بینظیر بھٹو شہید‘ ایک روشن ستارہ

دختر پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو ‘آسمانِ سیاست پر جگمگانے والا وہ ستارہ ہیں ''جو کبھی ڈوبتا ہے نہ کبھی ٹوٹتا ہے‘‘۔
یہ ہے ‘وہ لازوال خراجِ تحسین‘ جو سوشلسٹ انٹرنیشنل کے 50 ویں یوم تاسیس پر مشرق وسطیٰ کے مندوب نے بے نظیر بھٹو شہیدکو پیش کیا تھا۔
بی بی شہیدآج پاکستان میں پوری دنیا کی جمہوریتوں میں ایک استعارہ بن چکی ہیں ۔ سیاست اور جمہوریت کی بقاء بھی اس وقت تک ہے جب تک بی بی شہید لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔سوشلسٹ انٹرنیشنل کی 20ویں یوم تاسیس کی تقریب کے موقع پرجو پرتگال میں ہوئی تھی۔اور جس میں دنیا بھر سے معروف سیاست دان‘ امن کی خاطر اور غربت کے خلاف‘ علمِ جہاد بلند کرنے والے دانشور اور ممتاز مفکر اور اہل ِقلم شریک تھے۔
پی پی پی کے وفد میں میرے علاوہ میاں مصباح الرحمن ‘ ذکاء اشرف اور دو خواتین شامل تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو‘ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں۔ وہ عالم ِ اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم تھیں۔ انہوں نے بدترین آمریت کے خلاف نہایت بہادری اور جرأت سے جدوجہد کے تاریخ انگیز باب رقم کئے۔ 
عالمی برادری میں اُن کی سیاسی بصیرت اور فکر و فرائض پر سیمینار اور لیکچررز کااہتمام کیا جاتا ہے‘ تاکہ ان کے سیاسی تدبر اور عالمی امور کے ادارک سے استفادہ کیا جا سکے۔ 
1999ء میں پرتگال میں خواتین کی ایک کانفرنس ہوئی۔21تا31اپریل تک ہونے والی اس کانفرنس کا اہتمام وہاں کی مقامی خاتون میئر نے کیا تھا ۔ اس کانفرنس میں ‘ میں بھی بی بی کے ساتھ شریک ہوا ۔بی بی امریکہ میں لیکچررزکے دورے پر تھیں۔ انہوں نے یہ پیغام دیاکہ میں پرتگال پہنچ کر ان کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوجائوں۔ یہ کانفرنس خواتین کے سیاسی و سماجی کردار کے بارے میں تھی ۔اور اس میں بی بی کی تقریر کو بے حد سراہا گیا۔ بی بی کے خطاب نے حاضرین پر سحر طاری کردیا ۔ انہوں نے اپنے منفرد انداز میں سوالات کے جواب دیئے اور ہر کوئی ان سے ملاقات کا خواہش مند تھا؛ چنانچہ لنچ میں انہوں نے مدعوین کے ساتھ بڑے بے تکلف انداز میں بات چیت کی۔
بی بی بے حد خوش تھیں۔ جب ہم واپس لندن آئے‘ تو اگلے دن کے اخبار میں خبر آئی کہ بے نظیر بھٹو کو عدالت میںعدم حاضری پر 3 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس خبر پر بی بی نے افسوسناک انداز میں کہا کہ دیکھیں کل یورپی ملک میں کس طرح میری پذیرائی ہوئی ۔ عزت و احترام دیا گیا‘ لیکن میرے اپنے ملک میں میرے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔
عالم عرب میں بھی بی بی کی بہت عزت تھی اورانہیں دختر اسلام کے نام سے پکاراجاتا تھا۔اپنے خلاف جھوٹے مقدمات کے بارے میں بی بی کا کہنا تھا کہ یہ میرے حوصلہ اورہمت کو توڑ نہیں سکتے‘بلکہ ان ہتھکنڈوں نے ان کی استقامت اور جرأت کو جلا بخشی اورانہوں نے ان مصائب اور مشکلات کا صبر و استقامت سے مقابلہ کیا۔ 
بی بی کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ جلاوطنی کے ایام میں بی بی کئی محاذوں پر لڑ رہی تھیں۔ بیک وقت کئی کردار نبھا رہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے لئے باپ بھی تھیں اور ماں بھی۔ اپنی تنہائی کا احساس بے شک تھا‘لیکن وہ پارٹی امور اور عالمی امور پر نظر رکھ کر اس وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتی تھیں ۔وہ کمپیوٹر پر 5 گھنٹے روزانہ کام کرتی تھیں۔ آرٹیکل تحریر کرتیں اور اہم معاملات پر اپنے بیانات جاری کرتیں۔ اس طرح انہوںنے اپنی جلاوطنی کے ان ایام کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی وجہ سے 1999ء سے 2007ء تک پاکستان پیپلزپارٹی متحرک فعال اور متحد رہی۔
بے نظیر بھٹو کی شخصی عظمت کا خوبصورت ترین پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک انسانیت نواز ‘ رحمدل اور غریب پرور خاتون تھیں۔ ان کا دل غریبوں کی ہمدردی سے لبریز تھا۔ وہ ان کی تکلیف پر پریشان ہوجاتیں اور مصیبت میں ان کی مدد اپنا فرض تصور کرتی تھیں اور یہ ان کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عام افراد کی مدد کرکے ان کے مصائب کم کئے۔ اور کئی خاندانوں کو مشکلات سے بچایا ۔بی بی نے پارٹی کارکنوں کا بھی خیال رکھا اور ان کی جائز مدد بھی کرتی رہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ‘نے ادب ‘صحافت اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی اپنے خصوصی فنڈ سے مدد کی۔ اس ضمن میں ممتاز دانشور اور صحافی حمید اختر‘ خوبصورت ترقی پسند شاعر ظہیر کاشمیری ‘ حفیظ راقب ‘ اسرار زیدی اور اپنے وقت کی نامور اداکارہ صبیحہ خانم وغیرہ کی مالی امداد کی ۔
پاک ٹی ہائوس کے خدمت گار شریف بنجارہ کو ایک لاکھ روپے ٹپ دی‘ جس سے اس کی روزمرہ کی زندگی میںخوشیوںکے پھول کھل اٹھے۔وزیراعظم بے نظیر بھٹو ‘ نے میرے توسط سے درجنوں افراد کی مدد کی۔ ان میں اہل صحافت ‘ اہل قلم‘اہل دانش وفکر شامل ہیں۔ درجنوں لوگوں کو ملازمت دے کر ان کا مستقبل سنوارا اور کئی نادار لوگ ان کی رحمدلی سے نوازے گئے۔ غریب پروری بی بی کا اہم وصف تھا۔ 
نادار لوگ آج بھی بی بی کو یاد کرکے انہیں دعائیں دے رہے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے دنیا کو اپنی بصیرت سے متاثر کیا۔ شہادت کے بعد انہیں ایک غیر متنازعہ لیڈر کا درجہ ملا۔اپنے سیاسی تجربات کے ساتھ ساتھ انہوں نے انسانی سطح پر اپنا کردار مثالی بنا کر پیش کیا۔ اپنے والدین کی طرح بی بی کی شخصیت بھی نہایت متاثر کن تھی۔ میں سائے کی طرح قدم بہ قدم ان کے ساتھ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اپنا شیڈو کہتی تھیں۔ میرے ساتھ ان کا برتائو مہربانہ تھا اور مجھ پر مکمل اعتماد تھا۔بی بی شہید ایک مہربان روح تھیں ۔وہ سب کی تکلیفیں دور کرنا چاہتی تھیں۔
21 جون بی بی کا 65 واںیوم پیدائش ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی و شخصی عظمت مسلمہ حقیقت ہے ۔ان کی عظمت کے ستارے عالمی افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک دمک رہے ہیں۔آج ان کا راستہ روکنے والے مجرم بنے کٹہرے میں کھڑے ہیں‘ جبکہ بی بی کے لئے عام آدمی کا دل دعائوں سے لبریز ہے۔
آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ‘محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے۔ (آمین)۔

محترمہ بے نظیر بھٹو‘ پاکستان کا روشن چہرہ تھیں۔ وہ عالم ِ اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم تھیں۔ انہوں نے بدترین آمریت کے خلاف نہایت بہادری اور جرأت سے جدوجہد کے تاریخ انگیز باب رقم کئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں