آپ نے دنیا میں ایک چیز دیکھی ہو گی کہ بہت امیر کبیر لوگ‘ مشرق سے مغرب تک جن کے کاروبار پھیلے ہوئے ہوں‘ مذہبی و روحانی لوگوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ کسی مسئلے میں پھنس جاتے ہیں، جب بیٹا خودکشی کی کوشش کرتا ہے، جب بیٹی کو اس کے سسرال والے تنگ کرتے ہیں، جب بیوی علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہے، جب حکمران اپوزیشن کے ہاتھوں زچ ہو جاتے ہیں تو اپنی تمام دولت و امارت کے باوجود وہ ایک عام آدمی کی طرح کسی روحانی شخصیت کے پاس حاضری دیتے ہیں۔ نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان سمیت، یہاں آکر سب حکمران ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ تو یہ صاحبانِ دولت و حشمت اس وقت ایک روحانی شخصیت کی تلاش میں نکلتے ہیں، جو ان کا مسئلہ سلجھا سکے۔ یہ الگ بات کہ روحانیت کا دعویٰ کرنے والوں کی عظیم اکثریت بھی بندگانِ درہم و دینار پہ ہی مشتمل ہوتی ہے۔ دعویٰ تو ہوتا ہی باطل ہے۔
خیر بات یہاں نہیں رکتی بلکہ بڑے بڑے امیر کبیر لوگوں کے دل میں بھی کبھی ایک ہوک اٹھتی ہے کہ کاش ہمارا بھی خدا سے تعلق ہوتا، ہم بھی صوفی ہوتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوفی بننے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صوفی بننے سے دنیا بھر کی نعمتیں آپ کو حاصل ہو جائیں گی؟ دولت مل جائے گی، اولاد فرماں بردار ہو جائے گی؟ آپ کو بے انتہا عزت حاصل ہو جائے گی؟ آپ کی صحت مکمل طور پر ٹھیک ہو جائے گی؟ آپ کا تمام وقت مکمل سکون بلکہ مسرت میں بسر ہو گا؟ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے ایک دفعہ میرا تعلق استوار ہو گیا تو میں تمام آزمائشوں سے مبرا کر دیا جائوں گا؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ فرض کریں ایک پوری ریاست میں سے ایک جوان منتخب کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ جوان ملکی اداروں میں سے سب سے بڑا جنگجو ہے۔ اب لوگ آپ کی بات کب مانیں گے؟ لوگ تب مانیں گے، جب وہ جوان جنگ میں اترے گا۔ جب وہ موت کا سامنا کرے گا۔ جب وہ بھوکے پیٹ بارہ بارہ گھنٹے لڑے گا۔ جب وہ بغیر سوئے ایک ہفتہ گزار دے گا۔ پاک فوج میں جن لوگوں کو نشانِ حیدر دیے گئے ہیں، وہ انہی کارناموں کی بنیاد پر دیے گئے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ تو ملک کا سب سے بڑا جنگجو جوان ہے، اسے حفاظت سے رکھنا ہے۔ اسے سونے کے تاروں سے بنا ہوا لباس پہنا کر ملک کے سب سے لگژری ہوٹل کے آرام دہ بستر پہ سلا کر اوپر سے اے سی چلا دو کہ اس کی حفاظت ہوتی رہے تو کون اسے جنگجو تسلیم کرے گا؟
آپ کو ایک اور زاویے سے سمجھاتا ہوں۔ رسالت مآبﷺ تمام مخلوقات میں‘ جنوں اور انسانوں میں سب سے مقدس تخلیق ہیں۔ اللہ آپؐ پر درود بھیجتا ہے اور فرشتوں کو بھی اس پہ مامور کیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آنحضرتﷺ کا دنیا میں وقت آسائشوں میں بسر ہوتا۔ آپؐ کی شان تمام مخلوقات بشمول فرشتوں پر واضح کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آپؐ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حالات میں سے مکمل سکون و صبر کے ساتھ گزرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ دنیامیں آپؐ کی مقدس حیات کا مطالعہ کریں تو کہیں شعبِ ابی طالب میں تین سال پورے معاشرے کے بائیکاٹ کا سامنا نظر آتا ہے۔ کبھی طائف میں آ پؐ پہ پتھر برستے ہیں، فقرے کسے جاتے ہیں، اذیتیں دی جاتی ہیں، جسمِ مبارک سے لہو بہتا ہے، آپؐ کے عزیز چچا کی لاش کا مثلہ کر دیا جاتا ہے۔ آغاز ہی یہیں سے ہوتا ہے کہ باپ اور ماں کا سایہ اٹھا لیا جاتا ہے۔
اس پر طائف کا عجیب ترین واقعہ دیکھیے۔ مجھے کہیں سے ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملی کہ کسی پیغمبر سے خدا نے پوچھا ہو کہ اگر آپ چاہیں تو بستی والوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟ پیغمبروں کو تو بتایا جاتا تھا کہ آپ کی قوم کی ہلاکت کا وقت آن پہنچا ہے۔ تو یہ ایک پیغام تھا، کائنات کی سب سے مقدس ہستیؐ کے لیے، جن پہ پتھر برسائے گئے تھے، جنہیں تکالیف دی گئیں، آپؐ نے اس پیغام کو بخوبی سمجھا اور عذاب نازل کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ صرف یہی نہیں، بعد میں آپؐ نے طائف کی خوفناک مصیبت کو فراموش کر دیا۔
حضرت ابراہیم ؑ کے بار ے میں قرآن کہتا ہے: اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں۔ فرمایا: میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ (ابراہیم نے) عرض کیا : اور میری اولاد میں سے؟ فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ (سورۃ بقرہ 124)۔ پہلی بات تو یہ کہ ابراہیم ؑ کو باقاعدہ آزمایا گیا۔ دوسرا انہیں بتایا گیا کہ آپ کی اولاد ساری کی ساری آپ کے رستے پر نہیں ہوگی، ان میں ظالم بھی ہوں گے اور اس پر صبر کے علاوہ اور کوئی چارہ ابراہیم ؑ کے پاس نہیں تھا۔
حضرت نوحؑ کا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب کر ہلاک ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یا اللہ تو نے تو کہا تھا کہ میرے اہل و عیال بچ جائیں گے، تو اللہ نے کہا کہ یہ بیٹا تیرے اہل و عیال میں شامل نہیں۔ حضرت نوحؑ نے اس پر معافی مانگی۔ حضرت نوح ؑ نے اسے بچپن میں اپنی گود میں کھلایا ہوگا۔ اس دوران دماغ میں خلیات کے درمیان کنکشن بن جاتے ہیں۔ جس سے انسان کے ذہن میں اپنی اولاد کی بے پناہ محبت موجزن ہو جاتی ہے۔ حضرت نوحؑ کے پاس یہ صدمہ برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
حضرت یعقوبؑ حضرت یوسف ؑ کی جدائی میں اتنا روئے کہ ان کی بینائی ختم ہو گئی۔ صبر کرنے کے سوا کوئی چارہ ان کے پاس نہیں تھا۔ حضرت ایوبؑ کی صحت مکمل طور پر تباہ ہو گئی مگر وہ صبر کرتے رہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کے فرزند نے آپؐ کی گود میں دم توڑا۔ آنحضرتؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ زبانِ مبارک سے مگر وہی کلمات ادا ہوئے جو خدا کو پسند تھے۔ آخری ایام میں‘ حضرت فاطمہؓ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں آپؐ کے پاس تشریف لائیں تو آپؐ نے ان کے کان میں فرمایا کہ جلد میں اس دنیا سے کوچ کرنے والا ہوں۔ یہ بھی فرمایا کہ میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔ آپؐ کو علم تھا کہ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ کربلا میں کیا ہو گا۔ کیسے خلافت ختم ہو گی اور ملوکیت قائم ہو جائے گی۔ کیسے ان کی امت اکثریت میں ہونے اور مالدار ہونے کے باوجود دنیا سے مار کھائے گی؛ حتیٰ کہ امام مہدی کا دور آپہنچے گا۔
تو جب پیغمبر آزمائشوں سے نہیں بچ سکے تو کیا کوئی صوفی یا ولی آزمائشوں سے بری ہو سکتا ہے؟ وہ بھی اس دنیا میں‘ جو عارضی ہے؟ جہاں انسان پیدا تکلیف سے ہوتا ہے، مرتا تکلیف میں ہے۔ ہاں! ایک بات ہے کہ زیادہ علم و یقین کی وجہ سے ان میں زیادہ صبر ہوتا ہے۔ آپ صبر کرنے کا تہیہ کر لیں تو آپ جلدی نارمل ہونا شروع ہوں گے۔ آپ جتنا اپنی تکلیف پر شکوے شکایات کریں گے، اتنا ہی آپ کے ذہن میں رنج بڑھتا چلا جائے گا۔ پھر آپ مستقل طور پر جذباتی کیفیت میں رہنا شروع ہو جائیں گے۔ جب جذبات کے کیمیکلز دماغ میں ریلیز ہونا شروع ہو جائیں تو یہ وہ کیفیت ہوتی ہے، جو منٹوں میں انسان کی تمام تر توانائی پی جاتی ہے۔ جتنی دیر بھی دماغ غصے یا کسی بھی جذباتی کیفیت کا شکار ہوتا ہے، اتنی دیر دماغ سخت تکلیف میں رہتا ہے۔
ایک بات ہے کہ جس شخص کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے، وہ بہترین طریقے سے صدمات سے باہر نکل آتا ہے۔ یہ وہ state ہے، جو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے اوپر بھی ساری زندگی نگران رہنا پڑتا ہے۔