آج سوچتا ہوں‘ وہ دن کتنے شاندار تھے‘ جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی رفاقت نصیب تھی‘ ان کی جمہوری جدوجہدکتنی جاندار تھی ۔ وہ عوامی حقوق اور انسانی وقار کی علمبردار تھیں۔ ان کی شہادت کوآج گیارہ سال ہورہے ہیںاور وہ یادوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
آنسو خشک اور دل کے زخم تازہ یہی اثاثہ اور یہی ورثہ ان کی یادوں کا امین ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا۔ ان کی عظمت کے گیت مسحورکرتے رہیں گے۔ لوح ِدِل پر ان کی یادوں کے نقش و نگار غم و جدائی کے ایام کو منور رکھیں گے۔
یہ احساس ‘کتنا خوبصورت ہے کہ نہ ہوتے ہوئے بھی بی بی شہید ہم میںموجود ہیں۔ 27 دسمبر 2007ء کی شہادت نے انہیں لافانی بنا دیا ہے کہ پورا ملک ان کے غم سے سوگوار تھا۔ دنیا کے ہر حصے میں ان کی عظمت و احترام کاشاندار رشتہ استوار ہے۔ ان کی عظیم جدوجہد اور قربانی کی شمع روشن ہے اور یہ ہماری تاریخ کا شاندار اور نادر باب بن چکا ہے۔
کارکنوں اور عوام کے دلوں سے ان کی کتنی یادیں وابستہ ہیں۔ سچ یہ ہے ان کے بچھڑنے کے بعد ان کی کمی بے حد محسوس کی جارہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید وفاق پاکستان کی علامت تھیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیرکا نعرہ مقبول ترین تھا‘ اس نعرہ کی صدائے بازگشت آج بھی سنی جاسکتی ہے۔
بی بی شہید کی تمام تر جمہوری جدوجہد وفاق کی سیاست کا محور تھی۔ انہوں نے بدترین حالات کا سامنا کیا۔ اور ان حلقوں اور عناصر کی حمایت نہیں کی ‘جو مقامی عوامی حقوق کے نام پر صوبائی عصبیت کے حامی تھے۔ ان کی اس سیاسی عظمت کی بدولت پاکستان کے عوام ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ حکومت وقت کی کئی سالہ کردار کشی اور الزامات کی مہم بھی ان کی سیاسی حیثیت اور مقام و مرتبہ پر اثر انداز نہیںہوئی ‘بلا شبہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی مقبول ترین رہنما تھیں۔
بھٹوخاندان کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا‘ جو مظالم توڑے گئے‘ خود بے نظیر بھٹو پر جو ستم روا رکھے گئے۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری کو جس طرح توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گیا‘ اس کے باوجود انہوں نے ایک قومی رہنما کے طور پر ملک اور عوام کے ساتھ محبت کے رشتہ پر آنچ نہیں آنے دی۔ پاکستان کی سالمیت اور یک جہتی پر ان کا عزم پختہ اور مضبوط تھا۔ان کا یہی ایک مطالبہ تھاکہ ملک میں جمہوریت اور بنیادی حقوق بحال ہوں اور عوام اپنی مرضی سے نمائندے منتخب کرسکیں۔
والد کی پھانسی اور بھائیوں کی موت کے زخم مندمل نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ظلم کو حوصلہ مندی اورجرأت سے برداشت کیا۔ حب الوطنی کے جذبہ کو مضحمل اور کمزور نہیں ہونے دیااور نہ ہی وفاق پر ان کا ایمان متزلزل ہوا۔ اس کے برعکس انہوں نے پوری قوت سے عوام کے جمہوری حقوق کی آواز بلند کی۔
بی بی شہید بے شمار خوبیوں کا مرقع تھیں۔ ہمدرد دل تھیں‘دوسروں کی تکلیف پر بے اختیار آنسو رواں ہوجاتے تھے‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ روحانیت اور تصوف کی طرف مائل تھیں۔انہیں صوفیائے کرام سے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری سے انہیں قلبی راحت ملتی تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں درویش صفت خاتون تھیں۔ غریب کی حالت ِزار دیکھ کر ان کا دل بھرآتا ۔ دوسروں کی ہر ممکن مددکیاکرتی تھیں۔
1985ء میں بی بی شہید اور میں لندن سے بغداد گئے‘ حضرت غوث پاک شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کے مزار اقدس پر حاضری دی۔ حضرت غوث پاک کا مزار بقعہ نور تھا ‘ فاتحہ خوانی کی اور نوافل ادا کئے‘ وہاں جو پاکستانی خدمت گاروں کو دیکھا انہیں بے حد مسرت ہوئی اور ان کو سو سوڈالر دے کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ اس کے بعد امام ابوحنیفہ ؒکے مزار پر دعا مانگی اور اپنے تاثرات قلمبند کئے۔اس روحانی سفر کی یہ ابتدا تھی۔ اگلے دن کربلا معلی اور نجف شریف کا سفر کیا۔ حضرت علیؓ کے مزار پر فاتحہ خوانی اور نماز ادا کی۔ اس کے بعد کربلا معلی سے حضرت امام حسینؓ کے مزار پر فاتحہ خوانی کا ثواب حاصل کیا۔حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی کو یاد کرکے بی بی اشکبار ہوگئیںاور عظیم معرکہ شہادت نے حق کی راہ پر چلنے کے عزم کو جلا بخشی۔
2001ء اور 2003ء میںبھی کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری اور ہندوستان ٹائمز کی دعوت پر بی بی شہید نے دہلی کا دورہ کیا۔ دونوں مرتبہ بی بی نے حضرت نظام الدین اولیاء اور اجمیرشریف سے خواجہ معین الدین چشتی کے مزارت پر حاضری دی۔ فاتحہ خوانی نفل ادا کئے۔چادر اور پھول چڑھائے نفل ادا کئے اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں مانگیں ۔اس روح پرور تجربہ کے دوران بی بی نے اپنے تاثرات بھی تحریر کئے۔
بی بی شہید کو پاک پتن میں بابا فرید شکرگنج ؒسے بڑی عقیدت اور دلی لگائو تھا‘ وہ گاہے بگاہے وہاں جا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتی تھیںاور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی دعا مانگتی تھیں۔ عقیدت کے اس سفر میں میں ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
یکم جنوری 2008ء کو اپنی انتخابی مہم کے دوران پاک پتن بابا فرید شکرگنجؒ کے مزار پر حاضری ان کے پروگرام میں شامل تھی۔ 27 دسمبر 2007ء کو انہیں راولپنڈی میں شہید کردیا گیا اور ان کی یہ آرزو بھی شہید ہوگئی۔
10 اپریل 1986ء کو لاکھوں لوگ بی بی کے استقبال اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لاہور اُمڈ آئے تھے‘ اس بے پناہ ہجوم میں کسی خاتون کے ساتھ نازیبا حرکت کا واقعہ رونما نہیں ہوا ان کی یہ ہدایت تھی کہ فضول اور بے ہودہ نعرے بازی اور خواتین کے ساتھ کسی قسم کا نازیبا برتائو نہ ہو‘ پھر لوگوں نے دیکھا پنجاب بھر میں ان کے عظیم جلسوں میں ان کی ہدایات کے مطابق کسی قسم کا ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا‘ خواتین کی عظمت احترام کا یہ شاندار مظاہرہ تھا۔
بی بی شہید کی اپنی زندگی بے شمار مصائب و آلام سے پُر تھی اور انہوں نے حوصلہ اور ہمت سے ناموافق حالات اور جبر کا مقابلہ کرکے اسے شکست دی۔ دومرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں‘ لیکن عوام سے ان کا رشتہ کبھی نہ ٹوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ اس رشتہ کی رسی کو اسی مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ دل ان کی محبت سے سرشار ہیں اور اہل وطن آئندہ بھی ان کی محبت اور پیار سے بدستور معمور رہیں گے۔
بی بی شہید نے مجھے اپنی شفقت سے خوب نوازا اور اس کا برملا اظہار کئی مواقع پر کیا ہے۔ بھٹو خاندان جہد مسلسل کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں:
'' بشیر ریاض میںبے شمار خوبیاں ہیں‘ بہت ہی قابل اعتماد دوست اور ساتھی ہیں۔‘‘
بی بی شہید موسم گرما کی تعطیلات میں جولائی‘ اگست لندن میں ہوتی تھیں‘ ایک روز لنچ کے بعد پاکستان سے آئے ہوئے اہم رہنمائوں کی موجودگی میں انہوں نے کہا:
'' میں نے یکسوئی کے ساتھ حالات اور آپ کے بارے میں غورکیا ہے ‘بشیر کی مثال میری نظر میں ہے۔ آپ نے جس طرح مشکل حالات اور جدوجہد میں میرا ساتھ دیا ہے اور اعتمادکا شاندار مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر مجھے فخر ہے کہ آپ کی وفاداری اور ثابت قدمی نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا ہے۔‘‘
محترمہ بے نظیر بھٹو جنوری 1984ء میں لندن آئیں تو اس وقت سے لے کر آخر دم تک میں ان کا رفیق سفر رہا ہوں۔ لندن میرے گھر میں بی بی کی تاریخ ساز تصاویر آویزاں ہیں۔ انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ بی بی مجھ سے ہم کلام ہیں ۔ ہر تصویر پر انہوں نے آٹو گراف دئیے ۔
جون 1990ء میں لند ن چلا آیا۔ بی بی نے نومولودہ بختاور کے ساتھ تصویر پر لکھا ۔
''ڈیئر بیش! بختاور اور میں جمہوریت کی جدوجہد میں آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتیں ‘لہٰذا وطن واپس لوٹ آئیں۔ بے نظیر بھٹونے جون 1990ء میں اپنے دوسرے دورِ حکومت میں آفیشل پورٹریٹ کا تحفہ اس آٹو گراف کے ساتھ دیا ''ڈیئر بشیر ریاض آپ کی برس ہا برس کی حمایت‘ حوصلہ افزائی نیک خواہشات کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی قوت کا موجب بنیں‘‘۔
میں گزشتہ اکتوبر لندن میں تھا ‘مجھے اپنے فون سے وابستہ یادیں دامن گیر رہیں۔ میں سوچتا تھا فون کی گھنٹی بجے گی اور دوسری طرف سے بی بی کی مانوس آوازسنوں گا‘ لیکن افسوس یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی ہے۔
فون کی گھنٹی کبھی نہیں بجے گی اور بی بی کی یادگار تصویریں ہم کلام رہیں گی۔
18 اکتوبر 2007ء کو پاکستان واپسی سے دو دن قبل دُبئی سے 16اکتوبر کو بی بی نے مجھے یہ ای میل بھیجی:
''شیڈو! میں آپ کو مس کروں گی‘ 1977ء میں جب آپ سے ملی تھی ‘اس وقت سے اب تک آپ نے پارٹی اور میرے لئے بہت کچھ کیا ۔ اس کے لئے میں آپ کی شکرگزار ہوں۔‘‘
'' مجھے معاف کیجئے گا‘ اگر میں نے آپ کو ٹھیس پہنچائی ہو‘ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ آپ کی حمایت اور مدد کی‘ قدر ومنزلت کی ہے‘ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو! بی بی ‘‘۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ مختصر پیغام پڑھ کر دل بھر آیا اور پریشان خیالات میں کھو گیا تھا۔
پھر وہی ہوا‘ جس کا خوف اور ڈر تھا۔