"FBC" (space) message & send to 7575

سفید ماں…… (2)

یہ انتونیا کی کہانی ہے۔ ایک قبائلی سردار کی بیٹی، جس نے ہزاروں برس سے اپنے قبیلے میں قائم مردوں کی برتری ختم کر ڈالی تھی۔ پھر الاگیر کا نوجوان بادشاہ اس پہ مر مٹا تواس شرط پہ وہ اس کی ملکہ بنی کہ گاہے شاہی پروٹوکول کے بغیر وہ اس کے ساتھ جنگل جایا کرے گا۔
نواحی جنگل میں ہزاروں سیاہ فام باغی روپوش تھے لیکن جنگجو انتونیا کی ضد پرکبھی کبھار سلطان تنہا اسے محفوظ مقام تک لے جاتا۔ یہی وہ دن تھے، جب انتونیاکا پائوں بھاری ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ہر رات وہ وہی خواب بار بار دیکھنے لگی، جس میں اس کے دودھیا بچّے کا رنگ سیاہ ہو جاتا اور پھر بھوک سے وہ بلکنے لگتا۔ اس نے اس خواب کو کوئی اہمیت نہ دی۔ بادشاہ سے اس نے کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام وہ ایڈم رکھے گی۔ 
ایڈم جب پیدا ہوا تو وہ بے حد بیمار تھا۔ شاید اسے جگر کی تکلیف تھی۔ گھنٹوں وہ بھوک اور تکلیف سے چیختا رہا۔ انتونیا اسے خود سے لپٹائے چومتی اور دودھ پلانے کی کوشش کرتی رہی۔ پندرہ گھنٹے بعد بھوکا پیاسا ایڈم ماں کی آغوش میں دم توڑ گیا۔ زندگی میں پہلی بار انتونیا نے ایک انتہائی خوفناک شکست کا مزہ چکھا۔ وہ کئی گھنٹے تک چیختی رہی اور چیخ چیخ کر بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش میں آئی تو دوبارہ چیخنے لگی۔ چھتیس گھنٹے گزر چکے تھے اور ایک قطرہ پانی انتونیا کے حلق سے نہ اترا تھا۔ نوجوان بادشاہ بے بسی سے اپنی ملکہ کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہا تھا۔ بے ہوشی کے مختصر وقفوں کے علاوہ آٹھ دن مسلسل وہ جاگتی رہی۔ وہی مائع غذا ملکہ کے جسم میں جا سکی، جو بے ہوشی کے دوران اسے پلا دی جاتی۔ طبیب نے کہا کہ انتونیا کو کھلی فضا میں منتقل کیا جائے۔ نڈھال ملکہ جب بگھی میں سوار کی جانے لگی تو سورج کی روشنی محسوس کر کے پہلی بار اس نے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا گھوڑا لایا جائے۔ یہ مشہور منہ زور گھوڑی کا بچہ تھا۔ انتونیا نے شاہی محافظین کو چلے جانے کا حکم دیا۔ پہلی بار ملکہ میں زندگی کی رمق نظر آئی تھی؛ چنانچہ بادشاہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلتا رہا۔ انتونیا نے گھوڑے کا رخ جنگل کی طرف موڑ دیا۔ ملکہ کی جان بچانے کے لیے سلطان کچھ بھی کرنے کو تیار تھا، گاہے جو پھر چیخنا شروع کر دیتی۔
وہ جنگل کے قریب پہنچے۔ یہی وہ وقت تھا، انتونیا کے حساس کانوں نے جب کسی بچّے کی آواز سنی۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ محض اس کا وہم ہے لیکن غمزدہ ماں پاگلوں کی طرح کھوجتی رہی۔ آخر اس نے اسے ڈھونڈ نکالا۔
ایک نوزائیدہ سیاہ فام بچّہ، جس کے ماں باپ مرنے کے لیے اسے ایک درخت تلے چھوڑ گئے تھے۔ سیاہ فام بچہ دیکھ کر انتونیا پہلے تو مایوس ہوئی۔ پھر بیٹھ کر خاموشی سے اسے روتا ہوا دیکھتی رہی۔ پھر اس کے دل میں پتا نہیں کیا آئی کہ آگے بڑھ کراس نے بچّے کو اٹھا لیا۔ بادشاہ نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔ یہ منظر اگر اس کا کوئی جنرل دیکھ لیتا تو بغاوت پھوٹ سکتی تھی۔ اس وقت ملکہ کے تاثرات اُس بچّے جیسے تھے، جس سے اس کا پسندیدہ کھلونا چھین کر کوئی دوسرا، ٹوٹا پھوٹا کھلونا تھما دیا گیا ہو۔
بچّہ جیسے انتونیا کی توجہ ہی کا منتظر تھا۔ وہ بھوکا نہیں تھا بلکہ زمین چبھنے کی وجہ سے رو رہا تھا۔ ملکہ کی گود میں آتے ہی وہ چپ ہو گیا اور انتونیا کی طرف دیکھنے لگا۔ انتونیا نے دیکھا کہ اس کی ناک اور ہونٹ بالکل ایڈم جیسے تھے۔ پہلی بار انتونیا کے دل میں کسی سیاہ فام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونے لگا۔ لیکن وہ ایڈم تو نہیں تھا۔ آخر مایوس ملکہ نے اسے واپس لٹا دیا اور سر نیہوڑائے گھوڑے کی طرف بڑھی۔ وہ پھر رونے لگا۔ بالکل ایڈم جیسی آواز! ملکہ پلٹ کر آئی اور پھر اسے اٹھا لیا۔ ملکہ کی حالت دیکھتے ہوئے بادشاہ خاموش ہی رہا۔انتونیا تھک چکی تھی۔ کچھ فاصلے پر انہیں ایک عمارت نظر آئی۔ چرواہوں کا ایک مقامی خاندان، بادشاہ کو دیکھ کر جس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ حیرت سے ملکہ کی آغوش میں موجود سیاہ فام بچّے کو دیکھ رہے تھے۔ پریشان بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اسے گود لے سکتے ہیں؟ انہیں ایک خطیر رقم سے نوازا جائے گا۔ انتونیا نے بچّے کو اب خود سے چمٹا رکھا تھا۔ملکہ بچّے سمیت برآمدے میں ایک آرام دہ کرسی پر نیم دراز ہو گئی۔ بادشاہ سستانے کے لیے اندر چلا گیا۔ کئی دن بعد چند لمحات کے لیے انتونیا کی آنکھ لگی تو ایک بار پھر وہی خوا ب۔ اسے ایڈم نظر آیا، دفعتاً جس کا رنگ سیاہ ہو گیا۔ یہ سیاہ فام بچّہ اسے یقین دلا رہا تھا کہ وہی اس کا ایڈم ہے۔ پھر جب وہ بھوک سے رونے لگا تو ملکہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جب سیاہ فام بچّے کواپنی گود میں دیکھا تو سوچنے لگی کہ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے۔ پھر اسے سب کچھ یاد آیا۔ اس نے دیکھا کہ سیاہ فام بچّہ حقیقتاً رو رہا ہے۔ اب وہ بھوک کی وجہ سے رو رہا تھا۔ وہی ایڈم جیسی آواز۔ نجانے کیوں، پہلی بار اب انتونیا کو وہ خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس کے رونے کی آواز سے انتونیا کے سینے میں میٹھا میٹھا سا درد اٹھ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ اگر اس کا رنگ سفید کر دیا جائے تو بالکل ایڈم بن جائے۔
پہلی دفعہ انتونیا کا دل چاہا کہ بے چارے کو دودھ پلائے لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ پھر ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے ایڈم کو دیکھا۔اس کا رنگ سفید سے سیاہ ہوا۔ پھر وہ انتونیا کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا۔ اس نے کہا کہ وہ سیاہ رنگ میں اس کے پاس لوٹ آیا ہے اور اسے بھوک لگی ہے۔ پھر انتونیا کے پائوں پکڑ کر اپنی ماں سے وہ دودھ کی بھیک مانگنے لگا۔ انتونیا کی آنکھ کھلی تو اس نے سیاہ فام بچّے کو بھوک کی شدّت سے بلکتے ہوئے دیکھا۔ وہ تڑپ اٹھی۔ اسی وقت بادشاہ باہر نکل کر انتونیا کی طرف آیا۔ انتونیا کو سخت ناگواری سی محسوس ہوئی۔ پھر کئی دنوں سے جاگتی انتونیا پر خمار کا ایک اور حملہ ہوا۔ اب بچّے کے رونے کی آواز جیسے دور سے آ رہی تھی۔ انتونیا نے خمار سے بھرپور نظریں اٹھا کر بمشکل بادشاہ کی طرف دیکھا۔ نجانے وہ کیا کہہ رہا تھا۔ وہ مشکل سے اٹھی اور گرتے گرتے بچی۔کچھ دیر کھڑی وہ سوچتی رہی۔ پھر بادشاہ سے اس نے پوچھا: کیا ان چرواہوں کے پاس ایسی کوئی بکری ہے، حال ہی میں جس کا میمنا مر گیا ہو؟
حیرت زدہ بادشاہ نے چرواہوں کو آواز دی۔ ایسی ایک بکری موجود تھی۔ لڑکھڑاتی ہوئی انتونیا نے کہا کہ ایک طریقہ ہے، جس سے بکری کا دودھ سیاہ فام بچّے کو پلایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے انتونیا کو بکری سمیت ایک کمرے میں بند کر دیا جائے۔ وہ حیرت سے اس کی بات سنتا رہا۔ پھر اس نے انہیں کمرے میں بند کر نے کا حکم دیا۔ چند منٹ بعد بچّے کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔کچھ دیر بادشاہ سوچ میں گم رہا۔ پھر دفعتاً وہ دبے قدموں آگے بڑھا اور اچانک دروازہ کھول دیا۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ انتونیا بچّے کو اپنا دودھ پلا رہی تھی بلکہ وہ تو سیر بھی ہو چکا تھا اور اب انتونیا سے لپٹ کر سو رہا تھا۔ کئی دنوں سے جاگی ہوئی انتونیا بھی سکون سے سو رہی تھی۔ پھر کھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
بادشاہ نے حیرت سے ملکہ کو دیکھا۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ اب پہلی بار وہ مکمل ہوش و حواس میں تھی۔ وہ تیزی سے کھڑی ہوئی۔ ایک چست و چالاک ماں، جس کا بچّہ خطرے میں ہو۔ سرکاری ہرکارے کسی بھی وقت انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ سکتے تھے۔ ملکہ جانتی تھی کہ اس کا شاہی مرتبہ چھن چکا ہے لیکن وہ انتونیا تھی، شاہی مرتبے کی اسے پروا ہی کیا تھی۔ سیاہ فام بچّے نے اس کے بدن میں ایک نئی زندگی پھونک دی تھی۔ اس وقت انتونیا کے انگ انگ میں بجلی دوڑ رہی تھی۔ بادشاہ کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ انتونیا اپنے نئے ایڈم کو اٹھا کرتیزی سے باہر کی طرف لپکی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں