کیا دھاندلی کا قصّہ فراموش کرتے ہوئے اب ملک کو درپیش سنگین مسائل کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے ؟ سسٹم میں موجود خامیوں (Flaws)کے باعث دوچار فیصد دھاندلی کو نظر انداز کرنا ہی ہوگامگر کراچی ؟ بلوچستان اور فاٹا پر بھی سوالیہ نشان ہیں ۔ انتخابی عمل اغوا ہونے کا مطلب عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار سے محروم رکھنا ہے ، جن سے مسائل کے حل کی توقع ہے ۔ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جمہوری انداز سے جدوجہد کرنے والوں کو جائز حق سے محروم کیا گیا ہے ۔ کراچی کے دیگر فریقوں کی طرح اگر وہ بھی سخت ترین احتجاج اختیار کرلیں تو کون ذمّے دار ہوگا؟ بادی النظری میں لگتا یہ ہے کہ جہاں جس کی پسند کا نگران سیٹ اپ تھا ،وہاں وہ کامیاب ہوا۔ مثلاً سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور پنجاب میں نون لیگ ۔ پنجاب میں لیکن کراچی جیسی دھاندلی ہرگز نہیں ہوئی ۔ پھر یہ کہ پیپلز پارٹی اور اس کے دوسرے اتحادی توبری طرح پٹ گئے ، ایم کیو ایم نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا تھا کہ فتح یاب ہوتی ۔تجزیہ نگار کراچی کے حالات کا سب سے زیادہ ذمّے داراسے ٹھہراتے رہے۔ وہ شہرِ قائد کی سب سے بڑی فریق اورملک کی سب سے منظم سیاسی جماعت ہے ۔ اگروہ ٹھان لیتی تو جرائم پیشہ وہاں کیسے پنپ سکتے تھے ؟ دوسرے الگ، مولانا فضل الرحمٰن بھی دہائی دے رہے ہیں۔اپنی پوری سیاسی زندگی میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ 2002ء کے انتخابات میں افغانستان پرامریکی حملے کے پسِ منظر میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے دو صوبوں میں حکومت سازی ہے ۔ قوم نے انہیں موقع دیا اور بھگت لیا۔ امریکہ کو پرویز مشرف کا اقتدار سازگار تھا۔مذہبی جماعتوں نے سترہویں آئینی ترمیم میں مشرف کا ساتھ دیا، جس کے بعد صدر منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا ۔ معصومیت سے ایم ایم اے کے لیڈران بتاتے کہ جواباً صدر نے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا۔مولانا سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ایسے وعدوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے ؟ ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا فوجی حکمران وردی اتار بھی دیتا تو صدر کی حیثیت سے کسی وقت بھی وہ اسمبلیاں تحلیل کر سکتا تھا۔ سیّد منوّر حسن بہرحال تحسین کے مستحق ہیں کہ شکست قبول کر لی لیکن جماعتِ اسلامی کو بچا لے گئے ۔ زرداری اقتدار نصف النہار پہ تھا کہ مولانا نے بھانپ لیا کہ پیپلز پارٹی عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنے گی ؛لہٰذا اپوزیشن کا رخ کیا۔ اے این پی کا خاتمہ ہو جانا تھا اور سرحد کی نون لیگ میں دھڑے بندی تھی ۔ ایک بار پھر مذہبی ووٹ اکٹھا کر کے ان کا ارادہ کم از کم پختون خواکو فتح کرنے کا تھا کہ تحریکِ انصاف آٹپکی اور سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اب نو ن لیگ سے انہوںنے ویسی ہی بات چیت شروع کی، جیسی زرداری حکومت سے کی تھی لیکن ابھی تک کچھ بن نہیں پایا۔ بلوچستان میں نون لیگ کے دوسرے اتحادی ان سے جان چھڑانے کی کوشش میں ہیں ۔ ایک اور زاویے سے غور کیجئے۔ عمران خان اب اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی وقت بھی اپنے حامیوں کو سڑک پہ لا کر نئی حکومت کو زچ کر دیں ۔ گنتی کے اپنے ارکان کے ساتھ پختون خوا میں حکومت سازی کی جعلی کوشش ہو یا دھاندلی کے خلاف چیخ پکار ، مخالفین کی ہر چال کا ہدف تحریکِ انصاف ہے ۔ کیا دھاندلی کے خلاف تحریکِ انصاف کا احتجاج سبوتاژ کرنے کے لیے مخالفین میدان میں اترے تھے کہ عمران خان ان سے نمٹتے رہ جائیں اور نون لیگ چین کی ڈفلی بجائے ؟ کیا وہ کسی کے اشارے پر بروئے کار ہیںیا پختون خو امیں حکومت سازی کا ہوّا کھڑا کر کے وہ اپنے سیاسی قد کاٹھ میں مصنوعی اضافہ کر رہے تھے کہ نہ صرف زیادہ وزارتیں پائیں بلکہ پختون خوا اوربلوچستان میں محدود سی نشستیں رکھنے والی اپنی پارٹی کو ایک قومی جماعت کی حیثیت دلا سکیں؟کون جانتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور اٹھتا ہے ۔ شفافیت جانچنے کے لیے ہر صوبے اور خاص طور پر کراچی کے چند متنازعہ حلقوں کا ہر صورت میں جائزہ لینا چاہیے ۔ عوامی مینڈیٹ چُرانے کی روایت کو کہیں نہ کہیں بہر حال ختم ہونا ہے ۔ایک منصوبے کے تحت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کچھ ’’ماہرین ‘‘یہ فرما رہے ہیں کہ کاغذ پر موجود انگوٹھے کے نشان کا نادرا کے سسٹم میں موجود ڈیٹا سے موازنہ بہت مشکل ہے اور غلطی کا احتمال بہت ہے ۔ یہ درست نہیں ۔ انگوٹھے کا نشان ایک طرف کہ وہ تو ساری عمر نہیں بدلتا ، جدید سسٹم سالہال سال میں بدل جانے والی شکل و صورت کو ایک پرانی تصویر کی مدد سے شناخت کر سکتاہے ۔ تحقیق ہونی چاہیے اور جس حلقے میں الزام غلط ثابت ہو ، وہاں خوامخواہ ہنگامہ اٹھانے والے پر بھاری جرمانہ عائد ہونا چاہیے ۔ جلد از جلد کہ منتخب قیادت توانائی کے بحران ،معیشت کی تعمیر اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی توانائی صرف کر سکے ۔