"FBC" (space) message & send to 7575

ذمّہ دار میں ہوں!

دہشت گردی کی لہر اٹھی اور آرمی چیف نے کراچی کا رُخ کیا۔ کور کمانڈر کانفرنس کے ایجنڈے اور صدر سے جنرل کیانی کی ملاقات نے چہ مہ گوئیوں کو جنم دیا؛حتیٰ کہ الیکشن کے التوا کی خبر گردش کرنے لگی۔سبب یہ تھا کہ دوسرے مسائل کے علاوہ کراچی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر ہتھیار تان رکھے ہیں ۔قانون کے نفاذ کی ہر کوشش سیاست کا شکار ہو جاتی ہے ۔ فوج نے صدر سے بات کی اوروہ پولیس پر برس پڑے ۔ بے سبب نہیں کہ الیکشن کے التوا اورفوجی مداخلت کا خدشہ بار بار اُٹھتا ہے ۔65برس کی مختصر تاریخ میں تین مرتبہ فوج آچکی ہے۔ سیاسی لیڈروں کے مختصر ادوار کے برعکس ،ہر مرتبہ دس بارہ برس تک وہ حکومت کرتی رہی۔ یہ قصہ الگ کہ اس کی آمد میں سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا دخل کتناتھاکہ مہم جُو کا پرجوش استقبال کیا جاتا۔بھول جائیے کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف فوج کو دعوت دیتیں اور ہر مرتبہ سیاستدانوں کا ایک گروہ فوجی اقتدار کا سہارا بنا۔نکتہ یہ ہے کہ تمام خرابی کا نقصان فوج اور سیاستدانوں کی بجائے عوام کو ہوا۔ زندہ رہنا ہے تو حل بھی بالآخر عام آدمی کونکالنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ فوجی مداخلت اگر خرابی کا سبب ہے اور یقینا ہے تو مستقل اس کا راستہ کیسے روکا جائے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جس بدحالی اور خوف کا ہم شکار ہیں ،کیا اس کا اختتام ممکن ہے ؟ اور کیسے ؟ ایک منطقی جواب یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک انہی حالات سے گزر کر سلامتی اور خوشحالی تک پہنچے ۔ دنیا کے کسی بھی خطّے میں ، کوئی بھی کامیابی جملہ انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ آج جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اور جن ایجادات نے ہماری زندگی سہل کردی ، وہ گزری نسلوں کی مشقت کے طفیل ہے ۔ تحقیق اور نتائج کو وہ آگے بڑھاتی رہیں ؛لہٰذا ان ممالک کی ہمیں پیروی کرنی چاہیے ، جہاں جمہوریت مضبوط ہے ، حکومت عوامی بہبود کو یقینی بناتی ہے ، ادارے اپنی حدود میں کام کررہے ہیں ،امن و امان قائم ہے اور معیشت مضبوط ہے ۔ پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں ۔پچھلی صدی میں دنیا کے 81ممالک میں فوجی مداخلت یا طویل فوجی حکومتیں قائم رہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران افریقہ کی دس ریاستوں میں فوجی حکمران برسرِ اقتدار آئے۔ شمالی کوریا سمیت کئی ایسے ہیں ،جن میں آج بھی فوج مقتدر ہے ۔مسئلہ صرف فوجی مداخلت کا بھی نہیں ۔ اختیارات ایک یا چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جانا ، جو احتساب سے بالاتر ہوں اور جو ذاتی مفادات کے تحت فیصلے کرسکیں ۔ فوج کے لیے اقتدارپر قبضہ کرنا آسان ہے کہ سویلین کی نسبت وہ بے حد منظم اور ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے ۔ حکم عدولی کا کوئی تصور فوج میں نہیں ہوتا۔پاکستان جیسی ریاست میں یہ اور سہل ہے کہ پیدائشی طور پر ایک کینہ پرور اور چھ گنا بڑا دشمن ہمارا پڑوسی ہے ، جس سے دفاع کے لیے انتہائی طاقتورفوج بنائی گئی ۔ یہ بھی کہ سویت یونین اور امریکہ ، دونوں عالمی طاقتوں کو ہمارے ہمسائے میں ایک ایک عشرہ جنگ لڑنا تھی ۔ سویت یونین کے تجربے میں امریکہ سمیت ساری دنیا کو پاکستان میں ایسی حکومت درکار تھی ، جو ان کی مکمل اطاعت کرے ۔ امریکہ کا تجربہ اور بھی کٹھن ہے کہ وہ واحد عالمی طاقت ہے ۔ جمہوریت کیا ہے اور آمریت سے افضل کیسے ہے ؟ اس کی بنیاد اس نکتے پر قائم ہے کہ ریاست کے شہری اپنے حکمران کا انتخاب خود کریں اور اسے ادنیٰ پائیں تو بہتر سے بدل دیں۔ ظاہر ہے کہ کسی قوم کی تقدیر کا فیصلہ ایک فرد نہیں کر سکتا۔ جن ممالک میں یہ تجربہ ہوا،ان میں سے اکثر تباہ ہوئے ۔مثلاً صدام حسین کا عراق۔ لیبیا جیسی کوئی ریاست تو شاید طویل ڈکٹیٹر شپ کی متحمل ہو ، جہاں معاشی حالات بہتر ہوں اور کوئی چیلنج درپیش نہ ہو،ہم ہرگز نہیں کہ معیشت ڈوب رہی ہے۔ 2800ڈالر فی کس آمدن کے حساب سے دنیا کی سوا دو سو ریاستوں میں ہم 173ویں نمبر پر ہیں ۔مزید زوال ہمیں افریقہ کی غریب اور بدقسمت ریاستوں کے ساتھ جا کھڑا کر دے گا، جو مکمل تباہی کا شکار ہیں ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ ایران کی فی کس آمدن تیرہ ہزار ڈالرہے ؛حتیٰ کہ بھارت کو ہم پر نو سو ڈالر کی برتری ہے۔ پچھلی ڈیڑھ دو صدیوں میں دنیا بدل گئی ہے ۔ آبادی ناقابلِ یقین رفتار سے بڑھی ہے ، غیر معمولی ایجادات ہوئی ہیںاور ایسے ہتھیار بنائے گئے ہیں کہ ہمارا چھوٹا سا سیّارہ تباہ ہو سکتاہے۔ اس کے سوا بقا کا کوئی راستہ نہیں کہ حکومت، عدالت، میڈیا ، فوج اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام ادارے ریاست کی تعمیر میں اپنا کردار اداکریں ۔ ہوسِ اقتدار تو رہے گی اور سیاست میں ادنیٰ و اعلیٰ وارد ہوتے رہیں گے تو کیا کیا جائے ؟ وہی جو چیف جسٹس کی معزولی پر ہوا تھا ۔ کچھ ذمہ داری مجھ پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ میں نے بہت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ حالات کا ذمہ دار میں خود ہوں اور سب خاموش لوگ۔ کیوں ہر خرابی کو ہم گوارا کرتے ہیں اور باہر نہیں نکلتے۔ہم لکھنے اور بولنے والے \"غیر جانبدار\"کہلانا چاہتے ہیں ۔ ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے ، رہنما نہیں ، کارکن کے طورپر ۔ اپنے لیڈروں پر ہم نظر رکھتے ہیں اور نہ غلطی پر احتجاج کرتے ہیں۔ ہر خرابی پر لاکھوں افراد احتجاج کریں تو کوئی ہمیں اُجاڑ نہ سکے گا۔ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو میں نے اچھی طرح پرکھ لیا ہے ۔ اب ایک موقع میں عمران خان کو دوں گا۔جس دن مگر اسے خیانت اور غلطی کرتا دیکھوں گاتو آواز بلند کروں گا۔ یہی ہم سب کو کرنا چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں