"FBC" (space) message & send to 7575

لیلۃ القدر کی تلاش

لیلۃ القدر کیا ہے ؟ ہزار مہینوںیعنی 83برس سے بہتر ایک ایسی مقدس رات جس میں خدا کا آخری پیغام نازل ہوا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کی زبان سے ایک بار سنا تھا کہ رمضان کا حاصل تو لیلۃ القدر ہی ہے ۔کیسے اس رات کو ہم پا سکتے ہیں؟ َ نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔ عام طور پر تلاش سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ پانچوں طاق راتوں میں خوب عبادت کی جائے لیکن ایک حدیث سے مجھے گمان ہوا کہ صحابہ کرامؓشاید واقعتاً اسے تلاش کیا کرتے ۔ ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ نے سوال کیا کہ اگر انہیں لیلۃ القدر مل جائے تو وہ کون سی دعا مانگیں؟ حضور ؐ نے فرمایا: االَّلھُم اِنک عفوً تحب العفو فَاعف عَنِّی۔ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ؛لہٰذا مجھے معاف فرما۔ ام المومنینؓ کے الفاظ پر غور فرمائیے ۔یوں لگتاہے کہ کسی شب کی بابت انہیں لیلۃ القدر ہونے کا زیادہ گمان ہو تا ۔ساری عمر قرآن و حدیث پر غور کرنے والے اور جدید ترین سائنسی تحقیقات سے واقف پروفیسر احمد رفیق اختر اس بارے میں ہمیشہ ایک اندازہ قائم کرتے ہیں ۔ سوال کیا تو انہوںنے بتایا کہ: 1۔ اس رات بادل ٹکڑیوں کی صورت میں آسمان پر موجود ہوتے ہیں ۔ 2۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی طاق رات کا امکان زیادہ ہوتاہے۔ 3۔لیلۃ القدر کے اگلے دن دوپہر سے پہلے تک سورج کی روشنی تو موجود ہوتی ہے لیکن تپش نہ ہونے کے برابر۔ 4۔ وہ بڑی پرسکون اور خاموش رات ہوتی ہے ۔ ایک خاص سکینت اللہ کے بندوں پہ طاری ہو جاتی ہے ۔اس لیے کہ سورۃ القدر کے مطابق فرشتے اور حضرت جبرائیلؑ اللہ کا اسمِ سلام لے کر زمین پر اترتے ہیں ’’تنزل الملا ئِکۃُ والروحُ فیھا باذن رَبِھم من کل اَمرِِ سَلام‘‘ سورۃ القدر میں خدا فرماتاہے : اس رات فرشتے اور روح (روح الامین یعنی حضرت جبرائیلؑ) اپنے رب کے حکم سے (زمین پر )اترتے ہیں ۔۔۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث کی روسے ثابت ہے کہ فرشتے کرّہ ارض کا رخ کرتے ہیں تو بادلوں کا ایک خاص کردار ہوتاہے ۔ قرآن میں لکھا ہے : یہ لوگ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادلوں کے سائے میں ان کے پاس اتر آئیں اورمعاملہ نمٹا دیا جائے؟ ۔۔۔۔(مفہوم) ۔ ایک واقعہ حضرت اسیدؓ کا ہے ، جن کی آواز کا عرب میں چر چا تھا۔ صحابہ کرامؓ بطورِ خاص ان کی تلاوت سننے کے لیے تشریف لاتے ۔ ایک بار اسیدؓ حضرت محمد ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ ان پر بیت گیا تھا۔ کہا: میں ایک میدان میں کسی کام میں مصروف تھا ۔اپنا گھوڑا میں نے باندھ رکھا تھا اور اس کے قریب ہی زمین پر میرا بچہ سور ہا تھا۔ اسیدؓ نے بتایا کہ وہ تلاوت کرتے جاتے تھے کہ آسمان پہ موجود بادل نیچے اترنے لگے ؛حتیٰ کہ وہ گھوڑے کے سر کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے سوچا کہ گھوڑا بدک گیا تو بچے کو نقصان پہنچ سکتاہے ؛چنانچہ خاموش ہوگئے ۔بادل دوبارہ بلند ہونے لگے اور آسمان کی طرف لوٹ گئے ۔ حضرت محمدؐ نے فرمایاکہ فرشتے تھے ، جو تلاوت سننے کے لیے اتر رہے تھے ۔ اگر تم خاموش نہ ہو جاتے تووہ تمہیں سلام (یا مصافحہ) کر کے ہی لوٹتے ۔ (مفہوم) پروفیسر صاحب کا خیال یہ ہے کہ نوری مخلوق ہونے کے ناتے فرشتے شاید الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بنے ہوتے ہیں ۔ بادلوں کی اوٹ میں وہ روپوش رہتے ہیں ۔معراج کے واقعہ میں نبی کریمؐ ایک تیز ترین سواری \"براق \"پر تشریف فرما ہو کر اللہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے تھے ۔ شاید ایسی سواریاں فرشتوں کے تصرف میں ہوتی ہیں ، جو سورج سے توانائی لیتی ہیں اور وقتی طور پر اس کی تپش کم ہو جاتی ہے ۔اس پر میں نے دو اعتراض جڑ دئیے ۔ کائنات تو کھرب ہا کھرب سورجوں سے بھری پڑی ہے اور سورج کی تپش اگلے روز دن چڑھے تک کم کیوں ہوگی ، جب کہ لیلۃ القدر گزر چکی ہوتی ہے ۔ پروفیسر صاحب نے بتایاکہ بے شک کائنات میں ان گنت سورج ہیں لیکن اس رات فرشتے نظامِ شمسی میں موجود ہمارے سورج کے قریب سے گزرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دن اور رات کا تصور تو ہماری زمین اور سورج کے گرد گردش کرنے والے دوسرے سیاروں کا ہے ۔ ان کا جو حصہ سورج کی طرف ہو ، اس پر دن ہوتاہے اور دوسری طرف رات لیکن جہاں تک خود سورج کا معاملہ ہے ،رات کا وہاں کیا تصوّر؟ وہ تو سراپا روشنی ہے ۔ پروفیسر صاحب کے خیال میں 22اور 23رمضان(جمعرات اور جمعے) کی درمیانی شب لیلۃ القدر تھی ۔ جمعرات کا دن جبرائیلؑ کے ساتھ مخصوص ہے اور جمعے کا خود اللہ تعالیٰ سے ۔ پھر وہ بتانے لگے کہ جو لوگ قرآن اور حدیث کا علم نہیں بھی رکھتے ، ان میں سے بعض اس رات کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں ۔ مثلاً کچھ کا دعویٰ ہے کہ اس رات کتّے بھونکتے نہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ درختوں کو سجدے میں دیکھا گیا ہے ؛حالانکہ درختوں کی عبادت کا طریقہ مختلف ہے ۔ ان کے سائے لمبے ہونے لگتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں پروفیسر صاحب کا نقطۂ نظر سو فیصد درست ہو۔ غلطی کا احتمال بہرحال رہتاہے ۔ خود ان کا طریق یہ ہے کہ دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف وہ بیان کر دیتے ہیں لیکن اپنی عقل اور علم کے مطابق غور وفکر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں