ذوالفقار علی بھٹو…شہیدِ پاکستان

''جئے بھٹو۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔یہ نعرہ صدائے احتجاج ہے اس ناانصافی کے خلاف جو وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کے عدالتی قتل میں روا رکھی گئی۔پاکستان کے منتخب وزیراعظم اور پی پی پی کے بانی چیئرمین اس خونِ ناحق کے بعد زندہ وجاوید ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ جئے بھٹو کا سلوگن پی پی کے منشور کا حصہ بن چکا ہے‘ جناب بھٹو کو ختم کرنے والی قوتیں اور ایک جابرآمر خود وقت کی صلیب پر چڑھ گیا۔
18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ نے ایک مقدمۂ قتل میں مسٹر بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ تو پارٹی کارکنوں پر ستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور عوامی مزاحمت کو دبانے اور اس فیصلہ کے خلاف آواز کو خاموش کرنے کیلئے جبرو تشدد کا بے دریغ استعمال کیا گیا‘ تاہم پی پی پی کے کارکنوں نے جوروستم کی پروا نہ کرتے ہوئے مارشل لاء کے مظالم کا سامنا کیا۔ کوڑے کھائے‘ جیل کاٹی۔ لاہور کے شاہی قلعہ کو آباد کیااور آمر مطلق کے خلاف بے مثال مزاحمت کی۔ ملک میں عام اور غریب کارکنوں کے خلاف سفاکانہ اور پرتشدد کارروائی روزمرہ کا معمول بن گئی۔ صحافیوں اور دانشوروں کو بھی نہ بخشا گیااور انہیں کوڑے مارے گئے۔وزیراعظم بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو پابندِ سلاسل کیا گیا اور ان پر بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کیا گیا۔ 4 اپریل 79 کی رات کی تاریکی میں پاکستان اور عالم ِاسلام کے عظیم لیڈر کو ان کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش میں دفن کردیا گیا۔ان کی بیگم اور بیٹی کو آخری دیدار کی بھی اجازت نہ دی گئی۔ ظلم و ستم کی یہ انتہا تھی جو کئی سال تک جاری و ساری رہی۔
18 مارچ 1978ء کو چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا اعلان کیا تو دنیا میں شدید ردِ عمل ہوا اوریہ کہنا بجا ہوگا کہ اس فیصلہ کے خلاف کہرام مچ گیا ۔مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے بھی بھرپوراحتجاج کیا جلوس نکالے اور مظاہرے کئے‘لندن خصوصاً ان مظاہروں کا مرکز تھا۔ ان کی قیادت میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنوازبھٹو نے کی۔اس کے علاوہ پاکستان کے جلا وطن رہنمائوں نے بھی بھرپور شرکت کرکے دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ کم و بیش تمام اخبارات اور جریدوں نے اپنے اداریوں میں غیر ملکی رائے عامہ کو ہموار کیا اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بدترین روپ سے دنیا کو روشناس کرایا اور اسے سیاسی انتقام سے تعبیر کیا۔
دی ٹورنٹوسٹار نے مارچ 1978ء میں اپنے اداریہ میں اس فیصلہ کو دہشت پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے لکھا : ''سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی جو سزا دی ہے اسے سیاسی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کوئی مقدمہ نہیں تھا بلکہ اسے آمر ضیا الحق کے راستے میں مزاحم ہونے والے ایک سویلین رہنما کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش ہے‘‘۔ ''پانچ مہینوں پر محیط عدالتی کارروائی محض ایک ڈھونگ تھی۔ خوفزدہ گواہوں نے جو شہادتیں دیں وہ دوسروں کی باتوں پر مشتمل تھیں‘ اس کے باوجود شہادتیں جرم ثابت کرنے میں ناکام رہیں‘‘۔
''مسٹر بھٹو آزادانہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے تھے اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود بھٹو ایک عظیم رہنما تھے‘ جنہوں نے قوم کے وقار کو بلند کیا اور قومی یک جہتی کو مستحکم کیا‘ حالانکہ دسمبر 1971ء میں بھارت کے ہاتھوں شکست نے قوم کو بری طرح پامال کردیا تھا‘‘۔''بھٹو کے خلاف ضیا کا قاتلانہ اقدام بہت بڑا ظلم ہے‘ یہ انصاف نہیں ہے‘ یہ تباہی و بربادی کا اور تشدد کا نسخہ ہے‘‘۔
ایک اور مقتدر جریدہ‘ دی سٹیٹس مین نے اپنے 21 مارچ 1978ء کے اداریہ میں لکھا:''یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما کو اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھتا ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیا نے سابق وزیراعظم کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ سب ناکام رہی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس نے مسٹر بھٹو کی اقتدار پر فاتحانہ واپسی کے امکان کو روکنے کیلئے کئی بار انتخابات ملتوی کئے ہیں‘‘۔
دی سٹیٹس مین کا اداریہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جنرل ضیا نے جناب بھٹو کو سیاسی طور پر مٹانے کی ناکام کوشش کی تھی اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس طرح کی کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔
41 برس بیت گئے مسٹر بھٹو پاکستان کے سیاسی افق پر موجود ہیں۔ جنرل ضیا کے پیروکار اور جناب بھٹو سے بغض و عناد رکھنے والے بعض عناصر ٹی وی پر یہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ تاریخی شعور سے نابلد سیاسی عداوت کا مظاہرہ کرکے اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں‘ دراصل ان الزامات کو دہرا کر ‘ جو جنابِ بھٹو کو سیاسی موت کی مہم کا حصہ ہیں‘ اس حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے سات معزز ججوں میں تین نے سزائے موت کے فیصلہ سے عدم اتفاق کیا تھا۔ ایک مرحوم چیف جسٹس یہ اعتراف اور انکشاف کرچکے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان جناب بھٹو کے عدالتی قتل کیلئے ان پر بڑا دبائو تھا۔
4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کو سزائے موت کے بعد کال کوٹھڑی میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا‘ لیکن جناب بھٹو نے بڑی بہادری اور صبر و استقامت سے اس ظلم وتشدد کو برداشت کیا ‘ جس نے انہیں زندہ و جاوید بنا دیا۔پھر 17اگست 1988ء کو مکافاتِ عمل کا خوفناک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ یہ اطلاع 70کلفٹن کراچی پہنچی تو پارٹی کارکنوں نے جمع ہو کر گیٹ کے باہر مٹھائی بانٹنی شروع کردی‘اطلاع پا کر بی بی شہید نے باہر آکر کارکنوں کو اس سے منع کردیا اور کہا کہ کسی کی موت پر مٹھائی بانٹ کر خوشی نہیں مناتے‘ یہ شرفِ انسانیت کا ایک اعلیٰ عمل اور بی بی شہید کی شخصیت کا خوبصورت پہلو تھا۔
جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں نے یہ تصور کرلیا تھا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے عہد کا خاتمہ کردیا گیا ہے‘ مگر تاریخ اس اندازہ پر مسکرارہی تھی۔جناب بھٹو نے جس دلیری اور بہادری سے بدترین حالات اور مظالم کا سامنا کیا اس سے وہ تاریخ میں امر ہوگئے ہیں اور چار دہائیوں بعد بھی ان کے نام کے ترانے گائے جارہے ہیں اور عدالتی قتل کی مذمت کی جارہی ہے۔
یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو آج بھی زندہ ہیں اور عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔ اور جئے بھٹو کا نعرہ پاکستان کی فضا ئوں میں گونج رہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے ہزارہا کارکن ہرسال 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش جا کر پاکستان کے عظیم سپوت کی عظیم قربانی کو یاد کرکے ذوالفقار علی بھٹو شہید‘ شہید ِپاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں