الیکشن تو یقینی ہو گیا لیکن اس کے بعد کی صورتِ حال پر ذرا غور کیجئے ۔ پچھلی حکومت میں پیپلز پارٹی ، نون لیگ، قاف لیگ ، اے این پی ، ایم کیو ایم اور شروع میں جمعیت علماء ِ اسلام ، سبھی شریک تھیں ۔ منصوبے کے مطابق اب نا مقبول پیپلز پارٹی کی جگہ نون لیگ کو لینی ہے لیکن پاکستان ایک اور پانچ سالہ واردات سہہ نہیں سکتا۔ جنرل کیانی اور جسٹس افتخار محمد چودھری رخصت ہو جائیں گے ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد امریکی امداد گرتی جائے گی اور حالات خراب تر ہوتے جائیں گے۔ شہباز شریف کا طرزِ حکومت گواہ ہے کہ نون لیگ کو حکومت ملی تو یہ ایک اور زرداری راج ہوگا ۔ اس مرتبہ فوج صبر نہیں کرے گی اور مارشل لا نافذ ہوگا۔ پسماندہ افریقی ریاستوں اور پاکستان کے علاوہ کون سا ملک ہے ، جہاں آج بھی فوجی مداخلت کا خطرہ موجود ہے اور عسکری اقتدار نے آج تک کسی کو کیا دیا ہے جو ہمیں دے گا؟ بربادی ہماری منتظر ہے ۔ جمہوریت ہی نہیں، اب پاکستان خطرے میں ہے۔ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے امورِ حکومت کس طرح چلائے اور پنجاب میں کیسا تماشہ ہوا؟ کرپشن کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو پیپلز پارٹی نے ساڑھے تین سو اور پنجاب حکومت نے کم از کم سو ارب روپے ضائع کیے۔ بجلی کا گردشی قرضہ بھی اتنا ہی تھا، جس نے معیشت کو چاٹ لیا ۔ ہر بحران میں ایک دوسرے کو تھام لینے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس مسئلے پر خاموش رہیں ۔ 2008ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے بارہ ارب ڈالر تھے اور آج بھی اتنے ہی توعالمی اداروں سے اُدھار لیے گئے 23بلین ڈالر کہاں گئے؟ ایک طرف تباہ حال معیشت ہے تو دوسری طرف الیکشن کے اغوا کی تیاری ۔ سندھ اور پختون خوا میں حکمران جماعتوں کی مرضی کا سیٹ اپ ۔ بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ 2008ء میں قاف لیگ سے جیتنے والے تمام افراد پیپلز کو سدھار گئے تھے کہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ پانچ برس مکمل ہونے پر انہوںنے اپوزیشن کا رخ کیا کہ نگران حکومت کی تشکیل میں اپوزیشن کا ایک کردار ہوتاہے ۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا انتخاب ارب پتی پراپرٹی ڈیلر کے حکم پر ہو اہے ۔ عالی جناب نے اب اب سکھ کا سانس لیا ہے ۔45اور 20بلین ڈالر کے منصوبوں کا شوشہ چھوڑنے والا یہ ملک کا امیر ترین آدمی احتساب سے خوفزدہ ہے ۔اس الیکشن میں مرضی کی نہیں تو کم از کم ایسی حکومت اسے درکار ہے جو اس کی طرف سے آنکھیں بند رکھے۔ صدر زرداری کے مستقبل سے مایوس ہونے کے بعد اب نون لیگ اس کی ترجیح ہے ۔ بعید نہیں کہ میڈیا پر اشتہارات کی بارش کرتا یہ آدمی الیکشن میں سو، دوسو ارب لٹا دے ۔میڈیاکو اشتہاردرکار ہیں، خواہ بھارتی فوج دے ۔ اخلاقیات کا تصور کوئی نہیں ،نہ ہی مندرجات کی درستی شرط ہے ۔ تحلیل شدہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بھی میڈیا کو خوب نوازا ۔ بہت سے اینکر اور کالم نگار ایک سے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں ۔ خاص طور پر وہ جو مقتدر جماعتوںکا مرثیہ تواتر سے پڑھتے رہتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کی رخصتی کے بعد امریکہ کے لیے کس سے معاملات طے کرنا آسان ہے ؟ دو مرتبہ آزمائے گئے نواز شریف سے یا عمران خاں ایسے سرپھرے سے جو ڈرون کے خلاف باقاعدہ دھرنے دیتا ہے ؟نواز شریف ! عالی جناب نے امریکی سینیٹر رابرٹ مینڈس سے ملاقات کے بعد گوادر بندرگاہ چین کو دینے کا فیصلہ غلط قرار دیا تھا ۔انہیں عرب ممالک ، خصوصاً سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل ہے ۔چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیر اعظم کی عمر صدی سے کچھ ہی کم ہے ۔ بزرگان اپنی بساط سے بھاری وزن اٹھا بیٹھے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کا پہلا امتحان یہ ہوگا کہ آخری دنوں میں نوازے گئے افراد کو وہ فارغ کر پاتے ہیں یا نہیں ۔ اس سے پہلے ان پرنکتہ چینی کا جواز نہیں لیکن چیف الیکشن کمشنرسرخرو ہو چکے اور نشان ِ امتیاز کے حق دار ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ میاں محمد نواز شریف کے سر پہ تاج سجانے کی تیاری مکمل ہے ۔ یہ نہیں کہ حکومت لازماً عمران خان کو سونپ دی جائے کہ نوجوان نسل ان سے مسحور ہے لیکن نواز شریف یا کسی اور کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ سازش سے حکومت ہتھیاکر پانچ برس ہمارے سینوں پر سوار رہیں ؟ کیا امید کا جواز کوئی نہیں ؟ 2008ء کے الیکشن میں منصوبہ قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت کا تھا لیکن نواز شریف عوام کی نظر میں مظلوم اور مقبول تھے اور جنرل کیانی نے پرویز مشرف سے تعاون نہ کیا ۔ نواز شریف وزیر اعظم بنتے اگر بے نظیر بھٹو قتل نہ کر دی جاتیں۔ میں نے عمران خان کا جلسہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ نون لیگ کا کارکن تھا۔ نواز مشرف معاہدے کاطعنہ دیا جاتا تو وہ جھگڑ پڑتا ۔ آخرمعاہدہ دکھا دیا گیااور نوازشریف نے تسلیم کیا کہ پانچ برس کا معاملہ طے ہوا تھا ۔ نوجوان کا دل ٹوٹ گیا۔ گھر بیٹھنے کی بجائے اس نے تحریکِ انصاف کا رخ کیا۔ ایک سوال اس نے پوچھا: کیا کوئی پڑھا لکھا نوجوان بغیر کسی جھجک کے نواز شریف کو اپنا لیڈر کہہ سکتا ہے ؟ میں خاموش رہا ۔ جلسے کے 95فیصد شرکاء نوجوان تھے۔ ابھی تک شفاف الیکشن میں کلیدی کردار عدلیہ کا ہے اور آنے والے دنوں میں فوج سب سے اہم ہوگی لیکن عمران خان الیکشن لٹنے سے بچانا چاہتے ہیں توانہی نوجوانوں سے امید ہے۔ عمران خان کی ہدایت کے مطابق اگر رضاکار گھر گھر کا رخ کریں تو بساط الٹ جائے گی ۔ عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پارٹی کے بعض افراد اورکچھ عزیز ہیں ۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ قومی اسمبلی کی ایک نشست یا پارٹی عہدے سے محرومی پر قیامت برپا کرنے کا کیا جواز ہے ؟ اگر وہ ملک بچانے کے لیے عمران خان کا ہاتھ بٹارہے تھے توکیا ایک عام کارکن کی حیثیت سے وہ کام نہیں کر سکتے؟ اس میں انہیں ذلّت محسوس ہوتی ہے؟ یہ تحریکِ انصاف کے پہلے الیکشن تھے اور بار بار اس عمل سے گزر کر ہی درست نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ دو تقاریب میں محترمہ فوزیہ قصوری کو میں نے عمران خان سے شکوہ کرتے دیکھااور مجھے دکھ ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال او ر تحریکِ انصاف کے لیے اپنی خدمات کی بنا پر فوزیہ قصوری ایسا مرتبہ رکھتی ہیں کہ اپنی تکریم کے لیے کسی پارٹی عہدے یا قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ۔ ان نازک حالات میں ایثار درکار ہے ۔ آنے والے دن بہت کٹھن ہیں ۔ اپنے محدود علم اور عقل سے انسان اندازہ لگاتا ہے ۔ ہو گاکیا، صحیح ادراک تو اس بزرگ و برتر ہی کو ہے جو تمام علم کا مالک اور عقل کا خالق ہے۔ پیپلز پارٹی نے ساڑھے تین سو اور پنجاب حکومت نے کم از کم سو ارب روپے ضائع کیے۔ بجلی کا گردشی قرضہ بھی اتنا ہی تھا، جس نے معیشت کو چاٹ لیا ۔ ہر بحران میں ایک دوسرے کو تھام لینے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس مسئلے پر خاموش رہیں ۔ 2008ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے بارہ ارب ڈالر تھے اور آج بھی اتنے ہی توعالمی اداروں سے اُدھار لیے گئے 23بلین ڈالر کہاں گئے؟ ایک طرف تباہ حال معیشت ہے تو دوسری طرف الیکشن کے اغوا کی تیاری