آج20 ستمبر کو میر مرتضیٰ بھٹو کی 22 ویں برسی ہے۔ یہ 1996 ء میں ان کے قتل کی تاریخ بھی ہے۔ زندگی اور موت میں ایک دن کا فرق المناک داستان ہے۔ لندن میں Queens Road کے قریب میر مرتضی بھٹو کا فلیٹ پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جھوٹے مقدمہ قتل میں سزائے موت کے خلاف عالمی مہم کا مرکز تھا ۔دنیا کے اخبارات ‘ ہر ٹیلی وژن چینل نے اسی جگہ سے دونوں بھائیوں کی انتھک کوشش اور جدو جہد کو رپورٹ کیا۔
جنرل ضیا کی آمریت پاکستان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔ عوام اور خصوصاً پی پی پی کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد‘ ظلم و ستم اور کوڑے‘ پھانسیاں اس ظالمانہ عہد کی یاد دلاتی ہیں۔ پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم کا عدالتی قتل کیا گیا اور غیر منصفانہ اور سفاکانہ اقدام عدالتی نظام کا شرمناک نشان بن گیا۔ دنیا میں اس بربریت کی شدید مذمت کی گئی اور پاکستانی سراپا احتجاج بن گئے۔ ایک سال کے دوران ان کی جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ برطانیہ بھر کے پاکستانی اور کشمیریوں نے بہت بڑا مظاہرہ کر کے جنرل ضیا کے مظالم اور جمہوریت کش اقدامات کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا ۔
قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے جس جرأت اور بہادری سے ذہنی اور جسمانی تشدد برداشت کیا اور پھانسی کی کوٹھری میں توہین آمیز سلوک کا سامنا کیا‘ اسی جذبہ اور حوصلہ سے بیگم نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور مارشل لا اور ضیا آمریت کے آگے سرنگوں ہونے کی بجائے ہمت و حوصلہ کی افسانوی داستان رقم کی۔ میر مرتضی بھٹو اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کا بے حد احترام کرتے تھے۔ بیگم صاحبہ بھی اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ 20 ستمبر کو یہ رشتہ ہمیشہ کیلئے ٹوٹ گیا اور موت نے ایک انتہائی خوبصورت اور ملنسار نوجوان میر مرتضی بھٹو کو چھین لیا۔
میر مرتضیٰ بھٹو کی زندگی میں18ستمبر اور 20ستمبر دو اہم ترین تاریخیں ہیں کہ 18 ستمبر ان کا یوم ولادت اور20 ستمبر یوم شہادت ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی ایک دن میں سمٹ آئی۔ یہ کیسا ستم ہے کہ 18ستمبر کو سالگرہ منانے کے ایک دن بعد یوم شہادت کا سوگ منانا پڑے۔ وزیراعظم محترمہ بینظیربھٹو نے 18ستمبر 1996ء کو اپنے چھوٹے بھائی کی سالگرہ کے روز ‘انہیں70کلفٹن میں کیک اور پھول بھیج کر مبارکباد دی تھی۔ اسی شام میں نے بھی اسلام آباد سے میر مرتضیٰ بھٹو کو مبارکباد کے لئے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کی لیڈر نے مجھے کیک بھیجا ہے‘جس پر میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے‘ کیونکہ بی بی نے مجھے خود بتا یا تھا کہ انہوں نے میر مرتضیٰ کی سالگرہ پر پھول اور کیک بھیجے ہیں۔ اس دن بی بی بہت خوش تھیں اور میرمرتضیٰ بھٹو بھی!
بیس ستمبر کی شام جب بی بی کو یہ خوفناک اطلاع ملی کہ ان کا بھائی پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہوکر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے ‘تو وہ اسی رات شدید پریشانی کے عالم میں کراچی پہنچیں ‘جہاں ان کا بھائی ان سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوچکا تھا۔ بی بی کیلئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور ہسپتال میں ایک بہن اپنے پیارے بھائی کیلئے زاروقطار رو رہی تھی‘ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اس سانحہ عظیم پر اندر سے ٹوٹ چکی تھیں۔ بھٹو خاندان کا کوئی بھی مرد بقید حیات نہیں رہا تھا۔ اگلے دن میرمرتضیٰ بھٹوکے جنازے کے بعد بی بی رات کے 12بجے نوڈیرو سے المرتضیٰ گئیں‘ جہاں بیگم نصرت بھٹو اپنے پیارے بیٹے کے صدمے سے تصویر غم بنی بیٹھی تھیں۔ وہاں بی بی کی ہمشیرہ صنم بھٹو مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو بھی تھیں۔ بی بی سب سے گلے مل کر روئیں۔ المرتضیٰ میں بالکل سناٹا تھا۔ بی بی جب پہنچیں تو تمام لوگ احتراماً کھڑے ہوئے اور یہ اندیشہ کہ میرمرتضیٰ بھٹوکے حامی شدید مخالفانہ ردعمل کا اظہار کریں گے‘ بے بنیاد نکلا۔ مرتضیٰ بھٹوکے حامیوں نے بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے وقار اور احترام کا پورا خیال رکھا۔ دیگر خاندان کے افراد کے ہمراہ غم بانٹنے سے ان کا بوجھ قدرے کم ہوا اور جب ہم المرتضیٰ سے رخصت ہوئے ‘تو بی بی نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ میں نے المرتضیٰ آکر بہت اچھا کیا۔ اس سے میرے دل کا بوجھ کم ہوا ہے‘ جبکہ بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سکیورٹی کے پیش نظر مجھے وہاں نہیں جانا چاہئے۔ 18 مارچ 1978ء کو مولوی مشتاق کی عدالت سے پھانسی کے فیصلہ کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی زندگی بچانے کیلئے عالمی سطح پر پرامن جدوجہد شروع کی۔ انہوں نے لندن میں بڑے بڑے مظاہروں کی قیادت کی۔ دنیا کے اہم رہنمائوں سے ملاقات کرکے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا یہ کردار بالکل جمہوری تھا‘ لیکن 4اپریل 1979 ء نے سب کچھ تبدیل کردیا۔
محترمہ بینظیربھٹو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں‘ جبکہ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جنرل ضیا سے اپنے والد کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے طویل جلاوطنی میں مشکلات بھی برداشت کیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیربھٹو کو اندرون ملک شدید مسائل برداشت کرنا پڑے۔اپنی طویل جلاوطنی کے دوران میر مرتضیٰ بھٹوسندھ اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے اور واپس آنے کے بعد انہوں نے چند ماہ جیل میں گزارے‘ جس سے بہن بھائی میں رنجش بڑھی اور بالآخر جولائی 1996ء میں دونوں بہن بھائیوں کی وزیراعظم ہائوس میں ملاقات ہوئی۔ خیال تھا کہ مزید ملاقاتیں ہوں گی اور دونوں بہن بھائی اپنے والد کے مشن کی تکمیل کریں گے ‘مگر بعض عناصر کی سازش جاری رہی۔ مزید ملاقاتیں ان کے مقدر میں نہ تھیں۔ مرتضیٰ بھٹوکی جدائی کے اسی غم کا اظہار بی بی نے اپنے بھائی کی تیسری برسی کے موقع پر میرے نام 19ستمبر 1999ء کواپنے ای میل پیغام میں یوں کیا :۔
ڈیئر! میرمرتضیٰ کی سالگرہ پر آپ کے پیغام کاشکریہ‘ یہ ایک المیہ ہے کہ ایک بیش قیمت زندگی اپنے شباب میں ختم ہو جائے۔ ایک خوبرو جوان سے زندگی کا حسن چھین لیا جائے‘ ایک شفیق باپ کی شفقت سے اس کے بچوں کومحروم کردیاجائے۔ میرمرتضیٰ بھٹو کا خیال آتے ہی میرا دل رونے لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ انہیں جنت میں ابدی سکون عطا کرے اور زمین پر انہیں جن مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا‘ ان کے بدلے سینکڑوں گنا اجرعطا فرمائے۔ مجھے جولائی سے پہلے ان سے مصالحت نہ ہونے کا قلق رہے گا۔ مجھے یہ دکھ رہے گا کہ انتہائی مصروفیات نے مجھے اپنے بھائی تک سے ملنے کی مہلت نہ دی‘ وہ بھائی جو میرا خون تھا۔ آپ کو یہ پیغام تحریر کرتے ہوئے بھی میری آنکھیں اشکبار ہیں۔ پیغام کا شکریہ۔ میں بھی دعاگو ہوں کہ قدرت ضرور انصاف کرے گی۔ میری دعائوں میں میرمرتضیٰ کے بچے بھی شامل ہیں۔ خداتعالی انہیں زندگی کی مسرتوں سے نوازے اوروہ اپنے خاندان کی غیرمشروط محبت والی بانہوں میں ایک بار پھر لوٹ آئیں۔
(بینظیر بھٹو 19-9-99)
بی بی کا اپنے بھائی کیلئے پیار اس ایک جملے میں جھلکتا ہے کہ کاش میں اپنے بھائی کو زیادہ وقت دے پاتی!۔