ہر حکومت میں ہر قیمت پر شامل ہونے کی بنیاد پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنا یا جاتاہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ وہ اپوزیشن کے تیور رکھتی ہے ۔ قاف لیگ ، پیپلز پارٹی اور اے این پی ، کتنی ہی جماعتیں برباد ہو گئیں لیکن ایم کیو ایم اسی شان سے فتح کا علم لہرا تی چلی آرہی ہے ۔ الزامات درست ہوں گے لیکن ہر حکمران جماعت نائن زیرو کیوں تشریف لے جاتی ہے ؟ ہاں وہ نہیں خدا پرست ، جائو وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز ، اس کی گلی میں جائے کیوں ؟ تحریکِ انصاف انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عید کے بعد تحریک اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس کا مطالبہ صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کا تھا ۔ٹیکسلا کے حلقہ پی پی 7کے صرف چھ پولنگ سٹیشنوں میں دوبارہ گنتی پر چوہدری نثار کی فتح شکست میں بدلنے کے بعد ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ سوفیصد جائز تھا ۔ دھاندلی سے مستفید ہونے والے ہی سچ کا سورج طلوع ہونے سے خوف زدہ ہوسکتے ہیں ۔عمران خان ٹھان لیں تو ملک کے طول و عرض میں احتجاج کی آگ بھڑکانے کی پور ی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بالآخر حکومت منتخب حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق پر مجبور ہو گی۔نتائج جوں کے توں رہے تو ٹھیک ورنہ ایک نہ ختم ہونے والا معرکہ شروع ہو جائے گا۔ اپنے آخری ایام میں بے نظیر بھٹو اگرچہ پرویز مشرف کے ساتھ سودے بازی کی وجہ سے طعنوں کا نشانہ تھیں لیکن پوری طرح انہیں معلوم تھا کہ عوامی امنگوں کو ایک حد سے زیادہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔ اسی لیے اپنا وزن انہوںنے معزول چیف جسٹس کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ صدر زرداری کا کرشمہ یہ ہے کہ ایک دیو قامت سیاسی جماعت پگھل کر ایک بونے کا روپ دھار چکی ۔ زوال کا یہ سفر جاری ہے ۔ پارٹی قیادت میں تبدیلی کے سوااب کوئی چارہ نہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ لگتاہے کہ بالآخر سندھ بھی ہاتھ سے جائے گا ۔ تب ایک عظیم الشان عمارت کے کھنڈرات باقی رہ جائیں گے ۔ اقتدار پاتے ہی نون لیگ تیزی سے نامقبول ہو تی چلی جارہی ہے ۔ روپے کی قدر گرنے سے غیر ملکی قرضہ بڑھ رہا ہے ۔ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد اس میں ایک عظیم الشان اضافہ ہوگا ۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے منہ میں 480ارب روپے ڈالنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ اسی طرح جاری و ساری ہے اور احتجاج شدت اختیار کر رہا ہے ۔ پانی کے وفاقی وزیر کا لب و لہجہ بدلتا جا رہا ہے ۔ دوماہ سے کم مدّت میں کم از کم تین میگا سکینڈل سامنے آچکے ہیں ۔ایم کیو ایم سے اتحاد کا معاملہ ایساہے کہ انتخابات سے قبل نون لیگ اس کا اشارہ بھی دے نہ سکتی تھی ۔ سوشل میڈیا پر نون لیگ کے حامی اب منہ چھپاتے پھررہے ہیں ۔ ایسا لگتاہے کہ انتخابی مہم کے نعروں اور اقتدار کے تقاضوں میں بہت بڑے تضادات ہیں ۔ اس سفر کا انجام کیا ہوگا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ علاقائی اور مذہبی سیاسی جماعتیں مصیبت کا شکار ہیں۔ 2002ء میں دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کے سرحد اور بلوچستان میں حکومت بنانے والی جماعتِ اسلامی کی قسمت میں اس بار قومی اسمبلی کی صرف 3سیٹیں ہیں ۔ باوجود اس کے کہ 2008ء کے الیکشن کا اس نے بائیکاٹ کر دیا تھااور اس کی قیادت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ شاید یہ اس کی تاریخ کی بدترین کارکردگی ہے لیکن اے این پی کے نصیب میں تو یہ بھی نہیں ۔ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست کے ساتھ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے ماضی ، حال اور مستقبل کو جانچ رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن ایسے بدقسمت ہیں کہ بروقت پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود خالی ہاتھ ہیں ۔ پختون خوا کی حکومت تحریکِ انصاف نے بنائی اور بلوچستان میں نون لیگ کے دوسرے اتحادی ان سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک تحریکِ انصاف کی بری کارکردگی پر ہے ۔ایم کیو ایم کراچی میں جیسے تیسے جیت تو گئی لیکن یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر آج وہاں شفاف الیکشن ہو سکیں تو تحریکِ انصاف اس کی جگہ لے سکتی ہے ۔ دوسری طرف اس کی قیادت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو بحران سے دوچار کرنے والی تحریکِ انصاف کا مستقبل بھی واضح نہیں۔ اس کی اٹھان کا سبب صرف اور صرف عمران خان کی بے پناہ ساکھ اور مقبولیت تھی ۔رفتہ رفتہ مفاد پرستوں کے ایک ٹولے نے اس جماعت کو اغو ا کر لیا ۔اپنے رشتے داروں کو ٹکٹ دلوانے کے خواہشمند لیڈروںنے پختون خوا اور کراچی میں جماعتِ اسلامی سے انتخابی اتحاد کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ایسا ہوتا تو تمام تر دھاندلی کے باوجود کراچی کی کئی نشستیں یہ اتحاد جیت سکتا ۔تحریکِ انصاف کے مستقبل کا انحصار پختون خوا حکومت کی کارکردگی پر ہے لیکن عمران خان کا انتخاب پرویز خٹک ہیں ۔ ان کا پہلا کارنامہ اپنے خاندان کی تین خواتین کو مخصوص نشستوں پر پارلیمنٹ میں داخل کرنا ہے۔ افسوس کہ پرویز خٹک کی قیاد ت میں تحریکِ انصاف قطعاً کوئی کارنامہ انجام دیتی نظر نہیں آرہی ؛البتہ آنے والے دنوںمیں عمران خان کو کچھ غیر متوقع ’’خوش خبریاں ‘‘ملنے کی توقع ہے۔ عمران خان اور ان کے حقیقی ساتھیوں کی 17برس کی محنت خاک میں ملنے کا خدشہ ہے ۔ قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی ناکامی اور انتخابی شکستوں کا سبق یہ ہے کہ اپوزیشن نہیں ، یہ حکمران جماعت کی کارکر دگی ہوتی ہے ، جو ا س کے مستقبل کا فیصلہ کر تی ہے ۔ یہ بھی کہ مصنوعی میڈیا کوریج کسی دم توڑتی جماعت کو نئی زندگی نہیں دے سکتی۔ پاکستانی سیاست ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ یہ بہت سے گھاگ سیاستدانوں کی سیاسی موت کا وقت ہے ، جس کے بعد نئی قوتیں جنم لیں گی۔ عوامی دبائو کے تحت بہتر کارکردگی یا تاریخ کے قبرستان میں ایک بے نام و نشاں لحد۔ نہ گورِ سکندر ، نہ ہے قبرِ دارا مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے