"FBC" (space) message & send to 7575

خود فروش، عقل فروش اور وطن فروش

الیکشن سر پہ ہے ۔دوسروں کی طرح مولانا فضل الرحمٰن بھی چاروں طرف نظر دوڑا رہے ہیں ۔مسلم لیگ نون؟ کچھ بن نہیں پاتا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی تو مخالف نقطہ نظر سے تعلق رکھتی ہیں اور نامقبول بہت ہیں ۔قاف لیگ گھلتی جارہی ہے ۔بالآخر نگاہیں جماعتِ اسلامی پہ ہی جا ٹکتی ہیں۔ التجا، غضب اوربے بسی ، سبھی تاثرات ان میں ابھر آتے ہیں لیکن حیا نہیں۔ حشر کے دن وہ گنہگار نہ بخشا جائے جس نے دیکھا تری آنکھوں کا پشیماں ہونا 2001ء میں امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو مشرف کی قیادت میں پاکستان اس کا ہم نوا تھا۔ افغانوں کا لہو بہہ رہا تھا اور بجا طور پر سب امریکہ مخالف جذبات میں جل رہے تھے ۔ تب مذہبی جماعتوں نے بلند آہنگ آواز میں احتجاج شروع کیا۔امریکہ مخالف جلسے جلوس ۔۔۔ مردہ باد، امریکہ مردہ باد ! اسی اثنا میں 2002ء کا الیکشن آپہنچا۔ متحدہ مجلس ِ عمل کی صورت میں مذہبی جماعتوں نے پاکستان کی تاریخ میں اپناسب سے بڑا اتحاد تشکیل دیا۔ الیکشن کے نتائج آئے تو دنیا بدل چکی تھی۔ دو صوبے فتح ہو چکے تھے اورقومی اسمبلی میں قاف لیگ کے 76 کے مقابلے میں ایم ایم اے کے 53ممبرا ن تھے۔وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایڑیاں رگڑی جاتی رہیں لیکن افسوس! ایک بھی بندہ جو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، اپنے گردو پیش ہی نہیں ، پورے معاشرے کو بدل ڈالتا ہے لیکن یہاں پہیہ الٹا گھومنے لگا۔ مولوی صاحبان کانِ نمک میں نمک ہو گئے ؛حتیٰ کہ بدنامِ زمانہ سترہویں ترمیم میں آسمان نے دیکھا کہ وہ تومشرف کے حواری تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کے اختیارات کو انہوںنے آسمان تک بلند کر دیا۔ ذاتی طور پر قاضی حسین احمد بہت نیک نام تھے لیکن مولانا فضل الرحمٰن ان کے کندھے پہ سوار ،اپنے عزائم پورے کرتے رہے ۔ مشرف کی بی ٹیم ۔۔۔یہ تھا ایم ایم اے کا دوسرا نام ! آخر عورتوں کے حقوق کے متنازعہ بل پر استعفوں کا اعلان ہوا۔انجام مگریہ تھا کہ قاضی حسین احمد تنہا مستعفی ہوئے اور وہ بھی اسمبلی کی تحلیل ہونے سے چند ماہ قبل ۔ ایم ایم اے کا خاتمہ ہوا اور جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائِ اسلام نے اپنی اپنی راہ لی لیکن اس طرح نہیں ،جیسے دو شریف آدمی اپنی راہیں جدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ تھی ۔ یہ اسلامی انقلاب تھا! اپنے آخری ایّام میں قاضی صاحب ،مولانا سے دوبارہ اتحاد کے لیے کوشاں تھے ۔ سیّد منوّر حسن البتہ ڈٹ گئے اور اس پر وہ تعریف کے حق دار ہیں ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف ، دونوں سے اگر بات نہیں بنتی تو مولانا سے اتحاد کے سوا جماعتِ اسلامی کے پاس چارہ کیا ہے ؟ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اقتدار ہی کامیابی ہے ؟ایک سطر میں خدا نے اصول بتا دیا ہے : نیکی اور بھلائی کے کام میں تعاون کرو ۔۔۔۔۔بھلائی کا وہاں کیا سوال؟ اقتدار کی قیمت پر بھی سیّد منوّر حسن مڑ کے نہ دیکھیں تو رہنما کہلائیں گے ۔ ہوسِ اقتدار سے جو بچ نکلا اورجماعتِ اسلامی کو گمراہی سے محفوظ رکھا۔ مولانا اب خالی نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں ۔ تھک ہار کے کبھی آسمان کی طرف بھی ! ان کا اصل کام تو معاشرے کی اصلاح تھا، نعرے البتہ بہت ، مردہ باد، امریکہ مردہ باد، منشور کا نام نظامِ مصطفویؐ، جلسے کانام اسلام زندہ بادکانفرنس ۔۔۔۔! دوسری جانب مذہب کے اندھے پیرو کار ہیں ، سر پہ عمامہ باندھ کے جنہیں کوئی بھی دھوکہ دے سکتاہے ۔ ان کا رہنما وہ ہے ، جس کی داڑھی ہو ، جو نماز پڑھتا ہو اور شلوار قمیض پہنے ۔ یوں مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک اسلام یہیں ختم ہوتاہے اور اسی تناظر میں آرٹیکل 62، 63کو دیکھا گیا۔ ارے بھائی، جس نے امورِ مملکت انجام دینے ہیں ،جس نے قوموں کی برادری میں تمہاری نمائندگی کرنی ہے، اس کی قابلیت تو دیکھو، ایمانداری تو پرکھو ۔ بے ایمانی ، ٹیکس چوری ، منی لانڈرنگ ، خفیہ اثاثے ، دہری شہریت ، جعلی ڈگری ،یہ کارنامے انجام دینے والے رہنما ہوں گے ؟ بلا سوچے سمجھے، جانچے بغیر پیروی کرنے والے اور مذہب کو ظاہری اعمال تک محدود کرنے والے عقل فروش ہیں ۔ سیکولر مخلوق بھی ہے ۔ان میں ایسے بھی ہیں ، جنہیں ملّا کی مجذوبیت اور جدید علوم سے دوری نے اسلام سے بدظن کر دیا ہے۔ وہ حیران ہیں کہ نت نئی سائنسی تحقیقات کے نتائج وہ تو نہیں، جو ملّا بتاتاہے ۔اسے تو یہ نہیں معلوم کہ سائنس او رمذہب کا ربط کیا ہے؟ہمارے زمانے کے عظیم استاد بتاتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں جب سائنسی تحقیق قرآن میں بیان کردہ حقیقت تک آپہنچے تو وہ اپنے حتمی انجام کو پہنچتی ہے۔اور اگر ایسا نہ ہو؟ اگر کبھی ایسا ہوا تو خدا کا علم انسان سے کم پڑ جائے گا ، جس کا مطلب یہ ہوگاکہ اسلام خدا تک پہنچنے کا رستہ نہیں اور ایسا کبھی نہ ہوگا۔ جنہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ کتاب چاہے 1400برس قبل نازل ہوئی تھی، وہ جدید سائنسی تحقیق سے متنازع نہیں ، وہ داڑھیاں ماپتے پھرتے ہیں ۔ ایک نے انکشاف فرمایا تھاکہ زمین پر روضہء رسولؐ کی موجودگی کی وجہ سے سورج زمین کے گرد گھومتا ہے ؛ حالانکہ یہ زمین ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے۔سورج تو اپنے سیاروں سمیت گلیکسی کے مرکز کی طرف بھاگ رہا ہے ۔ سیکولروں میں وہ ہیں ، جنہیں پاکستا ن کا ایٹمی پروگرام عالمی امن کے لیے خطرہ نظر آتاہے ۔ غیر ملکیوں کے سامنے پاکستان کے خلاف وعدہ معاف گواہ! وطن فروش! اور ہم میڈیا والے ہیں ، جو صرف وہ دکھاتے ہیں ، جس کی نقد داد وصول ہو ۔پیسہ ملتا ہو تو وہ پروگرام بھی نشر کیا جا سکتا ہے، جس کا معاوضہ امریکی حکومت ادا کرتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں، جو لفظ بیچتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو ہم نے بیچ ڈالا ہے۔ خود فرو ش ہیں ہم، خود فروش! مایوسی کی چنداں ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگ ہیں ، جو خاموشی سے جتے ہیں ۔ بھلائی کرتے ہیں،ایثار کرتے ہیں او رخاموش رہتے ہیں ۔ بتاتے بھی ہیں تو ایسے کہ گویا فرض ادا کیا ہو ۔ یہی وہ لوگ ہیں ، جن کے سر یہ معاشرہ قائم ہے۔ خدا انہیں آباد رکھے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں