبان پاکستان کا بز دلانہ حملہ پاکستان کا ٹویلو سکسٹین16/12ہے ۔ہو سکتا ہے کہ اس سانحہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے تشبیہ دینا بعض افراد کی طبع نازک پر گراں گزرے لیکن اس کے بعد امریکہ نے جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا اور جواقدامات کیے اس سے پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں ایساارتعاش آ یاکہ عراق ،افغا نستان اور پاکستان اب تک اس کے منفی اثرات سے نہیں نکل سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے اپنی عسکری وسیاسی کو تا ہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے حکمت عملی اپنائی اور اپنی سرزمین پر اس نو عیت کی دہشت گردی دوبارہ نہیں ہو نے دی۔ امریکی سینیٹ کمیٹی کی حالیہ رپورٹ خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ گوانتا نا مو بے اور دیگر مقامات پرعقوبت خانوں میںایذا رسانی کے نت نئے حربوں کے ذریعے ایسی انٹیلی جنس معلومات حا صل کی گئیں جن سے امریکہ نے اپنی سرزمین کو کسی حد تک محفوظ کر لیا۔
نا ئن الیون کے واقعہ میں انٹیلی جنس کی ناکامی اوراپنی کو تاہیوں کا جا ئز ہ لینے کے لیے ایک کمیشن بٹھا یا گیا جس کی ضخیم رپورٹ نہ صرف شائع کی گئی بلکہ دنیا بھر کے کتب خانوں میں کتاب کے طورپر بھی اسے عام کیا گیا ۔کیا اسی قسم کے ردعمل کا مظاہرہ پاکستانی قوم، جسدسیاست اور مسلح افواج کی طرف سے بھی کیا جا ئے گا ؟وزیر اعظم کی طرف سے گورنر ہا ؤس پشاور میں بلائے گئے اجلاس کے نتیجے میں کو ئیک ایکشن پلان بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اس کا پہلا اجلاس بھی ہو چکا اور کمیٹی کے سربراہ وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان کے مطابق کمیٹی ایک ہفتے کے دوران اپنی سفارشات عام کر دے گی ۔سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) ہو یا اپوزیشن میں عمران خان کی تحریک انصاف یااس کی حلیف جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق ہوں‘ ان سب میں یہ قدر مشترک ہے کہ کوئی بھی تحریک طالبان کا نام نہیں لیتا ۔یہ سب تحریک
طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کے حامی بلکہ Apologistرہے ہیں ۔ شاید اب بعداز خرابی بسیار یہ اپنا رویہ تبدیل کر لیں۔ آپریشن ''ضرب عضب‘‘ سے کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان طالبان سے مذاکرات کرنے کے بارے میں بچھے جا رہے تھے اور اس وقت ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے پر انھوں نے آنسو بہا تے ہو ئے کہا تھا کہ آج امن مذاکرات پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔ عمران خان دہشت گردوں سے مذاکرات کے بارے میں اس حد تک رطب اللسان رہے ہیں کہ ان کے مخالفین انھیں ''طالبان خان‘‘ کے لقب سے بھی نوازتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کمیٹی جس کے سربراہ چوہدری نثار علی خان ہیں وہ طالبان کے بارے میں کیا سفارشات تیار کر سکتی ہے‘ لیکن اصل فیصلے میاں نواز شریف کی صدارت میںجی ایچ کیو میں ہونے والے اجلاس میں کر لیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں میں سب سے دوررس دہشت گردی کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے فوری فوجی عدالتوں کا قیام ہے‘ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے محض نوازشریف اور جنر ل راحیل شریف کا اس بات پر اتفاقِ رائے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تخصیص اور بغیر کسی رُورعایت کے بھرپور کارروائی کی جائے گی، کافی نہیں ہے اور نہ ہی یہ معاملہ محض دہشت گردوں کو پھانسی دینے سے حل ہوگا‘ جب تک اس ضمن میں دل اور دماغ کو جیتنے کی جنگ نہیں لڑی جاتی‘ وطن عزیز دہشت گردی کے گرداب میں پھنستا چلا جائے گا۔ اسی بنا پر سویلین لیڈرشپ کو بھرپور طریقے سے اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔ ابھی تک تو اس حمام میں سب ننگے رہے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے دہشت گردوں کے سامنے اس لیے سجدۂ سہوکیا ہوا تھا کہ اگر پنجاب محفوظ رہے تو وہ بھی محفوظ ہیں۔ اسی بنا پر بعض تنظیموں پردہشت گردی کے الزامات کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
یہی حال خان صاحب کا ہے۔ وہ بھی ڈرون حملے اور نیٹو سپلائی روٹ کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ براہ راست طالبان سے مذاکرات کی لائن پر چمٹے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان عناصر سے مذاکرات کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں۔ خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جو دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہے اور وہاں ان کی حکومت بھی ہے۔ ''ضرب عضب‘‘ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیزبھی زیادہ تر بنوں میں ہی ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب نے دہشت گردی کے بارے میں کوئی حکمت عملی اختیار کرنے یا اس کی مذمت کرنے کے بجائے 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سارا زور دھرنوں، جلسوں اور شٹ ڈائون پر صرف کر دیا۔ دھرنے کے ابتدائی ہفتوں میں وہ تیسرے امپائر کے انگلی کھڑے کرنے کے منتظر رہے لیکن بالآخر تیسرے امپائر کو ہی اُن کی احتجاجی سیاست میں ''ذوالفقار علی بھٹو کی بو‘‘ آنے لگی اور اس سارے قضیے میں قوم پر جو ہذیانی کیفیت طاری کی گئی اس میں ضرب عضب کے دوران فوج کی قربانیوں، آئی ڈی پیز کی مشکلات اور دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کی طرف قوم کی توجہ بٹی رہی۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی کوئی قابل فخر نہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ''اونرشپ‘‘ نہیں ہو سکی۔ بلکہ ایسے لگتا تھا کہ یہ جنگ جو پاکستان کے قبائلی علاقوں یا شمالی وزیرستان میں لڑی جا رہی ہے‘ خدانخواستہ وزیرستان پاکستان کا حصہ نہیں۔ قوم اور فوج دہشت گردی کے تازہ سفاکا نہ واقعے پر غمزدہ اور غصے میں ہے۔ اسی جذبے نے عمران خان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دہشت گردی کی مذمت کریں اور اپنے دھرنے کو خیرباد کہہ دیں۔ اس لحاظ سے اُن کا یہ اقدام مدبرانہ ہے۔ میاں صاحب کو بھی اب دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کمیشن بنا کر انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومتی ٹیم کو پی ٹی آئی کو ہر قیمت پر آمادہ کرنا چاہیے کو وہ پارلیمنٹ میں واپس آئے۔ اس کے بغیر سیاسی اتفاق رائے اور اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گاکیونکہ پارلیمنٹ ہی بنائے اتحاد اور قومی اتفاق رائے کا منبع ہے جہاں سے کو ئی مربوط پالیسی جنم لے سکتی ہے۔
جنرل راحیل شریف سانحہ پشاور سے اگلے روزہنگامی طور پر کابل کے دورے پر گئے۔ ان کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود تھے کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کی یہ بزدلانہ کارروائی ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ایما پر کی گئی ہے۔ اس کی ساری پلاننگ افغانستان میں ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق انہیں افغان صدر اشرف غنی نے بھرپور تعاون کایقین دلایا ہے۔ افغانستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ فضل اللہ کو ہمارے حوالے کر سکے کیونکہ وہ افغان صوبے کنڑ میں گھات لگائے بیٹھا ہے‘ جو افغان حکومت کی دسترس سے باہر ہے۔ اسے تو امریکی ڈرون ہی ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں فوج سیاستدانوں اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف بنیانِ مرصوص بننا ہوگا۔ قومی بقا کا یہی تقاضا ہے۔