2024ء کے پاکستان میں زمینی حقائق اس قدر واضح ہیں‘ یہ سوال غیر متنازع ہو گیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کچھ وہ سوال ہیں پچھلے کئی سو سال سے ہر ریاست اور اُس کے منیجرز‘ تسلسل سے جن کا جواب ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ جواب ڈھونڈنے کیلئے ہر ملک میں خودمختار ادارے چل رہے ہیں۔ آزاد ماہرین کے زیر انتظام بااختیار Think Tank قائم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم کی تمنائوں اور ضروریات کے مطابق گورننس اور نظامِ ریاست ایک طے شدہ راستے پر چلتا رہتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بنتے ہی یہ سارے سبق یاد کر لیے تھے۔ آج معاشی طور پر ہمارا ٹوٹا ہوا مشرقی بازو‘ ایران سمیت Yellow race کے ممالک میں تائیوان اور تھائی لینڈ کی ٹکر کی معاشی سپر پاور ہے جس کی اکانومی کا حجم 50 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ جن لوگوں کے نزدیک ہمارے مسائل کا یہ حل طے شدہ ہے کہ ہمارا پاکستان ہمارے ہاتھوں سے پھسلتا پھسلتا آج وہاں جا کھڑا ہوا جہاں مزید قرضے لینے کے علاوہ امپورٹڈ وزیر خزانہ کو بھی امپورٹڈ رجیم کی طرح قرض میں ہر مرض کا علاج دکھائی دے دیتا ہے۔ بے شک طوطے مینا کی ترقیاتی استحکام والی کہانی فلسفیانہ انداز میں سنائی جائے یا الف لیلہ کی داستانِ معاشی بحالی‘ فنِ داستان گوئی کی معراج پہ پہنچ جائے۔ آج کی پاکستانی قوم کو اُ س میں اپنے مسائل کا حل بالکل بھی نظر نہیں آ رہا۔ یہاں میری قوم سے مراد تجربہ کار سنیاسی باوا گروپ سے نہیں بلکہ اس ملک کے مستقبل یعنی نوجوان نسل سے ہے۔ ملک کے ان دِگر گوں حالات میں قلمی دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ 60 سال تک ذاتی ترقی و عروج‘ شخصی مقاصد اور پیٹ پوجا کو پرے رکھ دیا جائے۔ وہ سوال جن کا تعلق ہمارے بعد کی موجودہ تین نسلوں کیلئے ضروری ہیں‘ وہ بلا خوف و خطر اُٹھائے جائیں۔
پہلا سوال: کیا پاکستان کے مسائل مقامی ہیں؟ یا ان میں پاکستان کی مسلسل ناکام خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے بین الاقوامی طاقتیں اور نان سٹیٹ ایکٹر بھی در انداز ہو کر گُھس بیٹھے ہیں؟ اس بنیادی سوال کو سمجھنے کیلئے مسلم ممالک کے لیڈروں کی جانب سے Revival کی جدید کوششوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں ڈاکٹر مصدق‘ مصر کے انور السادات‘ سعودی عرب میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز‘ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو‘ انڈونیشیا سے سہارتو‘ لیبیا میں کرنل قذافی نے اپنے اپنے ملک میں ایسے سیاسی اور اقتصادی اقدامات کیے جن سے مغرب کی غاصب طاقتیں پریشان ہو گئیں۔ اس پریشانی کا حل نکالنے کیلئے مغربی طاقتوں نے اپنے بہترین ذہن States Craft سٹرٹیجی اور Power Politique کے دو بنیادی نظریات پر طاقت کے تمام ذرائع اور رجیم چینج کے تمام انسٹرومنٹس کا کھل کر بے رحمانہ استعمال کیا۔ ان ممالک میں کرپٹ ایجنٹ اور لیڈر فار سیل کے ذریعے ان سارے نہایت انقلابی مسلم رہنمائوں‘ جو اپنے اپنے عوام میں انتہائی مقبول بھی تھے‘ کو اُن ملکوں میں موجود کرائے کے سہولت کاروں کے ذریعے سے بہت آسانی سے نیوٹرلائز کر دیا گیا۔ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس کے باوجود‘ نہ نہ کرتے بھی مسلمانوں میں Latent قوت اور بنیادی عوامی آزادی کی خواہش کا بہت ہی نمایاں اظہار تین مختلف محاذوں سے جدید دنیا کو دیکھنے کو ملا۔ ایک افغانستان میں پہلے سابق سوویت یونین کی شکست 1979ء سے 1989ء تک‘ اور پھر یو ایس اے بہادر کی پسپائی2001ء سے 2021ء تک۔ دوسرے عراق میں مغرب اور نیٹو کی مشترکہ ناکامی 2003ء سے 2011ء تک جبکہ تیسرے ایران کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ اور شام کے مسلسل محاذ پر بھی۔
ہماری آنکھوں کے سامنے ان سب محاذوں سے ایک بہت واضح تاریخی سبق ملتا ہے‘ یہی کہ مسلمان اپنی اندرونی لڑائیوں اور منافقانہ یا بزدلانہ پالیسیوں کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جس جس میدان میں ہمیں مار پڑ رہی ہے اُس کی سادہ وجہ کہنہ مشق مغربی منصوبہ بندوں کی پیشہ ورانہ مہارت اور ہمارے ہاں کے ''نُورے‘‘ حکمران اور کرائے پہ لیے ہوئے نام نہاد امپورٹڈ ماہرین کی غلامانہ ذہنیت ہے۔ اس رینٹ اے مسیحا پالیسی پہ ساحر لدھیانوی نے ''اجنبی محافظ‘‘ کے عنوان سے فرنگی آقا اور ہند کے غلام کے رشتے پہ لازوال لکھا‘ سال 1944ء میں۔
اپنے ماحول بدل دینے کے قابل ہوتے ؍ ڈیڑھ سو سال کے پابندِ سلاسل کتے! ؍ اپنے آقائوں سے لے سکتے خراجِ قوّت؍ کاش! یہ اپنے لیے آپ صف آرا ہوتے؍ اپنی تکلیف کا خود آپ‘ مداوا ہوتے؍ ان کے دل میں‘ ابھی باقی رہتا قومی غیرت کا وجود؍ ان کے سنگین و سیاہ سینوں میں؍ گُل نہ ہوتی ابھی احساس کی شمع!؍ اور پُورب سے اُمڈتے ہوئے خطرے کیلئے؍ یہ کرائے کے محافظ نہ منگانے پڑتے!
دوسرا سوال: اگر ہم اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو Question of Revival کا اندوہناک جواب ملتا ہے۔ آپ اسے چین آف ٹریگرڈ ایونٹس کہہ لیں۔ اس گردابِ بلا کی پہلی کڑی خاص آرڈر ماننے سے انکار پر چلتی ہوئی حکومت ہٹانا ہے‘ جس کا لیڈر زندان میں بھیجا جاتا ہے یا دیارِ غیرمیں۔ زیادہ باغی ہو تو پھانسی گھاٹ پر۔ ملک بھر میں لیڈرشپ ورکرز اور آزاد جمہوری آوازوں پرکریک ڈائون۔ جس کے بعد خاص میڈیائی چہرے‘ رجیم چینج والی حکومت کے خلاف کردار کشی کی کمپین کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال کی اس مِس ایڈونچر کے دوران ملک کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت برباد ہوکر گڑھے میں گر جاتی ہے۔ استحکام اور ملکی نظام‘ دونوں فیل ہو جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور مقتدرہ کا غصہ پشیمانی میں تبدیل ہو کر ہوا ہو جاتا ہے۔ اس دوران غیر ملکی نیشنلٹی اور پاسپورٹ رکھنے والے ٹیکنوکریٹ ڈھونڈے جاتے ہیں جن کی لینڈنگ کے بعد پاسپورٹ بنتے ہیں اور فریش الیکشن کے نام پر تازہ دھاندلی اور ضمیر فروشی کا بازارِ مصر سجایا جاتا ہے۔ پچھلے 76 سال کی تاریخ گواہ ہے‘ کنگز پارٹیاں بنتی ہیں‘ کچھ نئی کچھ پرانی بھیڑ بکریاں ہانک کر پرانے لنگڑے لولے‘ لاچار و بیکار چرواہے کے حوالے کی جاتی ہیں۔ جیٹ سپیڈ انصاف ہوتا ہے‘ جیل کے دروازے کھلتے ہیں‘ اربوں و کھربوں کرپشن کے کیس بنانے والے کینگرو کورٹس میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں۔ پیشہ ور چوروں کو پھر سے سعد اور سادھو کا چولا پہنایا جاتا ہے۔ یہ ڈرامہ پچھلے76 سال سے ہر دو تین سال بعد کامیابی سے دہرایا گیا۔ جس میں ڈانٹ ڈپٹ‘ پاپوش بازی اور نئی شرائط کے ساتھ سب کچھ پرانا چلایا جاتا رہا۔
9 اپریل 2022ء کی رجیم چینج پرانے فارمولے والی ترتیب سے شروع ہوئی۔ اس دفعہ کا میچ کمزور دل شعبدہ باز عوام بیزار گرو اور نئی نسل کے کروڑوں ووٹروں کے درمیان پڑا۔ ایسا ہی ایک میچ بی بی سی کے اینکر Stephen Sackur اور Guyana کے صدر محمد عرفان علی کے درمیان پڑا۔ گیانا سائوتھ امریکہ کا ایک ایسا ملک ہے جسے Dutch استعمار نے 1667ء سے 1815ء تک اپنی کالونی بنائے رکھا۔ گیانی عوام نے تھوڑے عرصے کیلئے آزادی حاصل کی مگر سونے کی یہ چڑیا برطانوی استعمار نے 1831ء میں ایک بار پھر اپنی کالونی بنا لی۔ یہ مزاحمت کی ایک ایسی کہانی ہے جسے خود پسند طاقتور مافیا نما اشرافیہ یقینا پسند نہیں کر سکتی مگر خودی پسند پاکستان کے وہ لوگ جو اپنے وطن کیلئے Question of Revival کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں‘ اُن کے لیے غیر ایٹمی ملک سے یہ بہت اہم پیغام ہے۔ (جاری)