ایک چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پولیس نے دورانِ تفتیش اسے کہا کہ اپنے گھر فون کرو اور کسی بڑے کو گھر سے بلاؤ... چور بولا: میرے گھر کوئی بڑا نہیں... والدہ بیمار ہیں اور چل پھر نہیں سکتیں... بہن بھائی ہے کوئی نہیں اور والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ تفتیشی افسر کو اُس کے اس بیان پر شک گزرا تو اُس نے چور کو کہا کہ تمہارے باپ کی قبر کہاں ہے مجھے وہاں لے چلو... چور تفتیشی افسر کو قبرستان لے آیا، ایک بچے کی قبر پر آکر ٹھہر گیا اور بولا: یہ ہے میرے باپ کی قبر... تفتیشی افسر نے حیران ہوکر کہا کہ یہ تو کسی بچے کی قبر ہے۔ تم اپنے باپ کی قبر دِکھاؤ... چور نے جواباً کہا کہ میرے باپ کی قبر یہی ہے، دراصل وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
کچھ اسی قسم کا ڈرامہ ہمارے ٹیکس چوروں‘ آمدن سے بے تحاشا زیادہ اثاثے رکھنے والوں اور ایف بی آر کے درمیان چل رہا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ رب سے زیادہ ایفبی آر سے ڈرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح جعلی ادویات بنانے والا ڈرگ انسپکٹر سے ڈرتا ہے‘ اشیاء خورونوش میں دونمبری کرنے والا فوڈ انسپکٹر سے خوف کھاتا ہے۔ یہ سب نہیں ڈرتے تو صرف رب سے نہیں ڈرتے۔ سائیکل سوار لینڈکروزر پر کیسے سوار ہوا...؟ اس درمیانی عرصے میں ہوشرباء تضاد اور اندھادھند کمایا گیا کالا دھن اُجلے اور مہنگے ترین کپڑے پہننے کے باوجود آج بھی کالا دَھن ہی ہے، جسے چھپائے چھپائے پھرتے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے اندرونِ شہر یا متوسط آبادی کے مکین آج پوش اور مہنگے ترین علاقوں میں وسیع و عریض کوٹھیوں میں اس طرح رہائش پذیر ہیں جیسے اِن کے آباؤ اجداد انہیں کوٹھیوں اور بنگلوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ڈرے اور سہمے بیٹھے ہیں کہ منشیوں اور ڈرائیوروں کے نام پر چلنے والے بینک اکاؤنٹس کا کیسے جواب دیں گے۔ ماموؤں‘ چاچوؤں اور دیگر سسرالی عزیزوں کے نام پر لگائی گئی جائیدادیں کس طرح حلال ثابت کریں گے۔ لمبے چوڑے کاروبار اور مہنگے ترین یا بیرون ملک تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے اخراجات اور ٹھاٹ باٹ اور دیگر آسائشوں کے بارے میں کیسے بتائیں گے... کیا بتائیں گے؟ بیگم صاحبہ سے لیکر بچوں تک سبھی کی الگ الگ بیش قیمت گاڑیاں‘ دبئی‘ امریکہ کی سیریں اور تواتر سے عمرے اور حج سمیت سبھی کے لیے جواز اور ذرائع ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کہیں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اخلاق اور کردار کا معیار یہ ہے کہ ؎
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
معاشرے میں ہمارے اردگرد دو چار نہیں بلکہ ایک ہجوم نظر آتا ہے جن کا ماضی اور سماجی و مالی پس منظر ثانوی سے بھی کم درجے کا حامل تھا لیکن آج کوئی تاجر رہنما ہے تو کوئی عوامی رہنما... کوئی سماج سیوک ہے... تو کوئی بزنس ٹائیکون بن کر اترائے پھر رہا ہے۔ مال منہ کالا کر کے کمایا ہو یا ہاتھ رنگ کر... بنامِ دین مال بنایا ہو یا بنامِ وطن... سہولتکاری کی ہو یا ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلایا ہو... بھتہ خوری کی ہو یا کمیشن وصول کی ہو... دھوکہ دہی کی فنکاری ہو یا اخلاقی و سماجی قدروں کی گراوٹ... کسی کو اُجاڑ کر اپنی دنیا سنواری ہو یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے کمائی گئی دولت ہو... یہ سبھی کالے دَھن کے روپ بہروپ ہیں۔
آصف علی زرداری اور شریف خاندان سے اگر آمدن سے زائد اثاثوں کا حساب طلب کیا جاسکتا ہے تو معاشرے میں غول در غول پھرنے والے ''ننھے منّے شریف زرداریوں‘‘ سے کیوں نہیں؟ قارئین! آپ کو ایک ایسی کہانی سناتا چلوں جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ اَرب پتی شرفاء کس طرح وجود میں آئے اور اَندھا دُھن کمائے گئے کالے دَھن کو کس طرح اُجلے ہاتھوں خرچ کرتے ہیں۔ ستر اور اسی کی دہائی میں محنت مشقت کر کے اپنے کنبے کی کفالت کرنے والے آج نہ صرف اَربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں بلکہ ان کے چلتے ہوئے کاروبار کا حجم بھی ہوشربا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محنت مشقت کرنے والے اچانک سرمایہ دار اور صاحب جائیداد کیسے بن گئے؟ یہ ایک انتہائی دلچسپ واردات ہے‘ اگر حکومت اس کہانی سے گائیڈ لائن حاصل کر لے تو ہمارے ''قومی کشکول‘‘ کا سائز نہ صر ف چھوٹا ہو سکتا ہے بلکہ ہماری ملکی معیشت کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔اب چلتے ہیں طریقہء واردات کی طرف... آج کے دور میں ہزاروں متمول اور نامی گرامی شرفاء قطعی اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ ان کی غیر معمولی اور حیرت انگیز معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ آیا ان کے گھر سے ہیرے جواہرات کی دیگ نکلی تھی یا تیل نکل آیا تھا۔ ستر کی دہائی کے آخری چند سال اور اسی اور نوے کی دہائیوں کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے توتین ناجائز ذرائع سے بہت مال بنایا گیا۔ منشیات خصوصاً ہیروئن، سونے اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ کا دھندا بھی عروج پر تھا۔ مذکورہ ناجائز ذرائع آمدن کے کون کون ''ڈان‘‘ تھے یہ سبھی واقفانِ حال اور تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں ۔
کالے دھن کی ان بہتی گنگا نے کس کس کو سیراب کیا اور کس نے ڈبکیاں لگائی یہ بھی ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ ہے ۔پھر ہوا یوں کہ ان لوگوں نے مذکورہ ناجائز ذرائع سے کمایا گیا کالا دھن چھپانے اور لگانے کیلئے رئیل اسٹیٹ ایک محفوظ اور پو شیدہ سرمایہ کاری ثابت ہوئی او رپھر ان لوگوں نے بتدریج اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے آ بائی رہائشی علاقوں کو خیر باد کہہ کر پوش علاقوں میں رہائش اختیار کر لی او ر یوں اُن کی "کلاس" تبدیل ہو گئی ۔ اور پھر کاروبار شروع کیا فیکٹریاں لگائیں اور اس طرح ان کا شمار شہر کے متمول اور کھاتے پیتے گھرانوں میں ہونے لگا۔
رقوم کی محفوظ اور پوشیدہ ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے اپنے قریبی اور قابل اعتماد عزیزو ں اور اپنے منشیوں، ڈرائیوروں اور دوسرے ملازموں کے نام پر اکائونٹ کھول کر ''کالے دھن‘‘ کو فروغ دیتے رہے۔اور آج وہ اپنے اپنے شہروں کی اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ جائیدادوں کی خریدوفروخت کا معاملہ بھی اسی طرح ہی ہے۔ اپنے با اعتماد دوستوں، عزیزوںاور ملازموں کے نام پر جائیدادیں بنا کر حکومتی اداروں کی پکڑ اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے۔ کروڑوں روپے کی خرید و فروخت کا لین دین کرنے والے بھی بینک کے بجائے دستی کیش پر اصرار کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف۔بی۔آر اور ایف۔آئی۔اے پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو بے رحمانہ اور بلا امتیاز کارروائی کر کے ٹیکس چوری سے لیکر گھر کی تجوریوں، الماریوں اور بے نامی اکائونٹس میں پوشیدہ اَربوں روپے کا کالا دھن برآمد کر سکتی ہو۔ ملک بھر کے پٹواریوں کو پابند کیا جائے کہ ایک خاص حد سے زیادہ اراضی اور جائیداررکھنے والے افراد کی فہرست مرتب کر کے فراہم کرے۔ مثلاً 15یا 20ایکڑ سے زائد اراضی رکھنے والے افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ان جائیداد وںکی وضاحت کریں کہ انہوں نے یہ جائیداد کن ذرائع سے حاصل کی۔ پٹواری ان سرمایہ داروں کی ''دائی‘‘ ہوتا ہے ۔اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد کس نام پر ہے اور اِن جائیداوں کا بینی فشری کون ہے؟ اس کی رکھوالی اور نگرانی کون کرتا ہے...؟ جائیداد وں کی فرد کون نکلواتا ہے...؟ اور اس کی گرداوری کون کرواتا ہے...؟ اور اسے عید، شب رات کون بھجواتا ہے؟
جائیدادوں کی فہرست مکمل ہونے کے بعد صاحب جائیداد کو بڑی عزت اور احترام سے بلوایا جائے اور اُن سے کہا جائے کہ وہ اپنی ان جائیدادوں کی تفصیل فراہم کریں کہ انہوں نے یہ کن ذرائع سے کب اور کیسے خریدی؟ ان کے پاس یہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اگر وہ ان سوالات کے جواب دستاویزی ثبوت کے ساتھ فراہم کر دیں تو انہیں چائے پلا کر رخصت کیا جائے۔ بصورت دیگر ان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط یا کوئی ایمنسٹی سکیم آفر کر کے خطیر رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں آنے والی ایمنسٹی سکیم مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک جھانسہ ہے جس کا مقصد صرف معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔ اس کے بعد پھر ٹیکس دہندہ جانے اور سرکار جانے... گھروںکے پوشیدہ خانوں میں نوٹوں کے اَنبار رکھنے والے محض اس خوف سے اس سکیم کا فائدہ اُٹھانے نہیں گئے۔ ''خدا جانے وہ کیا پوچھیں... زباں میری سے کیا نکلے‘‘۔