انتونیا‘ ایک سویت سردار کی بیٹی، جس نے اپنے قبیلے میں عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑی، جنہیں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ بعد ازاں الاگیر کا سلطان اسے بیاہ لایا۔ گو سیاہ فام غلاموں کو وہ ناپسند کرتی تھی لیکن پھر اسے انسانی تاریخ کی وہ واحد عورت بننا تھا، تنِ تنہا جس نے ایک پوری ریاست کے خلاف غلاموں کی جنگ لڑی۔ سیاہ فاموں کو تب انتہائی حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔ غیر معمولی بہادر اور خوبصورت جواں سال ملکہ کا نوزائیدہ بیٹا مر گیا۔ اپنا بیٹا مرنے کے بعد اس نے ایک نوزائیدہ، بھوک سے بلکتے ہوئے سیاہ فام بچّے کو دودھ پلا دیا تھا۔ اس وقت وہ اس کے نزدیک سیام فام غلاموں کی اولاد نہیں بلکہ بھوک سے تڑپتا ہوا ایک بچّہ تھا۔ انتونیا اس وقت ملکہ نہیں، فقط ایک ماں تھی۔ یوں انتونیا نے بادشاہ کو غم کی چھری سے ذبح کر کے رکھ دیا تھا، جو اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔
بادشاہ دروازے میں کھڑا رو رہا تھا۔ چند لمحے انتونیا سوچتی رہی۔ بادشاہ کو وہ پسند ضرورکرتی تھی لیکن سیاہ فام بچّہ وہ تھا، جس نے اس کے سفید فام بیٹے کے مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی عطا کی تھی۔ اپنی ظاہری بدصورتی سے قطع نظر، آٹھ رت جگوں کے بعد ملکہ کو اس نے نیند بخشی تھی۔ اب یہ بچّہ ہی اس کی کل کائنات تھا۔ انتونیا جانتی تھی کہ سرکاری ہرکاروں کے آنے کی دیر ہے، بچّہ اس سے چھین لیا جائے گا۔ اس کا ٹھکانا اب ایک ہی تھا۔ باغیوں کا جنگل، جو اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ اپنے نئے ایڈم کے ساتھ لپک کر وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور جنگل کی طرف اسے دوڑا دیا۔
ملکہ اس حال میں جنگل میں داخل ہوئی کہ سیاہ فام ایڈم اس کے سینے سے لگا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کی ایک مضبوط‘ لمبی چھڑی تھی۔ ایک درخت پرچھپے ہوئے ایک سیاہ فام باغی نوجوان نے اسے دیکھ لیا۔ وہ اس عجیب و غریب منظر کی تاب نہ لا سکا اور خوفزدہ ہو گیا۔ بجائے اطلاعی سیٹی بجاکر دوسروں کو خبردار کرنے کے‘ وہ چیخ اٹھا ''سفید ماں‘ ایک سفید ماں‘‘۔ بعد ازاں صدیوں انتونیا کو اسی نام سے یاد کیا گیا۔
جنگل آوازوں سے گونج اٹھا۔ یہ چاندنی رات تھی۔ جنگجو ملکہ خطرے میں گھری شیرنی کی طرح چوکس تھی۔ اس نے ایک قدم آگے رکھا اور دفعتاً انہیں اپنے روبرو پایا۔ سینکڑوں سیاہ فام مرد اور عورتیں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ چاندنی میں چمکتی ہوئی ایک الپسرا، گود میں جس نے ایک سیاہ فام بچّہ اٹھا رکھا تھا ''بچّے کی اصل ماں کہاں ہے؟‘‘ حیرت سے سب چیخ اٹھے۔ اور ایک سفید فام عورت کی جرأت کیسے ہوئی کہ موت کے اس جنگل میں رات کے اس پہر قدم رکھ سکے؟
ایک تند خو سیاہ فام نوجوان ملکہ کی طرف بڑھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اپنی طرف سے وہ سیاہ فام بچّے کو ملکوتی حسن کی اس اجنبی سفید فام عورت سے آزاد کرانے گیا تھا کہ چھین کر اسے اس کی اصل ماں کے حوالے کر دے۔ انتونیا نے نشانہ لے کر چھڑی اس کی طرف پھینکی۔ وہ الٹ کر گرا اور تڑپنے لگا۔
انتونیا سے زیادہ کون جانتا تھا کہ جنگل میں کیسے زندہ رہا جاتا ہے۔ طاقت کے بل پر ہی تو وہ یہاں تک پہنچی تھی۔ اس نے ایک بڑا گول دائرہ بنایا اور اس دائرے کے درمیان کھڑے ہو کر دو بار اپنے پائوں کو زمین پر گھسیٹا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ یہ جگہ اس کی ہے۔ سیاہ فام قبیلہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یہی وہ وقت تھا، جب سیاہ ایڈم رونے لگا۔ اسے پھر سے بھوک لگ گئی تھی۔ انتونیا پر مرتکز سینکڑوں برہم نگاہوں میں اب نفرت اتر نے لگی۔ انہیں اس ظالم عورت سے گھن آ رہی تھی، جس نے نوزائیدہ بچّے کو اس کی ماں سے دور کر رکھا تھا۔ بار بار وہ انتونیا کے پیچھے نگاہ دوڑاتے کہ شاید بچّے کی اصل ماں پیچھے چلی آتی ہو۔ ایڈم کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ہجوم کا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔
انتونیا نے سفید کپڑا پھیلا کر سیاہ فام ایڈم کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ نوزائیدہ بچّے کو دودھ ملا تو وہ خاموش ہو گیا۔ مجمعے پر جیسے بجلی آ گری ہو۔ چیخیں بلند ہوئیں۔ ایک کمزور دل عورت چکرا کے گری۔ سینکڑوں سیاہ فام مرد اور عورتیں پاگلوں کی طرح انتونیا کو دیکھ رہے تھے۔ ایک حسین سفید فام عورت ایک سیاہ فام بچّے کو دودھ پلا رہی تھی۔ سکتے کے عالم میں وہ اس کی طرف دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ ہزاروں برس سے سفید فاموں کے ہاتھوں وہ ظلم کی چکّی میں پستے چلے آئے تھے۔ انہیں کیسے یقین آتا کہ یہ سچ ہے۔
پھر جب ایک لڑکی رونے لگی تو مجمع اس کے پیچھے رونے لگا۔ انتونیا ایڈم کو دودھ پلاتی رہی۔وہ روتے رہے، ایک قدیم سوگوار گیت گاتے رہے۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان نے پہچان کر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ تو ملکہ ہے‘ پھر تو مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب انہوں نے ملکہ کو سیاہ فام ایڈم کو دودھ پلاتے دیکھا تو پھر رو پڑے۔ انتونیا کو معلوم تھا کہ سرکاری ہرکاروں نے اسے ایک سیاہ فام بچّہ اٹھائے جنگل میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔ بات پھیل رہی تھی۔ دوسری طرف غم سے نڈھال بادشاہ کسی کو کچھ بتانے کے قابل نہیں تھا۔ وہ بگھی میں بیٹھا اور محافظوں کو واپس محل جانے کا حکم دیا۔ محل میں داخل ہو کر وہ اپنے کمرے کے بجائے ایک گہرے تاریک کمرے میں بند ہو گیا۔
بات پھیلتی چلی گئی۔ صبح بادشاہ کے جرنیلوں نے اس سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو انہیں اسی تاریک کمرے میں بلایا گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کے چہرے پر کسی بیماری کا اثر ہوا ہے اور تندرستی سے پہلے روشنی میں آنا منع ہے۔ بڑے جنرل نے بادشاہ سے ملکہ اور اس سیاہ فام بچّے کے بارے میں پوچھا۔ بادشاہ نے کہا کہ ملکہ ایک خاص مشن پہ گئی ہے، لوٹ آئے گی۔ حیرت زدہ جنرل نے اسے بتایا کہ تمام چوکیوں سے سیاہ فام جنگجو غائب ہیں۔ سیاہ فام باغی ایک جگہ اکٹھے ہیں، وہ سب سوگوار گیت گانے میں مگن ہیں۔ یہ بہترین موقع ہے کہ حملہ کر کے اس بغاوت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ شکستہ دل بادشاہ نے پوچھا: تو پھر ملکہ کا کیا ہوگا؟
دوسری طرف زندگی میں پہلی بار انتونیا روپوش باغی باشندوں کو قریب سے دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے اکثر کے جسم پر شدید تشدد کے نشان تھے۔ ان میں سے بے شمار اپنی اولاد سے جدا تھے۔ اکثر بچوں کے ماں باپ دنیا میں موجود نہیں تھے یا سرکاری زندانوں میں گل سڑ رہے تھے۔ ہزاروں برس سے ریاست ان پہ ظلم کے پہاڑ توڑتی چلی آ رہی تھی۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ملکہ ان میں موجود ہے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ملکہ ایک سیاہ فام بچّے کو دودھ پلاتی ہے۔ وہ تو صرف اتنا چاہتے تھے کہ انہیں بھی جیتے جاگتے انسانوں میں شمار کر لیا جائے۔ ملکہ نے ایک سیاہ فام بچّے کو دودھ پلا کر انہیں خرید لیا تھا۔ اب اگر وہ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح بھی کر دیتی تو وہ اُف نہ کرتے۔
انتونیا مخمصے کا شکار تھی۔ وہ ریاست واپس نہ جا سکتی تھی کہ سیاہ فام ایڈم کو کوئی قبول نہ کرتا اور اسے ملکہ کے منصب سے فوراً معزول کر دیا جاتا۔ فنونِ حرب میں وہ ماہر تھی۔ سفید ایڈم کی موت کے بعد وہ جس صدمے سے گزری تھی، اس نے اس کی سوچ میں گہرائی پیدا کر دی تھی ورنہ خون تو اس کا جوش مار رہا تھا کہ سیاہ فام ایڈم کو اپنا پہلوٹھی کا بیٹا بنا کر ایک بار پھر میدان میں نکلے اور سب کو شکستِ فاش سے دوچار کرے۔ نفرت کے اس کھیل سے مگر حاصل کیا ہوتا؟ (جاری)