آج جب پورا ملک دہشتگردوں کی سفا کا نہ کارروائیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 7ویں بر سی کے موقع پر ان کی کمی بڑی شد ت سے محسو س ہوئی ۔یقینامحترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ان کے اہل خانہ اور پا رٹی کے لیے ایک ناقابل تلا فی نقصان تھا لیکن شاید وہ پاکستان کی واحد سیا ستدان تھیں جنہوں نے دہشتگردی کے بڑھتے ہو ئے خطرے کو بھانپتے ہو ئے اس کے خلاف برملا اور بلا کم وکاست آواز اٹھائی اور بدقسمتی سے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی نشانہ بن گئیں ۔27دسمبر 2007ء کی منحوس شام لیا قت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے بعد وہاں سے نکلتے ہوئے انھیںاس بارے میں خطرات اور خدشات کا بخوبی علم تھا ۔ایک شب پہلے صدر جنرل پرویز مشرف کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج ان کو متنبہ کر چکے تھے کہ انھیں دہشت گردوں سے شدید خطرہ ہے ۔لہٰذا وہ لیا قت باغ کے جلسے میں نہ جائیںلیکن ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی کہاں ماننے والی تھیں ۔وہ دلیر خاتون تھیں اورموت سے نہیں ڈرتی تھیں ۔یہ ستم ظریفی ہے کہ آمراور خا ئن پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کرنے والے تو تختہ دار پر لٹک چکے ہیں لیکن محترمہ کے قاتلوں کا آج تک ''کھرا‘‘ ہی نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو دھمکیاں دینے والے طالبان تھے جنہوں نے ان پر پہلا قاتلانہ حملہ اسی سال 18اکتوبر کو ان کی کراچی آمد پر کیا تھا جس میں 140افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور وہی اس بزدلانہ کارروائی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کی شہادت کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا بھی کمیشن بنا اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم بھی پاکستان آئی، تا ہم ان کے شوہر آصف علی زرداری کی سربراہی میں ان ہی کی پارٹی کی حکومت پورے پانچ برس اقتدار میں رہنے کے باوجود اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی ۔میاں نواز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ میں اپنی بہن کے قاتلوں کا سراغ لگاؤں گا‘ لیکن ان کی حکومت تو اپنی بقا کی جنگ میں ہی پھنسی ہو ئی ہے۔
محترمہ کے والد مرحوم ذوالفقار علی بھٹوسے بطور صحا فی میرا قریبی تعلق تھا جبکہ محترمہ سے میرا قلبی تعلق تھا ۔ان سے آخری ملاقات ان کے راولپنڈی کے سفر آخرت سے قبل لاہور میں ہو ئی ۔وہ ڈیفنس میں سردار لطیف کھوسہ کی اقامت گاہ پر قیام پذیر تھیں اور گوجرانوالہ تک لانگ مارچ کرنے کی تیاری کررہی تھیں ۔میں نے فون کیا تو حسب سابق مجھے انھوں نے بلا لیا ۔کھوسہ صاحب کی اقامت گاہ کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس موقع پر ان کے معتمد خصوصی بشیر ریا ض بھی موجودتھے اور ہمہ تن مصروف بے نظیر وہاں محترمہ شیری رحمن کو ہدایات بھی دے رہی تھیں ۔ اس دوران جہانگیر بدر ان کے لیے جو گرلے کر آ گئے جو انھوںنے لانگ مارچ کے موقع پر پہننے کے لیے منگوائے تھے ۔میں جب رات گیارہ بجے وہاں سے باہر نکلا تو اس کے فوری بعد ہی محترمہ کو گھر میںنظر بند کر دیا گیا ۔وہاں پر موجود سینئر بیورو کریٹ سلمان صدیق نے بتایا کہ آپ ہی کے نکلنے کا انتظار تھا ۔محترمہ کو شدید سکیورٹی خطرات ہیںجس وجہ سے انھیں پابندکر دیا گیا ہے اوربعدازاں سلمان صدیق کی بات ٹھیک ہی نکلی لیکن سوال پیدا ہو تا ہے کہ وفاقی حکومت نے سکیورٹی خدشات کے باوجود محض وارننگ دینے پر ہی اکتفا کیو ں کیا۔ میری محترمہ سے آخری گفتگو ان کی شہادت سے ایک روز پہلے ہو ئی ۔میں نے فون کیا تو وہ دورے پر کسی دوسرے شہرکی طرف رواں دواں تھیں ۔ ان کی سیکرٹری ناہید خان نے بتایا کہ بی بی اس وقت لو گوں میںگھری ہو ئی ہیں آپ سے بعد میں بات کر یں گی ۔اگلے روز صبح ہی ان کا فون آگیا اور پندرہ بیس منٹ تک حالات حا ضرہ پر گفتگو ہو ئی جس میں انھوں نے پرویز مشرف پر بھر پور تنقید کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں سے ڈرنے والی نہیں ۔مجھے کیا معلوم تھا کہ اسی شام وہ شہید کر دی جائیں گی اور ان سے یہ میری آخری گفتگوہوگی۔
محترمہ سے سانحہ کارساز کراچی کے اگلے روز بھی میری فون پر بات چیت ہو ئی تھی ۔میراخیال تھا کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد وہ نفسیاتی طورپر اتنے زیادہ دباؤ میں ہو نگی کہ وہ مجھ سے بات نہیں کر سکیں گی لیکن انھوں نے نہ صرف مجھ سے بڑے حوصلے کے ساتھ بات کی بلکہ واقعہ کی مذمت کرتے ہو ئے کہا کہ وہ ایسے حملوں سے ڈرنے والی نہیں ہیں ۔محترمہ کے اس کردار کا موازنہ پیپلز پارٹی سمیت آج کے سیاستدانوں سے کیا جائے تو وہ بالشتیے لگتے ہیں ۔ان خواتین وحضرات نے اپنی وقتی مصلحتوں، آلائشوں اور خودغرضانہ خواہشوں کی ہوس میں ملک کو دہشتگردوں کی آماجگاہ بنادیا ہے ۔2008ء میں اگر محترمہ وزیراعظم ہو تیں تو وہ نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی دامے درمے سخنے حمایت کرتیں بلکہ اس جنگ میں قائدانہ کردارادا کرتیں ۔وہ فوج کے آگے سجدہ سہو کرنے کی قائل نہیں تھیں‘ اسی بناء پر کرپشن کا الزام لگا کر انھیں محلاتی سازشوں کے ذریعے برطرف بھی کیا گیا ۔یقینا وہ دہشت گردوںکے خلاف آپریشن کرنے کے بارے میں اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کیا نی کے لیت ولعل سے کام لینے کی روش کو رد کر دیتیں ۔آج تو صورتحال یہ ہے کہ ہماری ساری سیاسی قیادت بعداز خرابی بسیار طوعاً و کرہاً فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی آواز پر لبیک کہتے ہو ئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی حمایت کرنے پر مجبور ہو ئی ہے‘ سانحہ پشاورسے پہلے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
نو ڈیرو میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری نے دھواں دھار تقریر کی لیکن بلاول بھٹو زرداری کی غیر حا ضری کو جیالوں نے شدت سے محسوس کیا ۔ٹھیک دو برس قبل بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر ہی مرصع اردو میں تقریر کر کے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغا ز کیا تھا‘ لیکن چند ماہ سے وہ سیاسی منظر سے غائب ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ وہ بھٹو خاندان کی روایت کے مطابق بھرپور اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں نیز مسلم لیگ (ن)اور ایم کیوایم سے ابا جان کی بقا ئے باہمی کی پالیسی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ گزشتہ18اکتوبر کو سانحہ کارساز کی برسی کے موقع پر کراچی کے جلسے میں انھوں نے الطاف حسین کے خوب لتے لیے جس کے نتیجے میںایم کیوایم ناراض ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ تقریر زرداری صاحب سے کلیئر نہیں کرائی تھی ۔اسی طرح وہ اپنی مخصوص ٹو ئیٹس کے ذریعے نواز حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے زرداری صاحب کی بقائے باہمی کی پالیسی کے تحت ہی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی لیکن اب بلاول اپنی والدہ اور نانا کے نقش قدم پر چل کر پارٹی میں نئی روح پھونکنا چاہتے ہیں۔زرداری صاحب کی ہدایت پر پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر اور دست راست بشیر ریاض کو بلاول کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو لندن میں گلے کی سرجری کی وجہ سے سفر نہیں کر رہے لیکن دوسری طرف شیری رحمن کادعوی ہے کہ وہ سکیورٹی خدشات کی بناء پر نو ڈیرو نہیںآئے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو بلاول صاحب کی ٹو ئیٹس کیوں اچانک بند ہو گئی ہیں ۔یقینا وہ ناراض ہیں ۔ لیکن گز شتہ روز انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا ''آصف زرداری کمان اور بلاول تیر ہے،اور ان کے والد سے کوئی اختلاف نہیں‘‘۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ باپ بیٹے کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو گئی ۔ ان کی شہید والدہ کی بطور وزیراعظم گڈ گورننس کے بارے میں تو دورائے ہو سکتی ہیںلیکن اپوزیشن کی سیاست کرنے میں ان کی نظیرنہیں ملتی۔وہ بھرپور انداز سے اپنے حریفوں کو پچھاڑنے اور پھر ان سے اپنی شرائط پر کمپرومائز کرنے کی ماہر تھیں ۔نواز شریف نے اپنے پہلے دوروزارت عظمیٰ میں ان سے ''گو بابا گو‘‘ کے نعرے لگوائے اور اس کے نتیجے میں محبوس زرداری کو رہا ئی مل گئی اور اس کے بعد نواز شریف کی چھٹی کروا کر غلام اسحق خان کی نگران کا بینہ میںزرداری وزیر بن گئے۔غالباًبلاول بھٹو کو اس چیز کا مکمل ادراک ہے کہ سندھ کے سوا پورے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی بنا ئی ہو ئی سب سے بڑی پارٹی کابستر گول ہو چکا ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنی تر تمام تر ناکامیوں اور جملہ تضاد ات کے باوجود ملک میں واحد عوامی جماعت ہے جو غریب آدمی کا دم بھرتی ہے ۔اس کی تجدید نو کے لیے زرداری صاحب کو بلاول بھٹو کو منا کر پاکستان لا نا ہی ہو گا اور انھیں فری ہینڈدینا پڑے گا جیسا کہ نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کودیا تھا۔ اسی میں پیپلز پارٹی کا بھی بھلا ہے اور جمہوریت کا بھی ۔