سوویت ریاست الاگیر کی ملکہ، تاریخ کی وہ واحد سفید فام عورت، اپنے بیٹے کی موت کے بعد جس نے بھوک سے تڑپتے ہوئے ایک سیاہ فام بچّے کو اپنا دودھ پلایا۔ چرواہوں کے خاندان سے آہستہ آہستہ یہ بات پھیلتی چلی گئی۔ سرگوشیوں میں لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے اور زبانیں بند کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بادشاہ خود ایک گہرے تاریک کمرے میں نیم گوشہ نشین تھا۔ اس زمانے میں سیاہ فاموں سے ہنس کر بات کرنا بھی ایک جرم تھا، کجا یہ کہ انہیں گود لیا اور دودھ پلایا جائے۔ ریاست سے خبریں لانے والے بتا رہے تھے کہ ملکہ سے لوگ بے تحاشا نفرت کرنے لگے ہیں، اس کے خلاف تقریریں ہو رہی ہیں۔ اس سے بغض رکھنے والے عورتیں ملکہ کا مذاق اڑا رہی تھیں کہ بڑی فیشن ایبل بنتی تھی، اب سیاہ فام بچّہ اٹھائے پھرتی ہے۔ ادھر دوسری طرف سیاہ فام باغی تھے جو ملکہ کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کے لیے تیار تھے۔انتونیا دیکھ سکتی تھی کہ ریاست کے سپاہی بے پناہ ہتھیاروں کے باوجود لڑنے کی صلاحیت کھو چکے تھے۔ اگر ان میں دم خم ہوتا تو کیا یہ تیس ہزار باغی چالیس سال تک ریاست کے خلاف جنگ لڑ سکتے؟ اگر وہ چاہتی تو انہیں اکٹھا کر کے اسلحے کے ڈپو پر حملہ کر تی اور ہتھیار لے کر ریاست پہ ایسا حملہ کرتی کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس کے دل میں آج بھی بادشاہ کی محبت موجود تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار، اور سہیلیاں‘ سب لوگ تو ریاست میں قیام پذیر تھے۔ وہ اپنوں کو قتل کر نے کا حکم کیسے دے سکتی تھی؟ ایک بار اس کے جی میں آئی کہ ایڈم کے ہمراہ تیار ہو کر مذاق اڑانے والیوں کے سامنے جائے اور انہیں دکھائے کہ سفید اور سیاہ کا امتزاج کیسا حسن پیدا کرتا ہے۔ اگر وہ نئے ایڈم کو لے کر ریاست واپس جاتی تو ذاتی طور پر ایک اعصاب شکن جنگ سے اسے گزرنا پڑتا، جس کے نتیجے میں نفرت کے فروغ کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوتا۔
انتونیا اب ایک کھلنڈری لڑکی نہیں تھی۔ وہ صدمات سے گزری ہوئی ایک بردبار ملکہ تھی۔ اس کا بیٹا دائو پر لگا تھا۔ اس کی اپنی زندگی دائو پر لگی تھی۔ اس کا سہاگ دائو پر لگا تھا۔ اس کا پورا خاندان دائو پر لگا ہوا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اب پوری کی پوری ریاست ہی دائو پر لگی ہوئی تھی۔ انتونیا سوچتی رہی۔ گہرے صدمات نے اس کی سوچ میں گہرائی پیدا کر دی تھی۔ ادھر دوسری طرف بادشاہ کاحال بھی یہی تھا، جو ابھی تک ایک گہرے تاریک کمرے میں قید تھا، ایسے میں ریاست کا نظام کس طرح چل سکتا تھا بھلا، ہر طرف بے چینی تھی۔
انتونیا اس نتیجے پر پہنچی کہ خون کو خون سے دھویا نہیں جا سکتا۔ بہت سا پانی درکار تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انتونیا نے مسئلے کا ایک انوکھا حل نکالا۔ تیس ہزار باغیوں کے چنیدہ سرداروں کو اس نے طلب کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس پر اعتماد رکھتے ہیں؟ اور کیا وہ اس کے کہنے پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ملکہ آپ حکم کریں تو ہم اپنے ہاتھ سے اپنے سینوں میں خنجر گھونپ دیں گے۔ ہزاروں سالوں سے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے غلاموں کا مطالبہ توصرف اتنا تھا کہ انہیں بھی سفید فاموں جیسا انسان تسلیم کیا جائے لیکن ملکہ نے تو سیاہ فام بچّے کو گود لے کر انہیں خرید لیا تھا۔ اب وہ واقعتاً قتل ہونے کے لیے تیار تھے۔ انتونیا نے حکم دیا کہ رسّی تیار کرنے کا عمل شروع کر دیا جائے۔ تیس ہزار باغیوں کے ہاتھ پشت پر باندھے جائیں گے اور وہ ریاست کے سامنے جا کر اپنی گردن جھکا لیں گے کہ ان کا سر قلم کر دیا جائے۔ باغیوں نے اُف تک نہیں کی۔ وہ سرشار تھے اور انہیں اپنی ملکہ پر یقین تھا۔
پھر وہ تاریخ ساز دن آیا، جب بندھے ہوئے ہاتھوں والے باغی‘ قطاروں میں چلتے ہوئے ریاست میں داخل ہوئے۔ سپاہی اور افسر ششدر انہیں دیکھتے رہ گئے۔ ریاست کے باشندے گلیوں اور چھتوں سے یہ حیرت انگیز منظر دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ جنگجو لوگ تھے، جنہوں نے چالیس سال سے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ یہ وہ باغی تھے، ریاست اپنی پوری قوت صرف کرنے کے باوجود جنہیں ہرانے میں ناکام رہی تھی۔ انتونیا کے حکم پر وہ خود چلتے ہوئے اپنا سر پیش کرنے آ رہے تھے۔ باغیوں کی قیادت کھلے ہاتھوں والے انتونیا کر رہی تھی، جس نے گود میں اپنا سیاہ فام ایڈم اٹھا رکھا تھا۔ ملکہ کے لیے اب سب نظروں میں عقیدت تھی، جس نے خوفناک خطرہ مول لے کر یہ کارنامہ سر انجام دیا۔
جب باغی سرنڈر کر چکے اور جب کھلے میدانوں میں وہ گردن جھکائے اپنا سر قلم کیے جانے کا انتظار کر رہے تھے تو بادشاہ کے جنرلوں نے ملکہ کو جھک کر سلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملکہ ان سب سے بڑھ کر دور اندیش ثابت ہوئی۔ اپنے آپ کو دائو پر لگاکر اس نے تنِ تنہا ریاست کی جنگ لڑی اور جیت بھی لی۔ انہوں نے کہا کہ اب اس سیاہ فام بچّے کو گود میں اٹھائے رکھنے اور دودھ پلانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔ مقصد حاصل کیا جا چکا۔ اب اس بچّے کو پھینک دیا جائے۔ بادشاہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملکہ سے انہوں نے پوچھا: کیا اب باغیوں کے سر قلم کرنے کا آغاز کر دیا جائے؟انتونیا نے کہا: جہاں تک بچّے کو تعلق ہے‘ تو یہ میرا حقیقی بیٹا ہے۔ کسی کی جرأت ہے کہ اسے ایک طرف پھینک سکے۔ رہی سر قلم کرنے والی بات توسب سے پہلے میرا سر قلم کیا جائے۔ میں اب صرف ریاست نہیں‘ باغیوں کی بھی ملکہ ہوں۔ میرا جینا مرنا ان کے ساتھ ہے۔ اس نے ایڈم کو وہیں زمین پہ لٹایا اور سر جھکاکر جلاد کو اپنا سر پیش کیا۔ یہ منظر دیکھنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جلاد کیونکر اس حکم کی تعمیل کر سکتا تھا۔ افسروں میں شدید بحث اور جھگڑ ے شروع ہو گئے، جو کئی گھنٹے تک جاری رہے؛ حتیٰ کہ اطلاع موصول ہوئی کہ بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہیں۔ کئی ہفتوں سے جو گہرے تاریک کمرے سے باہر نہ نکلے تھے اور جن کی صحت کے بارے میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں جاری تھیں۔
ادھر دوسری طرف ریاست کے شہری پہلی دفعہ سیاہ فام باغیوں کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے جسم زخموں سے بھرپور تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ باغی بھی اپنا اپنا خاندان رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچّے تھام رکھے تھے۔ سوگوار گیت گاتے ہوئے، وہ اپنی موت کے منتظر تھے۔ انتونیا کے ایک حکم پر انہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔دوپہر کے وقت ایک بوڑھا اور کمزور شخص محل سے نکلا۔ سب حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ یہ بادشاہ تھا، سنگین صدمے نے جس کے بال سفید کر دیے تھے اور جس کا وزن گر چکا تھا۔ اب مگر انتونیا ہی کی طرح‘ صدمات سے گزرا ہوا وہ ایک جہاندیدہ آدمی تھا۔ لوہا انتونیا نے گرم کر دیا تھا اور اب چوٹ لگانے کا وقت تھا۔
بادشاہ اپنی ملکہ کو دیکھتا رہا اور مسکراتا رہا، جس نے تیس ہزار باغیوں سے ہتھیار ڈلوا دیے تھے۔ اس نے کہا: چونکہ باغیوں نے ریاست کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا ہے تو ہم بھی انہیں معاف اور آزاد کرتے ہیں۔ بادشاہ نے الاگیر میں غلامی کے خاتمے کا تاریخی اعلان کیا۔ اس حکم سے بے چینی تو پھیلی لیکن امن و امان برقرار رہا۔ بادشاہ نے مزید حکم دیا کہ جیلوں میں قید وہ تمام سیاہ فام قیدی جو سنگین جرائم میں ملوث نہیں، انہیں رہا کر دیا جائے۔ اس نے کہا: آج سے سیاہ فاموں پہ انہی قوانین کا اطلاق ہو گا جو سفید فاموں پہ لاگو ہوتے ہیں۔
یہ تھی سفید ماں کی کہانی۔ بادشاہ کبھی یہ حکم جاری نہ کر سکتا ، سفید ماں اگر تیس ہزار باغیوں کو ریاست کے سامنے سرنڈر نہ کروا دیتی۔ یہ وہ نکتۂ آغاز تھا، جہاں سے سوویت یونین میں غلامی پر پابندی لگنا شروع ہوئی تھی!