"FBC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ میں فتنوں کا راج

عراق ، مصر اور لیبیا کے بعد اب شام ۔ ایسا لگتاہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اب فساد اور فتنوں کا راج ہوگا۔ عالمِ اسلام میں تباہی نازل کرتے عفریت کا جسم عیسائی اور دماغ یہودی ہے ۔ عیسائیت اب یہودیت کی جنگ لڑ رہی ہے اور مسلم لہو اس ظلم کا کفّارہ ادا کر رہا ہے ، جو نصرانیوں نے بنی اسرائیل پہ کیا تھا۔ 65برس قبل حضرت محمدﷺ کو پیمبرماننے والوں کو اجاڑ کر اسرائیل آبادکیا گیا تو یہ خون بہا کی پہلی قسط تھی۔ وہ سر زمین ، فرعونِ مصر سے نجات کے بعد جہاں موسیٰ ؑ کو زچ کرڈالنے والے یہودی آباد ہوئے تھے ۔مصر میں اب مغرب کی سرپرستی میں فوجی وردی والے ایک جدید فرعون نے جنم لیا ہے ۔ اس بار وہ مسلما ن کہلاتاہے اور اس کا ہدف اپنی ہی قوم ہے ۔ بنی اسرائیل فلسطین کو اپنی ملکیت قرار دیتے رہے اوراسے پا کے دم لیا۔بعض عرب حکمران مصر کے بعد اب شام میں بھی امریکی ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں اور ان معرکوں کی مالی سرپرستی بھی ۔امریکی سربراہی میں مغرب دخل اندازی تب کرتاہے ،جب ریاست سیاسی عدم استحکام کا شکار اور حکومت نامقبول ہو ۔ بدقسمتی سے عراق،شام اور لیبیا جیسے ممالک میں شیطان کی آنت جتنی طویل آمریتیں رہیں ۔ اخلاقی جواز اور عوامی تائید سے محروم اور ظالم حکمران ۔ صدام حسین کی افواج نے ایران سے طویل جنگ لڑی اور کویت پر چڑھائی کی۔سب جانتے ہیں کہ امریکی سربراہی میں عراق کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا 36ارب ڈالر کا معاوضہ کس نے ادا کیا ؟صدام حسین جتنا نہیں لیکن بشار الاسد تنہا ہے ۔ عراق میں کٹھ پتلی امریکی حکومت ہے ۔ ترکی اس معاملے میں مغرب کے ساتھ ہے ۔ مصر میں مغرب نواز فوج دندنا رہی ہے ۔ آٹھ سال قبل لبنان نے موقع پا کر 29سال سے قیام پذیر شامی فوج کو اپنی سرحدوں سے نکال باہر کیا تھا اورخطے کا سب سے خطرناک کھلاڑی اسرائیل شام کی تباہی چاہتا ہے ۔ ہاں مگر مشرق سے مغرب تک پھیلا روس شام کا حمایتی ہے ۔2005ء میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دینے والی حزب اللہ کے ساتھ ایران بھی ۔ دونوں شام کی حمایت میں ہر حدعبور کرجانے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ ایرانی آرمی چیف نے شام پر حملے کی صورت میں اسرائیل کو جلا ڈالنے کا اعلان کیا اور ایرانی سیاسی قیادت نے اس کی توثیق کی لیکن ایران اور روس ، دونوں کی حدود ہیں ۔ ایران عالمی سطح پر تنہائی کا شکار اور اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے ۔ بشار الاسد کی جدائی کا زخم بہت ہی گہرا ہوگا لیکن طاقتور مغربی ممالک کو خود پر حملے کی دعوت نہیں دی جا سکتی ۔ روس نے اپنے جنگی بحری جہاز بحیرہ روم بھیجنے کا حکم دیا لیکن اندرخانے وہ اس محاذ پر اپنی شکست تسلیم کرتا نظر آرہا ہے ۔ بظاہر روسی خارجہ پالیسی بہت جارحانہ ہے لیکن زبانی حد تک ۔ دوسری طرف مغربی اتحادی ماضی قریب میں افغانستان ، عراق اور لیبیا سمیت کتنے ہی ممالک اجاڑ چکے ہیں ۔ گزرے برسوں میں خود پاکستان کس قدر سیاسی عدم استحکام اور بد امنی کا شکار رہا ہے ۔بے نظیر کا قتل ، برسوں پر محیط تحریک کے ذریعے چیف جسٹس کی بحالی اور جنرل مشرف کی رخصتی۔ ایک خفیہ خط ، جس کے ذریعے سیاسی قیادت نے پاک فوج کے خلاف امریکی مدد طلب کی اور جس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد فوجی اور سیاسی قیادت زہر آلود نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتی رہیں۔ طویل عرصے تک افغانستان کی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاتا رہا ۔ دہشت گردی کی برآمد کا الزام ، حقانی نیٹ ورک ، القاعدہ کے محفوظ ٹھکانے اور پاکستانی طالبان ۔نومبر 2011ء کو سلالہ میں دو درجن پاکستانی فوجیوں کی امریکہ کے ہاتھوں شہادت مگر بالآخر یہ ہمارا ایٹمی پروگرا م تھا، جس نے بڑے پیمانے کی جارحیت کا راستہ روکے رکھا۔ وہی ایٹمی ہتھیار، شمالی کوریا کی طرف سے جس کی دھمکی پر مارچ 2013ء میں امریکہ کو مشرق سے فرار ہونا پڑا۔ عرب ممالک کسی قسم کاایٹمی پروگرام نہیں رکھتے (اور شاید انسانیت کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں یہ ہتھیار نہیں ورنہ مغرب نہیں ، یہ ان کے باہمی جھگڑوں میں استعمال کیے جاتے )۔ اکتوبر 2001ء میں ملّا عمر کی حکومت گرانے کے بعد C-17طیارے افغانستان میں خوراک سے بھرے تھیلے گرارہے تھے ۔ یہ امریکہ کی طرف سے افغان عوام کے لیے دوستی کا پیغام تھالیکن رسولِ عربی ؐ کے ارشادات پہ غور کرنے والے دم بخود تھے۔ وہ اسے دجّال کی اس نشانی کے طور پر جانچ رہے تھے کہ ایک سرزمین پر وہ حملہ آور ہوگا تو ایک ہاتھ سے آگ اور دوسرے سے روٹی پھینکے گا(مفہوم)۔دجّال جو انسانیت کی تاریخ کا سب سے خطرناک فتنہ ہے۔بہت سی خدائی طاقتوں کے ساتھ ، وہ آدمیت کو روند ڈالے گا۔ موسموں اور آفات پر اختیار اور کلوننگ کے ذریعے ہمزاد کی پیدائش ۔ آثار اب مکمل ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب شام میں خرابی ہوگی تو تمہاری خیر نہیں ۔ مخاطب جزیرۃ العرب کے عوام تھے یا امتِّ مسلمہ ، دونوں صورتوں میں فسادہی فساد ہے ۔ اگر یہ وہی فتنہ ہے اور یہی لگتاہے تو کیا اب اسرائیل کو مدینہ منوّرہ کا قصد کرنا ہے؟ خدا کو کرّہ ارض پہ مسلمانوں کی برتری کا کوئی شوق ہے اور نہ حاجت لیکن اس چھوٹے سے سیارے کا ایک انجام اس نے لکھ رکھا ہے اور اس کے صادق پیمبرؐ نے داستان بیان کر دی ہے ۔ ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ظالم شامی حکومت اور انسانیت کا خون چوستے یہودی ایک دوسرے کا خون بہائیں۔ خدا قرار دیتاہے کہ بعض کو وہ بعض کے ذریعے دفع کر ڈالتاہے۔ ایسا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی ۔ ماضی میں اسرائیل سے جنگ لڑنے والے ایک ایک کر کے تباہ ہو رہے ہیں مگر خود اس کا انجام کتنا دور ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں