پام بیچ کاؤنٹی کیس میں یو ایس سپریم کورٹ نے بظاہر ووٹوں کی گنتی میں ہارے ہوئے سابق صدرِ امریکہ George H. W. Bush کے بیٹے George W. Bush کو یو ایس بہادر کا 43واں صدر بنا ڈالا۔ اس کیس کا ابھی تک جو داغِ ندامت دھویا نہیں جا سکا وہ یہ ہے کہ جونیئر بُش کے حق میں فیصلہ کرنے والے امریکی سپریم کورٹ کے ججز سینئر بُش کے ذاتی دوست تھے‘ اُس کے اپنے Hand Picked ججز۔
یہ تاریخ کا سبق ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے مگر تاریخ کا اس سے بھی بڑا سبق یہ ہے کہ خونِ ناحق پہ نہ تو Sensorship لگ سکتی ہے اور نہ ہی اُس کی آواز بندکی جا سکتی ہے۔ ہم آج کی نسل سے پہلے‘ ایسا سماج بنے چلے آئے ہیں جو تاریخ کو جغرافیہ سمجھ کر اُس میں نظریۂ ضرورت کی تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کھلی حقیقت سمجھنے سے انکاری ہیں کہ کسی بے گناہ مقتول کا خون اور انصاف کا خون دونوں مسلسل بولتے رہتے ہیں۔ انہیں وقت کا مرہم اور دستِ قاتل کا جبّر خاموش نہیں کروا سکتا۔
برطانیہ کا Anna Goldie کیس‘ ایران کے محمد مصدق‘ ترکی کے عدنان میندریس‘ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اِس لافانی حقیقت کی چلتی پھرتی مثالیں ہیں۔ ایسی مثالیں جو ان کے چلے جانے کے بعد بھی ان کے لہو نے ضرب المثل بنا دی ہیں۔ شاید اِسی لیے غیر سرکاری تاریخ لکھنے والے کہتے ہیں انسانی تاریخ کی بڑی ناانصافیاں جنگ کے میدانوں میں نہیں بلکہ عدالت کے کمروں میں ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر دنیا میں انصاف کے تین بنیادی نظریے ہیں۔ جن کا سرسری حوالہ یوں بنتا ہے۔
انصاف کا پہلا نظریہ: اس کے نمونے مغرب میں انصاف کے بڑے مندروں کے باہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں انصاف کی دیوی کی مورتیوں کی آنکھوں پہ پٹّی بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسی مورتیاں پیغام یہ دیتی ہیں کہ انصاف اندھا ہے (Justice is blind)۔ اس پیغام کے دو مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ اوّل‘ انصاف کا کلہاڑا اندھا دھند چلنا چاہیے۔ ثانیاً انصاف کسی کی پروا نہیں کرتا۔ اُس کے سامنے بادشاہ ہے یا فقیر‘ اس کی بھی نہیں۔ امیرِ شہر ہے یا فقیرِ شہر‘ دونوں اُس کے سامنے برابر ہیں۔
میرے نزدیک منصف کی مورتی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی اصل پٹّی کا اصل پیغام یہ ہے کہ لوگ منصف کی شکل کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ سائل اور مظلوم صرف اور صرف انصاف ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے ناانصافی کے خلاف شورِ قیامت برپا ہو جاتا ہے۔ میں سوشل میڈیا کو ہر گز برا نہیں کہوں گا۔ اِس پہ وہ سارا کچھ جو دولت‘ طاقت اور ریاست کے پردے میں چھپا دیا جاتا تھا‘ ہر ایسے ظلم کو برہنہ کرکے پیش کرتا ہے۔
اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ پہلو امریکہ کے مشہور جج جناب فرینک کیپریو کی عدالت سے سامنے آیا۔ دنیا بھر کے تمام براعظموں میں کروڑوں سے زیادہ لوگ جج فرینک کے مداح اور فالوورز ہیں۔ جج صاحب اپنی عدالت میں پیش ہونے والے مقدمات کے بروقت فیصلے کرنے‘ فوری انصاف دینے کی وجہ سے دنیا کے ہر مظلوم کے دل میں ہر دل عزیز بن کر رہتے ہیں۔
یہ کرۂ ارض پر واحد جج اور عدالت ہے جہاں سے انصاف ہوتا ہوا صاف صاف نظر آتا ہے۔ نہ تو جج فرینک کیپریو کی عدالت پر رپورٹنگ کا کوئی فلٹر لگایا جاتا ہے نہ ہی اس کھلے انصاف پر TV Tickers کی دھول اُڑائی جا سکتی ہے۔ جناب جج فرینک کیپریو صاحب کی عدالت کی شفافیت‘ فوری فیصلے ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس عدالت میں مقدموں کی سماعت کی کارروائی ٹی وی چینلز پر براہِ راست (Live) دکھائی جاتی ہے۔
پہلے جج فرینک کیپریو صرف امریکہ کے بہترین ججز میں شمار کیے جاتے تھے۔ اب فرینک کیپریو Global Celebrity ہیں۔ جج کیپریو کی عدالت میں صرف انصاف ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ خود بھی اپنے ہاتھ میں اپنے نوٹس اور کتابوں کا بیگ اٹھائے عدالت سے گھر کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ آگے پیچھے ٹوں ٹاں‘ نہ کوئی پروٹوکول‘ نہ ہٹو بچو کی آوازیں‘ نہ سائرن‘ نہ پیادے‘ نہ گارڈ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جج فرینک کیپریو لفظ توہینِ عدالت سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ وہ سادگی اور انصاف کے رستے‘ ماورائے امریکہ بھی ہر مظلوم کے Icon بن چکے ہیں۔
دنیاکی 128عدالتوں کی درجہ بندی میں امریکہ انصاف دینے میں پہلے نمبر پر نہیں آتا بلکہ عالمی رینکنگ میں پہلا نمبر بلجیم کا ہے۔ اس کے باوجود بھی صرف ایک جج فرینک کیپریو کی وجہ سے امریکی انصاف کا منظر نامہ Global Canvus پر چھایا ہوا ہے۔
انصاف کا دوسرا نظریہ: یہ نظریہ پاکستان کے آئین میں موجود ہے مگر ابھی تک یہ خدا کی بستی میں بسنے والوں کے دروازے تک نہیں پہنچ سکا۔ نظریہ ہے العدلُ بِالاحسان۔ جہاں Mercy اور احسان بڑے مظلوموں کے لیے ہو اور توہینِ ریاست کے قوانین بے آسرا اور زیر دست لوگوں کے لیے‘ وہاں عدل اور احسان دونوں پہ سوال اُٹھتے آئے ہیں اور سوال اُٹھتے رہیں گے۔ ہمارے دو ریاستی ادارے ایسے ہیں جن کی کارکردگی پر پارلیمنٹ میں بات نہیں کی جا سکتی۔ جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے دوسو سے زائد میں سے صرف دو‘ جہاں جرأتِ اظہار کی سزا الیکشن سے نااہلی بھی ہے۔ اسلامی قانون اور دستورِ پاکستان کا Preamble اِس امتیازکی نفی پر مبنی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 4‘ 9‘ 14اور آرٹیکل 25 احترامِ آدمیت کے قانون لاگو کرانے پر زور دیتے ہیں۔ ریاست کا کام شہریوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل کرنا ہے۔ اپنے اِرد گِرد قانون کے قلعے تعمیر کرنے والے سماج میں شہریوں کے تحفظ کے قانون کون بنائے گا؟ صرف اُن کی جان نہیں‘ اُن کی آبرو‘ اُن کی Privacy اور اُن کی عزت‘ گھر بار کا تحفظ۔
انصاف کا تیسرا نظریہ: بدقسمتی ملک کی اور سیاہ بختی قوم کی کہ یہ نظریہ پاکستان کا Order of the Dayبن چکا ہے۔ یہ ہے نظریۂ ضرورت۔ ریاست میں اینٹ گارا بعد میں آتا ہے شہری پہلے۔ پبلک سرونٹ بھی پبلک کے لیے ہیں۔ یہی بابائے قوم حضرت قائداعظم ؒ کا فرمان ہے۔