میر مرتضیٰ بھٹو کی یاد میں!

میر مرتضیٰ بھٹو‘ ایک خوش شکل ‘نفیس شخصیت کا پیکر تھا‘ بلکہ خوش اخلاق ‘دلیر اور بہادر تھا۔ جرأت و بہادری اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو شہید سے ودیعت ہوئی تھی۔جواں مرد میر مرتضیٰ بھٹو کی نمایاں خصوصیت اس کا چھ فٹ سے اوپر قدکاٹھ تھا۔اپنی والدہ کی نظر میں وہ ان کے شوہر کا پرتو تھا۔ بیگم نصرت بھٹو عموماً کہتی تھیں؛ جب مرتضیٰ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا ہے تو انہیں اس پر بھٹو صاحب کا شائبہ ہوتا ہے ۔
میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ میری رفاقت کا آغاز مارچ1978ء میں ہوا اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 18مارچ1978ء کو لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ایک جھوٹے مقدمۂ قتل میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ تو اس وقت اندرون ملک اور بیرون ملک ایک کہرام مچ گیا ۔پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند ہوئی اور اسے مقدمہ کا قتل قرار دیا گیا۔
میر مرتضیٰ بھٹو‘ اس وقت آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھا۔ اس ہولناک خبر کے بعد وہ لندن منتقل ہو گیا۔ اپنے والد کی زندگی بچانے کے لیے ایک عالمگیر مہم کا آغاز کیا۔ اس نے دن رات ایک کرکے انصاف کے حصول کے لیے عالمی ضمیر کو آواز دی۔ اور اپنے ہم وطنوں کے اشتراک سے لندن اور انگلینڈ کے دوسرے شہروں میں بڑے بڑے مظاہروں کا انتظام کیا۔وہ ان مظاہروں میں خود بھی شریک ہوتا۔ اس نے پاکستانیوں کے شدید احتجاجی مظاہرے منظم کیے۔ اس دوران ان کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو‘سوئٹزرلینڈ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے لندن آ گئے اور اپنے والد کی زندگی بچانے کی تحریک میں شامل ہو گئے۔
بیگم نصرت بھٹو کی ہدایت پر میر مرتضیٰ نے مجھے اپنی مہم کا حصہ بنا لیا؛ چنانچہ جدوجہد کی یہ رفاقت قریبی تعلق کے رشتہ میں ڈھل گئی۔ ہم نے بڑے منظم اور موثرانداز میں قائدعوام منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بچانے کی مہم عالمی سطح پر اجاگر کی اور پوری دنیا میں میر مرتضیٰ بھٹو کی آواز سنی جانے لگی۔ اس نے مختلف اسلامی ممالک اور دیگرسربراہوں سے ملاقات اور جان بچانے کی اپیل کی۔ دنیا بھر کے ممالک کے دورے کیے اور لندن کے محاذ پر میں سرگرم عمل رہا اور نصف شب تک پاکستانیوں سے روابط کے پروگرام ترتیب دیئے اور ''مساوات‘‘ ویکلی کے ذریعہ سے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کا مشن جاری رکھا۔
اس محنت کے نتیجہ میں لندن میں تاریخی مظاہرے ہوئے ‘جن میں پاکستانیوں نے مختلف شہروں سے آ کر بھرپور شرکت کی۔ اور ان کی قیادت میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے کی۔ یہ بڑے سخت دن تھے‘ لیکن ہمت اور حوصلے جوان تھے۔ دونوں بھائیوں نے اپنے والد کے مقدمہ قتل کو ایک عالمی موضوع بنا دیا اور دنیا میں حکومت وقت کے اس اقدام کے خلاف بھرپور نفرت کا اظہار ہوا۔ میرمرتضیٰ بھٹو کی ان کاوشوں سے دونوں بھائیوں کا وقار بھی بلند ہوا۔بدقسمتی سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور جنرل ضیاء الحق نے طے شدہ منصوبہ کے تحت پاکستان کے ہردلعزیز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکو 4اپریل 1979ء کو پھانسی دلوادی۔ اس نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کی جان بخشی کی اپیل کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے مذموم ارادہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اسے یہ خوف دامن گیر تھا کہ اگر مسٹر بھٹو زندہ رہے تو پھر ڈکٹیٹر کا اپنا انجام بخیر نہیں ہوگا۔
پاکستان کا یہ آمر میرمرتضیٰ بھٹو اور شاہنوازبھٹو کی بیرون ملک عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی سرگرمیوں سے بھی خائف تھا؛ چنانچہ قابض ٹولے نے بھٹو صاحب کے بیٹوں کو بھی نشانے پر رکھا۔ اور ان کے خلاف منصوبے اور سازش تیار کی گئی۔ اسی منصوبے اور سازش کا نتیجہ تھا کہ میر شاہنواز بھٹو کو فرانس کے شہر وینس میں اس کی بیوی ریحانہ کے ہاتھوں زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ وہ چھ ماہ تک فرانسیسی حکومت کی تحویل میں رہی اور بعدازاں اسے پرُاسرار طور پر قید سے رہا کر دیا گیا۔دونوں بھائیوں کی زندگی کا یہ اہم موڑ تھا۔ وہ جذباتی حکمت عملی کی وجہ سے جلاوطن رہے۔ کچھ عرصہ کابل ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا‘ جہاں انہوں نے مسلح جدوجہد شروع کی۔ پی پی کے بہت سے کارکن وطن چھوڑ کر اسی کا حصہ بنے ‘لیکن حکومتی طاقت اور وسائل سے اس جدوجہد کو ناکام بنا دیا گیا اور بہت سے کارکنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘اور وہ دربدر ہوئے۔ اکثر نے یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لی اور نئی زندگی شروع کی۔ وہ ابتدائی مشکلات کے باوجود حالات کا سامنا کرکے خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔ انہیں بیرون ممالک کے لیے ویزہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ تھی اور آج کل ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وہاں کی سوسائٹی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور جدوجہد کے ثمرات حاصل کر رہے ہیں۔
اس مسلح جدوجہد میں کئی ایسے جاسوس بھی شریک ہو گئے‘ جنہیں حکامِ وقت نے اس کی ترغیب دے کر مسلح جدوجہد کا حصہ بنایا۔انہوں نے دغا کیا اور میرمرتضیٰ بھٹو کے خلاف سازشوں کی آبیاری کی ‘جو انجام کار خود میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل کا باعث بنی۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان دراندازوں سے بڑی پریشان تھیں۔ وہ اکثر اس خدشہ کا اظہار کرتی تھیں ‘انہوں نے اپنے بھائی کو بھی اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ اپنی صفوں میں مارِ آستین اور حکومت کے کارندوں سے بچو۔ میںفکر مند ہوں کہ یہ آ پ کو دغا دیں گے اور آپ کی جان کے لیے خطرہ ہوں گے۔ ان کے یہ خدشات انجام کار درست ثابت ہوئے اور بی بی اپنے دو سرے بھائی کو بھی کھو بیٹھیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو خاندان کا آخری مرد تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا یہ المناک انجام بی بی شہید اور بھٹو خاندان کے لیے ایک سانحہ عظیم تھا۔
یہاں یہ ذکر بھی ناگزیر ہے کہ 9ستمبر 1996ء کو میرے ہاں میرمرتضیٰ بھٹو کی سالگرہ کا پیشگی ڈنر تھا‘ جس میں آمنہ پراچہ ان کے مرحوم شوہر سلیم ذوالفقار علی خان ‘ میر مرتضیٰ کے دوست نجیب ظفر اور ان کی اہلیہ شریک تھے۔ ڈنر بڑے خوشگوار ماحول میںہوا۔ اس موقعے پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی فون کرکے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔میر مرتضیٰ بھٹو بڑا خوش تھا اور ہم سب بھی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے بھائی کی سالگرہ کے دن 18ستمبرکو-70 کلفٹن کیک اور پھول بھیج کر مبارکباد دی تھی۔ میر مرتضی بھٹو سے مارچ1978ء میں رفاقت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ وہ 20ستمبر1996ء کو اختتام پذیر ہوا اور رفاقت دم توڑ گئی۔
قارئین !ذہن نشین رہے کہ میر مرتضیٰ بھٹو کا یومِ ولادت 18ستمبر اور یومِ وفات 20ستمبر ہے ۔خداوند کریم ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں