پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے بھارتی سازش ہونے کا انکشاف سرسری انداز میں سنا اور نظر انداز کر دیا۔ یقین ہی نہ آتا تھا۔ وعدہ معاف گواہ قسم کی مخلوق ڈھول پیٹتے پیٹتے ان گلی کوچوں تک ہمیں لے گئی تھی ، اجمل قصاب جہاں کبھی بستا تھا۔ ایک ایک نشانی ، ہر ثبوت نہایت مسرّت و انبساط کے ساتھ گھر کے بھیدیوں نے پیش کر دیا تھا اور وہ کوئی معمولی لوگ نہیں تھے۔امن کی بھاشا بولنے والے بڑے ہی مستند کاریگر۔ جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے معلوم ہوا کہ انکشاف کرنے والا بھارتی وزارتِ داخلہ کا وہ سابق افسر ہے جو انڈین پارلیمنٹ پر حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا رکن تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ میں ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے دوران یہ اعتراف سامنے آیا ۔ آزادی کی تحریکوں نے بھارت کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور حملوں کا مقصد مقبوضہ کشمیر سمیت آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے سخت قانون سازی تھا۔ غور کیا تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ایک مکروہ سازش کے تحت ایسے واقعات ، جو دو حریف ایٹمی ریاستوں کے درمیان ایک تباہ کن جنگ کا آغاز بن سکتے تھے ۔ مغربی سرحد پہلے ہی امریکی جنگ میں بہتے لہو سے سرخ تھی ۔ایسے میں ان واقعات سے خطے ہی نہیں ، پوری دنیا کا امن دائو پہ لگ سکتا تھا۔ ممبئی میں ہونے والی خوں ریزی کے دوران ہی روایتی طور پر انڈیا میڈیا نے پاکستان پہ الزام دھرنا شروع کیا ۔وقت وہ چنا گیا تھا ، جب پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی انڈیا ہی میں موجود تھے ۔ قدرتی طور پر ان کا رویہ بے حد معذرت خواہانہ سا ہو گیا تھا۔ پھر اجمل قصاب کی طرف سے یہ انکشاف سامنے لایا گیا کہ آئی ایس آئی ملوّث ہے۔وہی آئی ایس آئی ، جسے مغرب نے مطعون کرنا شروع کیا تو حیرت انگیز طور پر پاکستانی میڈیا کا ایک حصہ بھی ہم آہنگ ہوکر گیت الاپنے لگا۔ ممبئی حملوں کے فورا ًبعد بھارت کی طرف سے \"سرجیکل سٹرائیکس \"کی اصطلاح استعمال کی گئی اور میڈیا خوب جوش و خروش سے اسے دہراتا رہا \"ہاں ہاں ، سرجیکل سٹرائیکس!\" مراد یہ تھی کہ بھارتی جنگی طیارے پاکستانی فضائوں میں در آئیں گے اور دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے ۔ سابق امریکی صدارتی امیدوار جان مکین سینیٹرز کے ایک وفد کے ساتھ من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے بعد پاکستان تشریف لائے ۔ فرمایا کہ بھارتی وزیراعظم غصے میں ہیں اور پاکستان نے ممبئی حملوں میں ملوّث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو انڈین فضائیہ کا حملہ چند دنوں کی بات ہے ۔ یہ بھی کہ ایسی صورت میں امریکہ سے زیادہ امید نہ رکھی جائے ۔ انڈین آری چیف جنرل دیپک کپور نے بھی دھمکی دہرائی ۔بھارتی طیاروں نے ایک دومرتبہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بھی لیکن پھر رفتہ رفتہ سرجیکل سٹرائیکس کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی ، لہجے دھیمے پڑنے لگے اور پھر خاموشی چھا گئی۔اس سے زیادہ اور کیا؟ پاک بھارت تنازعات کے حوالے سے جس بات کا جواب نہیں دیا جاتا، وہ کشمیر ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کی مضبوط بنیاد برطانوی استعمار نے 1947ء ہی میں رکھ دی تھی ۔ پاکستان نے آنکھ کھولی تو بے رحم دشمن سامنے تھا، جو اس کی تحلیل کا خواب دیکھ رہا تھا۔ بجا طور پر پاکستان سمجھتا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ ناجائز ہے ۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت دو عوامل تھے : ہندو یا مسلم اکثریت اور علاقے کے عوام کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔ آج 65برس بعد غور کیجئے کہ آزاد کشمیر میں کتنے فوجیوں کی ضرورت ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سینا کتنی ہے ؟ آزاد کشمیر میں پاکستان کے خلاف ایسی مزاحمتی تحریک تو نہیں ، جیسی کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے خلاف ہے ؟ یہ بھی کہ 90ہزار انسان کس لیے قتل کر دیے گئے ؟ 1948ء میں جنگ ہوئی ، 1965ء میں ؛حتیٰ کہ 71ء میں یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ضد پر اڑجانے کے بعد مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی جنگ چھڑی تو بھارتی فوج ببانگِ دہل کود پڑی۔ پاکستان تقسیم ہو گیا لیکن غلبے اور انتقام کا بھارتی جنون ٹھنڈا نہ ہوا۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد روّیہ مزید جارحانہ تھا۔ یہ بقا کا سوال تھا اور جو چیز ترجیحات میں شامل ہو ، بالاخر وہ حاصل ہوتی ہے ۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے ۔ تب سے آج تک تین مرتبہ بھارتی فوج سرحد پہ آکھڑی ہوئی ، دھمکیاں دی گئیں لیکن جنگ پھر کبھی نہ چھڑی ۔ 11ستمبر2001ء میں امریکہ میں دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج کو اپنی ترجیحات بدلنا پڑیں ۔ اس عرصے میں بھارتی سرحد پر چند پاکستانی فوجی شہید ہوئے لیکن افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے پچاس ہزار پاکستانی شہید ہو چکے ہیں ۔ پاک بھارت تنازعات آج بھی جوں کے توں ہیں اور بقائے باہمی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے دونوں اطراف کے میڈیا اور بالخصوص سیاسی قیادت کو غیر معمولی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ابھی تو صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد وہاں امن قائم ہو سکا تو پاک فوج کی تمام تر توجہ ایک بار پھر مشرقی سرحد پہ ہوگی اور بجا طور پر ۔ جنرل پرویز مشرف نے بھار ت کے باب میں تمام تر لچک اور سمجھوتے کا مظاہرہ کر کے دیکھ لیا۔ بھارت سے تنازعات سلجھانے اور آگے بڑھنے کی خواہش سرآنکھوں پر اور یہی سلامتی کا راستہ ہے ۔ ایک دن دونوں ملک اسی طرف بڑھیں گے ۔ ایک دن وہ پر امن ہمسائے ہوں گے لیکن ابھی نہیں ۔ بھارت ابھی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ۔ ابھی مزید لہو بہنا ہے ۔ فی الحال پاک بھارت تعلقا ت میں کسی بڑی پیش رفت کی امید خام خیالی ہے ۔