"FBC" (space) message & send to 7575

سفید ماں…(1)

''سفید ماں؟‘‘ اُس نے حیر ت سے کہا، ''تم سفید ماں کو نہیں جانتے ؟‘‘
میں واقعتاً لاعلم تھا؛ چنانچہ خاموش رہا۔ اس وقت ہم سب سے بلند چوٹی پہ موجود تھے، جہاں بادل ہمارے رخسار چھو رہے تھے۔ کچھ دیر وہ سوچتا اور مسکراتا رہا۔ پھر اس نے کہا ''دنیا بھر کی طرح سویت ریاستوں میں بھی غلاموں کی خرید و فروخت ہمیشہ جاری رہی؛ تاآنکہ انیسویں صدی کے وسط میں الیگزینڈر II نے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ '' سفید ماں‘‘ کا دور اس سے ایک صدی پہلے کا ہے۔ اس لڑکی کا نام انتونیا تھا۔ وہ سویت ریاست الاگیر کے نواح میں آباد ایک قبائلی سردار کی بیٹی تھی۔ قبائلی رسم و رواج کے مطابق لڑکیوں کو گھڑ سواری سمیت دیگر جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا تھا۔ انہیں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ انتونیا کی پیدائش کے دوران پیچیدگی پیدا ہوئی۔ طبیب نے سردار کو بتایا کہ اس کی بیوی دوبارہ ماں نہ بن سکے گی۔ سردار اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا؛ چنانچہ اولادِ نرینہ پر اس نے صبر کر لیا تھا۔
انتونیا غیر معمولی حد تک ضدی تھی۔ اپنی بات بہر صورت وہ منوا کے رہتی۔ وہ چار برس کی تھی، سردار کے اصطبل میں جب ایک قیمتی گھوڑی لائی گئی۔ تین ماہ کے ایک ننھے گھوڑے کی ماں‘ یہ گھوڑی بہت منہ زور تھی۔ بڑے بڑے شہسوار آئے لیکن کاٹھی کوئی نہ ڈال سکا۔ سردار اسے خدام سے الجھتا ہوا دیکھتا تو ہنس پڑتا۔ دودھیا سفید رنگ کی یہ گھوڑی اور اس کا بچہ انتہائی خوبصورت تھے۔
انہی دنوں انتونیا نے ننھے گھوڑے کو دیکھا تو اس پہ مر مٹی۔ وہ اسے اپنے ہاتھ سے چارا کھلاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میں گاڑھی چھننے لگی؛ حتیٰ کہ ننھے گھوڑے نے اسے خود پہ سوار ہونے کی اجازت دے دی۔ انہی دنوں وہ واقعہ رونما ہوا، پہلی بار جب انتونیا کا غیر معمولی پن ظاہر ہوا۔ ایک دن اصطبل سے چیخنے کی آوازیں آئیں۔ سردار خدام کے ہمراہ بھاگ کر اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ انتونیا اس انتہائی اکھڑ گھوڑی پہ سوار ہے۔ ششدر سردار نے دیکھا کہ ایک ایک قدم وہ احتیاط سے اٹھا رہی ہے کہ ننھی انتونیا گر نہ جائے۔ پیچھے پیچھے ننھا گھوڑا چھلانگیں لگاتا آ رہا تھا۔ سب دہشت زدہ تھے۔ زیرک سردار نے تب ہاتھ بلند کیا۔ اپنے بچّے سے کھیلتے رہنے کی وجہ سے لڑاکا گھوڑی نے انتونیا کو اپنے خاندان کا فرد تسلیم کر لیا تھا۔ اس وقت وہی تو انتونیا کی سب سے بڑی محافظ تھی۔انتونیا پھر نیچے نہ اتری۔ لڑاکا گھوڑی کو بھی اسے خود پہ سواری کرانے میں بہت لطف آتا تھا۔ پھرآہستہ آہستہ اس کی رفتار بڑھنے لگی۔ قبیلے والوں نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ ایک گھوڑی خود استاد بن کے کسی انسان کو گھڑ سوار بنا رہی ہے۔ استاد اور شاگرد دونوں غیر معمولی تھے۔
انتونیا آٹھ برس کی ہو چکی تھی۔ اب وہ جانتی تھی کہ لڑکیوں کی حیثیت کم تر سمجھی جاتی ہے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کے دل میں کیا طوفان اٹھ رہے ہیں اور کیسے وہ بغاوت کا عَلم بلند کرنے والی ہے۔ انہی دنوں گھوڑی کے ساتھ وہ ویرانوں میں جانے لگی۔ دس دس گھنٹوں بعد اس کی واپسی ہوتی۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اب وہ کس رفتار سے گھوڑا دوڑانے لگی ہے۔
انتونیا نو برس کی تھی، جب سال کا سب سے خاص دن آیا۔ اسے پہلوٹھی کا میلہ کہا جاتا تھا۔ اس دن بڑے شہسوار اپنے پہلوٹھی کے بیٹوں کو اپنے ساتھ گھوڑے پہ سوار کر کے دوڑ لگایا کرتے۔ جب گھوڑے بھاگے اور ہجوم تالیاں مارنے لگا تو یکایک نجانے کہاں سے ایک اجنبی گھوڑا بجلی کی طرح لپکا اور ریس میں شامل ہو گیا۔ سب چیخ اٹھے۔ یہ انتونیا تھی، جس نے بغاوت کر ڈالی تھی۔ اپنے آگے انتونیا نے روئی کا ایک گڈا بٹھا رکھا تھا۔ یہ اس کا پہلوٹھی کا بیٹا تھا!
انتونیا کا وزن نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی گھوڑی جیسی کوئی سواری پوری مملکت میں نہیں تھی۔ غیر معمولی سوار اور غیر معمولی سواری، دونوں کے دل میں ایک آگ بھڑک رہی تھی۔ وہ جیتنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ کس میں جرأت تھی کہ انہیں ہرا سکتا۔آسمان نے پہلی بار دیکھا کہ قبائلی عورتیں‘ مردوں کے خوف سے آزاد ہو کر، چیخ چیخ کر انتونیا کو پکارنے لگیں۔ پھر انہوں نے ایک اور عجیب منظر دیکھا۔ کم سن انتونیا اپنی گھوڑی سے چمٹ کر اس کے اوپر لیٹ گئی تھی کہ ہوا کی رکاوٹ کم از کم ہو۔ سوار اور سواری اب یکجان ہو چکے تھے۔ یوں انتونیا نے ان شہسواروں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ سردار حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ قدرے پریشان بھی تھا لیکن مسکرا رہا تھا۔ انتونیا سو بیٹوں جیسی ایک بیٹی تھی اور بیچارہ سردار اولادِ نرینہ سے محروم تھا۔
انتونیا آگے بڑھتی رہی۔ اگلے برسوں میں اس نے نیزہ بازی اور تیر اندازی سمیت سبھی فنونِ حرب سیکھ لیے تھے۔ ہر فن میں وہ غیر معمولی ثابت ہوئی۔
انتونیا قیامت خیز حسن کی مالک تھی۔ جب کسی بات پہ وہ زیادہ خوش ہوتی تو بے ساختہ ناچ اٹھتی۔ یہ فکر اسے کبھی لاحق نہ ہوئی کہ دیکھنے والے کیا کہیں گے۔ وہ بے ساختگی میں زندہ تھی۔ وہ اس قدر فیشن ایبل تھی کہ اس کا پہنا ہوا لباس فیشن بن جاتا۔جہاں تک سیاہ فام غلاموں کا تعلق تھا۔ انتونیا نے کبھی انہیں اس قابل ہی نہ سمجھا کہ ان پر غور کرتی۔ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی انہیں حقیر ہی سمجھتی تھی۔ وہ سترہ برس کی تھی، جب پہلی بار اس نے وہ خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بے حد خوبصورت بچہ اس کی گود میں رو رہا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور بھوک سے رو رہا ہے۔ میں اسے دودھ پلاتی ہوں۔ اتنے میں بچّے کا رنگ بدلنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ ہو جاتا ہے۔ وہ حیر ت سے اسے دیکھتی ہے۔ پھر وہ سیاہ فام بچہ آنکھیں کھولتا ہے اور کہتا ہے : میں ہی تمہارا بیٹا ہوں۔ میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ رونے لگتا ہے۔ یہاں انتونیا کی آنکھ کھل جاتی ہے اور حیرت سے وہ سوچتی رہ جاتی ہے۔
یہی وہ وقت تھا، جب الاگیر کا سلطان فوت ہوا۔ اس کے نوجوان شہزادے کی رسمِ تاج پوشی تھی۔ سرداروں سمیت سب قبائل کے ممتاز لوگ وہاں مدعو تھے۔ عین تاج پوشی کے دوران مشروبات لے جاتا ہوا ایک سیاہ فام غلام پھسل کر گرا۔ تمام مشروبات بہہ گئے۔ شاہی آداب کے رعب تلے دبے ہوئے مہمان خاموش رہے۔ انتونیا البتہ خود پہ قابو نہ رکھ سکی۔ وہ قہقہہ لگا کر اٹھی اور خوشی سے ناچنے لگی۔ بادشاہ کے دربار میں ایسی جسارت! حیرت اور خوف سے سب نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ پھر ناچتی ہوئی انتونیا خود بھی گیلے فرش پہ پھسل کے گری۔ پھر وہ ہنسی اور ہنستی چلی گئی۔ نوجوان بادشاہ مبہوت ہو کر اسے دیکھتا رہا۔ وہ اٹھ کر چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔ انتونیا کے قیامت خیز حسن اور بے ساختگی نے اسے گھائل کر دیا تھا۔
ہال میں اب مکمل سکوت طاری تھا۔ بادشاہ نے انتونیا سے کہا '' کیا تم میری ملکہ بنو گی؟‘‘ انتونیا نے نوجوان بادشاہ کو غور سے دیکھا۔ اس کی شکل اچھی لگی مگر پھر کچھ سوچ کر بولی ''عالم پناہ، کیا آپ ناچنا جانتے ہیں؟‘‘ کنفیوز بادشاہ بے اختیار ہنس پڑا۔ یوں انتونیا ملکہ بن گئی۔ شادی کے لیے اس نے ایک شرط عائد کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ آزاد روح ہے اور شاہی پروٹوکول کی کچھ خاص پیروی نہ کر سکے گی۔ جب اس کا دل چاہے گا، وہ تنہا سفر کیا کرے گی۔ بادشاہ کو اس کی تمام شرائط منظور تھیں۔
کبھی کبھی سیر کے لیے وہ پہاڑوں اور وادیوں میں تنِ تنہا نکل جایا کرتے لیکن حالات اب خراب ہو رہے تھے۔ مختلف سویت ریاستوں سے بھاگے ہوئے ہزاروں سیاہ فام غلام الاگیر کے نواحی جنگل میں روپوش تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ انتونیا کے بچپن کی اَن گنت یادیں اس خوبصورت جنگل سے وابستہ تھیں۔ انتونیا کے اصرار اور ہمت دلانے پر کبھی کبھار نوجوان بادشاہ اسے اس جنگل کے حتی الامکان قریب لے جایا کرتا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں