"FBC" (space) message & send to 7575

الوداع

صدر ،چیف جسٹس اورآرمی چیف، جلد ہی تینوں بڑے الوداع کہہ جائیں گے ۔اخبارات اور ٹی وی میں کمالات گنوانے والے بھی ہیں اور نکتہ چیں بھی ۔ بعض کا ہنر ہی گالی ہے ۔ آج ایک اور کل دوسرے کو؛البتہ زمانے کے وہ وفادار ہیں ۔ کوئی مشتری ہو تو آواز دے میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں ہنر بیچنا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔ خود اپنے آپ کومارنا پڑتاہے ۔پھر اژدہے کی طرح پھنکارتی خواہشات باقی رہ جاتی ہیں اور بغیر روح کے ایک جسم ۔ پرویزمشرف نے فوج کو بے توقیرکر ڈالا تھا۔جنرل کیانی نے رفتہ رفتہ بڑی حکمت سے فوج کی کھوئی ہوئی تکریم اسے لوٹائی ۔ افسر شاہی سے فوجیوں کو واپس بلایا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پرویز مشرف کے ایما پر دھاندلی کی بجائے اس کی مزاحمت کی ۔ چیف جسٹس کی بحالی میں اُن کا ایک طاقتور اور مثبت کردار تھا۔ افغانستان کی امریکی جنگ میں انہوں نے فرض نبھایا ۔ امریکیوں کو مذاکرات پہ قائل کیا اور بھارت کی ڈولی افغانستان سے واپس بھجوادی ۔ پچھلے دور میں کئی مواقع ملنے کے باوجود مارشل لا نافذ نہ کرنا بھی جنر ل کیانی کا کارنامہ ہے ؛اگرچہ کچھ اور لوگ بھی اس پر داد کے خواہاں ہیں۔ سوات اورجنوبی وزیرستان میں فوج نے کامیاب آپریشن کیا۔ اندازہ یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کی کمر اب ٹوٹ چکی ہے۔ وہ شام کا رخ کر رہے ہیں کہ شیعہ حکمران سے نمٹیں ۔برسبیلِ تذکرہ، لطیفہ یہ ہے کہ شامی باغیوں کو اسلحہ اور مالی مدد دینے والی ہستی امریکہ بہادر ہے ۔ پاکستانی طالبان نامی فسادی شام میں امریکی حلیف ہیں ۔ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ شامی حکومت کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے ۔ روس بھی بشار الاسد پہ پدرانہ شفقت لٹا رہا ہے ۔ ایک لاکھ مسلمان شہید ہو چکے اور مسلم امّہ کی قیادت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھ میں ندامت کا ایک قطرہ بھی نہیں ۔ سب سے بڑی غلطی عام انتخابات میں کراچی کی لوٹ مار پر خاموشی ہے ۔ برائی روکنے کی بہرحال کوشش کرنی چاہیے ۔ ایک دن یہ بات پوری طرح عیاں ہو جائے گی کہ کراچی کی معروف ترین جماعت کی جیت دراصل جیت نہ تھی۔ ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کا ذمّے دار بھی بہرحال کوئی تو ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس بنچ نے مشرف کے پہلے مارشل لا کو جائز قرار دیا،چیف جسٹس اس بنچ کا حصہ تھے، لیکن ایک وقت آیا کہ فوجی آمر کے خلاف وہ تن کر کھڑے ہوگئے ۔ بغاوت کا علم انہوںنے اس وقت بلند کیا، جب حبس کی ماری مخلوق لو کی دعا مانگتی تھی ۔ پے درپے حکومتی فیصلوں کی چیف جسٹس نے مزاحمت کی اورقومی افق پر ایک ہیرو کی طرح ابھرے ۔ سٹیل مل اونے پونے بیچنے کا منصوبہ تھا ۔ سابق صدر فاروق لغاری کے فرزند اویس لغاری کو نجکاری کی وزارت سونپی گئی ۔سودا طے پاچکا تو عدالت رکاوٹ بن گئی ۔ (شواہد یہ ہیں کہ قومی ادارے ہتھیانے کے لیے بعض مگر مچھ ایک بار پھر تاک میں ہیں ۔ بظاہر رستہ صاف ہے لیکن ایسا ہوا تو نئی حکومت نتیجہ بھگتے گی )۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ پرویز مشرف کی قاف لیگ کے مقابل بری طرح ناکام تھیں۔ 2008ء کے عام انتخابات سے قبل یہ چیف جسٹس تھے جن کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ سے دوبڑے لیڈروں کی واپسی کا راستہ کھلا اور جمہوریت لوٹ آئی۔ لولی لنگڑی اور گونگی بہری جمہوریت ۔سلطانی جمہور کے لیے ابھی اور جدوجہد درکار ہے ۔ سپہ سالار کے پاس فوج اور ٹینک تھے مگر عوامی حمایت کے بل پر قاضی القضاۃ نے اسے پچھاڑ دیا۔ آمر کے قدم لڑکھڑانے لگے تو دخترِ مشرق لپکی اور این آراو طے پایا۔ آنکھوں میں حسین خواب سجائے،دونوں اپنے اپنے مہرے چل رہے تھے ۔ایک کو موت نے آلیا ‘دوسرا آج عدالتوں میں ہے۔ وکلا تحریک میں اعتزاز احسن کا چہرہ کیسا جگمگاتا تھا۔ طویل نظر بندی کے بعد آزادی نصیب ہوئی تو ایک نظم لکھ لائے تھے ۔ ریاست ہوگی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی ریاست تو ماں کے جیسی کیا ہوتی ، خود انہوںنے اپنا عہد توڑا اوریوسف رضا گیلانی کے وکیل بن کر چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوگئے۔ یوسف رضا گیلانی وہ ہیں ، ایفی ڈرین ، حج سکینڈل اور اوگرا کیس سمیت ہر کھرا ان کے گھر کی طرف نکلتاہے ۔یہ بھی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کئی متمول خاندان اربوں روپے کے قرض نادہند ہ ہیں ۔قوم کا پیسہ کب لوٹایا جائے گا؟ اربوں روپے ٹیکس چوری کی نذر ہوتے ہیں ۔ کیا یہ عام بات ہے؟ جہاں تک صدر زرداری کا سوال ہے ، کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ مسندِ اقتدار پہ تشریف فرما ہوں گے ۔یہ اعزاز بھی اس وطن کے حصے میں آنا تھا کہ سابق دور کے دونوں وزرائِ اعظم اپنے ’’شاندار ‘‘کارناموں کی وجہ سے ’’مثال ‘‘بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اب سندھ تک محدود ہے اور یہ بے سبب نہیں کہ وہ گورنر راج کی دہائی دے رہی ہے ۔ ہر شخصیت کی کہانی الگ ہے۔ عافیت اور سرخروئی کس کے حصے میں آئی ، یہ فیصلہ آپ خود کر لیجئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں