ملک اس وقت توا نائی کے شدید بحران سے دو چار ہے ۔پہلے بجلی ندارد ،گیس ندارد،تیل ندارد اور اس کے فوراً بعد بجلی کا تاریخی بحران جس نے خیبر سے کراچی تک پورے ملک کو 24گھنٹے کے لیے تا ریکی میں ڈبو دیا۔اس وقت بھی ملک بد ترین لو ڈشیڈنگ کے دور سے گزر رہا ہے۔ عمومی طور پر کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہو گا کہ یہ گورننس کا بحران ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں عام تا ثر یہ تھا اور جسے مسلم لیگ(ن) بالخصوص وزیر اعلیٰ شہبا ز شریف نے خوب ہو ا دی تھی کہ حکومت نااہل اور نکھد ہے لیکن موجو دہ حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے تمام ریکارڈ تو ڑ دیئے ہیں حتیٰ کہ لو گ اب یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ زرداری دور اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود موجودہ دور سے بہتر تھا اور بعض ناقدین تو حکمرانوں کو ''قائدین قلت‘‘ کے القابات سے نواز نے لگے ہیں۔
انرجی کی یہ قلت عوام کے لیے سوہان روح ہونے کے علاوہ ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ بجلی کے حالیہ طویل ترین شٹ ڈاؤن کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ بلوچ قومیت پرستوں کی دہشت گردی اس کی بنیا د ی وجہ بنی۔میاں نواز شریف نے یقین دلایا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے آئل کی تر سیل میں کمی نہیں آ نے دی جائے گی‘ لیکن با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں دریا خشک ہونے کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار میں کمی اور تیل کے بحران کے دوران فرنس آ ئل کی ترسیل میں تعطل اس کا سبب بنا۔وزیر پانی وبجلی خواجہ آ صف کا فرمان ہے کہ دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجے میں ہو نے والے نقصان کو پیر کی شام تک درست کر لیا گیا،وہ انکاری ہیں کہ موجودہ بحران کا تعلق فرنس آ ئل کی کمی سے ہے ۔مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف وزیر پانی وبجلی نے سارا غصہ کراچی الیکٹرک پر نکا ل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ اس نجی فرم کو دی جانیوالی 650 میگا واٹ بجلی کے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے گی کیونکہ اگر شمالی گرڈ سٹیشن سے یہ بجلی کراچی کو فراہم نہ کی جائے تو اس سے ملک کے باقی حصوں میں پندرہ بیس منٹ کی لوڈ شیڈنگ میں کمی ہو گی۔یقیناً حکومت کو ایک نجی ادارے سے کاروباری انداز سے معاملات طے کرنے چاہئیں لیکن کراچی کے لئے بجلی بند کرنے کے سیاسی محرکات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف نے حسب روایت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں حالیہ بریک ڈاؤن کی تحقیقات کا حکم صادر فرمادیا ہے لیکن لمبی چوڑی انکوائریاں کرنے کے ساتھ ساتھ میاں صاحب ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انھیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ انھوں نے اور ان کے برادر خو رد میاں شہباز شریف نے جس طمطراق سے بجلی کے بحران کو ختم کر نے کا دعویٰ کیا تھا وہ نقش برآب ثابت ہوا ۔بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کئی گھنٹے کے اعلیٰ سطح کے اجلاس ،چین کے پے درپے دورے اور پاور پو ائنٹ پریزینٹیشنزہو چکی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شعبے میں میاں صاحب کے نورتنوں نے کنفیوژن بڑھانے کے سوا کو ئی کام نہیں کیا ۔ پا نی وبجلی کے وزیر خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی ،مصدق ملک میاں صاحب کے ترجمان بھی ہیں اور بجلی کے حوالے سے ان کے مشیر بھی،اور میاںشہباز شریف بھی اس شعبے میں اس حد تک دلچسپی لیتے ہیں کہ اس معاملے میں ان کی اور خواجہ صاحب کی ٹھنی رہتی ہے اور ایک مرحلے پر تو خواجہ صاحب نے میاں صاحب کی مداخلت کومداخلت بے جا قرار دے کر استعفے کی دھمکی بھی دے دی تھی۔سونے پر سہاگہ میاں نواز شریف کے سمدھی مکرمی اسحق ڈار ہیں جو وزیر خزانہ ہونے کے علاوہ عملی طور پر ڈپٹی پرائم منسٹر بھی ہیں ،چاہے بجلی ہو یا تیل ،خزانے کی کنجی ان کی جیب میں ہے، بغیر سسٹم کی اصلاح کئے پانچ سو ارب روپے کے سر کلر ڈیٹ کو ریٹا ئر کیاگیا جو اب دوبارہ بڑھ کر چار سوارب روپے سے زائد ہو گیا ہے ۔
جہاں تک تیل کے بحرا ن کا تعلق ہے، اس حوالے سے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کی زیر قیادت تھنک ٹینک ''انسٹی ٹیو ٹ فار پالیسی ریفارمز‘‘ کی فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ پٹرول سستا ہونے کے ساتھ مانگ میں اضا فہ ہونے کے باوجو داس کی درآمد ی مقدار میں کو ئی اضا فہ نہیں کیا گیا ۔پاکستان سٹیٹ آئل ملکی ضرورت کا 66فیصد حصہ درآمد کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ تیل نجی کمپنیاں منگواتی ہیں لیکن حکومت نے اس ضمن میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ،اس حوالے سے وزارت تیل کے بعض بیوروکریٹس اور پی ایس او کو گردن زدنی قرار دے کر متعلقہ وزیر کی جان بخشی کر دی گئی۔ شاہد خاقان عباسی خو د کو ذمہ داری سے بری قرار دیتے ہو ئے الٹا تضحیک آمیز انداز میں فرماتے ہیں کہ بحران کے ذمہ دار وہ بھکاری تھے جو پٹرول پمپوں پر قطاروں میں لگ کر سستے داموں تیل خرید کر بلیک کر رہے تھے ۔لگتا ہے کہ وزیر موصوف اپنی ہی دنیا میںرہتے ہیں، اگر وہ ایک نظر ملک کے طول وعرض میں پٹرول پمپوں کے باہر لگی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ لیتے تو وہ کبھی یہ بات نہ کرتے۔ سنا ہے کہ اعلیٰ بیوروکریٹس جن کے بغیر موجودہ حکومت کا گزارا بھی نہیں، حکومت کے اس رویے‘ جس کے تحت ساراملبہ ان پر ڈال دیا جاتا ہے ،سے سخت تنگ ہیں اورنسبتاً غیراہم عہدوں پر اپنی پوسٹنگ کرانے کے لیے تگ ودو کررہے ہیں تا کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کا ملبہ ان پر ڈال کر انھیں قربانی کا بکرا نہ بنایا جا سکے ۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ''موڈیز‘‘ نے یہ کہہ کر کہ توانائی کا موجو دہ بحران حکومت کا اصلاحات سے اغماض برتنے کی روش کی غمازی کرتا ہے، بیچ چوراہے کے بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔حکومتی زعما اور ترجمان لاکھ کہیں کہ بجلی کا بحران محض سبو تاژ کا نتیجہ ہے لیکن اس طرح وہ اپنی نااہلی اور نالائقی کی پردہ پو شی نہیں کر سکتے ۔
موجودہ حکومت کوبرسر اقتدارآئے ہو ئے ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے ۔چند ماہ قبل عمران خان کے دھرنے نے حکومت کے لیے بحرانی کیفیت طاری کر دی تھی تو غالباً اس کے دباؤ میں آتے ہو ئے میاں نواز شریف نے کابینہ میں ردوبدل کا عندیہ دیا تھالیکن اب ان کو حکومت کی بقا کے بارے میںکو ئی خطرہ نہیںتو یہ جا وہ جا۔گز شتہ روز ان کی زیر قیادت مری کے برفانی ماحول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعلیٰ شہباز شریف ،حمزہ شہباز،وفاقی وزرا اسحاق ڈار اورچودھری نثار کے علاوہ مریم نوازبھی شامل تھیں۔ امید ہے مری کی سر دفضا میں میاں صاحب نے اس امر کاجا ئز ہ لیا ہو گا کہ ڈیڑ ھ سال سے زیا دہ محیط اپنے دور اقتدار میں وہ اب کہاں کھڑے ہیں۔ہو نا تو یہ چاہیے کہ حالیہ بحران کے حوالے سے کچھ وزراء کو فارغ کیا جا ئے اور ان کی جگہ نئی ٹیم تشکیل دی جائے لیکن اس سے بھی بڑھ کر میاں صاحب کو خود احتسابی کرتے ہو ئے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیو نکہ موجودہ ایڈہاک ازم اور ذاتی پسندوناپسند پر مبنی پالیسیا ں ان کے لیے مسائل کے انبار کھڑے کر رہی ہیں جس کی بناء پر لوگ اس نظام سے ہی متنفر ہوتے جارہے ہیں۔مگرحکومت ہے کہ...
وہی بے ڈھنگی سی چال اپنی
جو کل بھی تھی سو آج بھی ہے