شیخ مجیب الرحمن ، ذوالفقار علی بھٹو ، اندرا گاندھی ، ضیاء الحق اور بے نظیر، سب مارے گئے۔ اقتدارکی جنگ میں موت سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیشی جماعتِ اسلامی پر قہر برسا رہی ہے ۔ پہلی مرتبہ نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی کو اقتدار ملا ہو ۔ یہ بھی نہیں کہ بنگلہ دیش میں جماعت کی کوئی خاص اہمیت ہے ۔ عام طور پر دو چار نشستیں ۔ سب سے بڑی کامیابی 2001ء میں سترہ نشستیں اور حسینہ واجد کی حریف نیشنلسٹ پارٹی کے اقتدر میں شرکت ہے ۔نیشنلسٹ پارٹی کی مالکن خالدہ ضیا ہیں۔ شوہر کے قتل پر پارٹی انہیں وراثت میں ملی تھی ۔ خالدہ ضیا اور حسینہ واجد ہی اصل فریق ہیں ۔حسینہ واجد اب ’’تیس لاکھ ‘‘بنگالی شہریوں کا خون جماعتِ اسلامی کے لہو سے دھونا چاہتی ہیں ؛حالانکہ تینوں اطراف سے مرنے والوں کی اصل تعداد پونے تین لاکھ ہے ۔جماعتِ اسلامی پر پابندی لگی تو گویا دو ملّائوں میں مرغی حرام والا قصہ ہوگا۔ پاکستان کی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے ؟ نام لیے جاتے ہیں تو دہانے کھل جاتے ہیں اور ہذیان طاری ہو جاتاہے ۔ تقسیم سے پہلے کے واقعات سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ سچ تو مگر وہی ہوتا ہے جو بچپن میں ہمارے دماغ میں انڈیل دیا جائے۔ آج بھی بنگلہ دیش کا ذکر ہو تو زیادہ تر پاکستانی چُپ سادھ لیتے ہیں ۔ اور کوئی بھی ہو ، کم از کم عوام اس کے ذمہ دار نہ تھے ۔ ابتدا ہی میں بنگالی زبان کی تحریک اٹھی ۔ مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ مشرقی پاکستان تشریف لے گئے اورفرمایا کہ سرکاری زبان بہر صورت اردوہوگی ۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ ایک زبان کے بغیر قوم متحد نہیں رہ سکتی ؛البتہ صوبے کے اندر عوام کی منشا کے مطابق زبان منتخب کی جا سکتی ہے ۔زبان کا یہ تناز ع کبھی ختم نہ ہوا ۔ شکوہ یہ بھی تھا کہ نسلی طور پر انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے اور معاشی استحصال کیا جاتا ہے ۔ مسلم لیگ کا سیاسی غلبہ ختم کرنے کے لیے عوامی لیگ قائم کی گئی۔ حسین شہید سہروردی فوت ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن موثر ہوتا گیا۔ اس نے صوبائی خودمختاری پر چھ نکات پیش کیے ۔ مرکز دفا ع اور خارجی امور تک محدود ہو جائے ، الگ کرنسی ، مالی خودمختاری ، زرِ مبادلہ کے الگ ذخائر ، صوبے کو عالمی برادری سے تجارتی تعلقات کی آزادی اور سب سے بڑھ کر علیحدہ فوج ۔ 1968ء میں شیخ مجیب الرحمن سمیت پینتیس افراد کو بھارتی اشیرباد سے الگ ملک کی سازش پر جیل ڈال دیا گیا۔ ایوب خان ڈھے رہا تھا اورمجیب الرحمن بے پناہ مقبول ۔ مجبوراً ملزمان رہا کر دئیے گئے ۔ مادرِ ملّت کو ہرانے والا جنرل بے توقیر ہو کر رخصت ہوا ۔ آخری احسان اس نے یہ کیا کہ یحییٰ خان کو حکومت تھما دی۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے تقریباًتمام،162 نشستیں جیت لیں ، مغربی پاکستان سے ایک بھی نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں88نشستوں سے اکثریت حاصل کی ، مشرقی پاکستان سے ایک بھی نہیں ۔ بے پناہ مقبولیت سے شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے حواس مختل ہو گئے تھے ۔ اصولی طور پر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کا اختیار تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان اپنی جگہ سر پٹخ رہے تھے ۔ یہ حکومت کی تشکیل کا مرحلہ تھا۔شیخ مجیب الرحمن کی سوئی مگر چھ نکات پر اٹکی تھی ۔ بھٹو اور یحییٰ خان، دونوں نے مجیب الرحمن سے ملاقاتیں کیںلیکن بے سود۔تین مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونا تھا۔ مجیب نے اعلان کیا کہ آئین چھ نکات کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا۔ جواب میں بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دے گا۔ساتھ ہی ٹانگیں توڑ دینے کا اعلان بھی ہوا۔ یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ مجیب الرحمن نے علیحدگی کی جنگ کا اشارہ دیا۔25مارچ 1971ء کو اسے گرفتا ر کرکے اسلام آباد لایا گیا۔ اس سے پہلے ہی وہ آزادی کا اعلان تحریر کر چکا تھا۔ بنگالی میجر ضیاء الرحمن نے چٹا گانگ کے ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کر کے وہ اعلان نشر کر دیا : ہمارے سپریم کمانڈر ،شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتے ہیں ۔میجر صاحب حسینہ واجد کی حریف خالدہ ضیا کے شوہر تھے ۔ نو ماہ بغاوت برپا رہی ۔ بالآخر اندرا گاندھی کا بھارت کود پڑا ۔دو ہفتے بعدپاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ یحییٰ خاں نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے اقتدار بھٹو کے حوالے کیا ۔اسے نظر بند کر دیاگیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو رہا کر دیا گیا ۔ وہ بغلیں بجاتا ہوا بنگلہ دیش روانہ ہوا۔ اس کے دور ِ اقتدار میں وہاں قحط پھوٹا اور دس لاکھ آدمی مر گئے۔ تین برس بعد بنگالی فوج کے کچھ افسروں نے شیخ صاحب اور ا ن کے اہلِ خانہ کو ان کے خالقِ حقیقی کی طر ف روانہ کر دیا ۔ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے شیخ حسینہ واجد بچ گئیں ۔فساد در فساد ۔میجر ضیاء الرحمن اب آرمی چیف بن چکا تھا۔ 1977ء میں اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو معافی عطا کی۔ وہی ضیاء الرحمن ، جس نے شیخ مجیب الرحمن کے ایما پر بنگلہ دیش کا اعلان کیا تھا۔وہ صدر بنا اور نیشنلسٹ پارٹی بنائی۔ 1981ء میں اس کے ماتحتوں نے اسے عالمِ فانی کے دکھوں سے رہاکر دیا ۔ نیشنلسٹ پارٹی اس کی بیوہ محترمہ خالدہ ضیا کی جھولی میں جاگری۔ پچھلے چار انتخابات سے صورتِ حال یہ ہے کہ ایک حکومت خالدہ ضیا کو نصیب ہوتی ہے اور دوسری شیخ حسینہ واجد کو۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے پاکستان سے معافی کا مطالبہ کیوں کیا اور جماعتِ اسلامی کا خون کیوں بہایا جا رہا ہے ؟ اگلے برس الیکشن ہے ۔ اب کی بار خالدہ ضیا کے امکانات زیادہ ہیں؛چنانچہ شیخ صاحبہ نے پاکستان سے علیحدگی کی بند کتاب کھول دی ہے ۔ حسبِ توقع خالی پیٹوں اور خالی دماغوں والے روتے ہوئے ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی سمیت سب کچھ پسِ منظر میں چلا گیا ہے ۔ نفرت کی آگ دہکا تو انہوںنے خوب دی ہے لیکن ان کا اپنا دامن کب تک بچے گا؟ حرفِ آخر یہ کہ پاکستان کی تقسیم میں بڑا کردار ادا کرنے والی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو 1984ء میں ان کے محافظوں نے تیس گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ یحییٰ خان بے آبروئی سے مرا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے سب واقف ہیں ۔