"FBC" (space) message & send to 7575

چورن فروش

ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے رجب طیب ایردوان نے غیر معمولی کارکردگی کی بنا پرکامیاب سیاست کی ۔ ترک لیڈر نے نہ صرف معاشی کارنامے انجام دئیے بلکہ عوامی مقبولیت کے بل پر سیاست میں دہائیوں سے دخیل فوج کے پر کاٹ دئیے ۔سیاسی قیادت کی اخلاقی ساکھ نے فوج پر ایسا رعب طاری کیا کہ سیکولر مظاہرین کی طرف سے طوفانِ بدتمیزی کھڑا کردینے اور سابق فوجی سربراہ کو عمر قید کے باوجود وہ دم سادھے بیٹھی رہی ۔یہ وہ وقت تھا، جب خطے کے کئی ممالک میں مظاہرین نے احتجاج کی آگ بھڑکائی تو امریکی سرپرستی میں مغرب انقلاب اغوا کرنے کے لیے آ دھمکا۔ایردوان کے لیے شدید اسرائیلی نفرت کے باوجود ترکی میں وہ ایسا کرنے کا خواب بھی دیکھ نہ سکا۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستا ن کے سیاستدانوں نے کامیابی کا آسان راستہ چنا ہے ۔ تعصبات کی آگ بھڑکا کر وہ معاشرے میں ایک گہری تقسیم پیدا کرتے ہیں اور متحارب طبقات میں سے ایک کے امام بن بیٹھتے ہیں ۔ یوں قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی شب رو ز کی مشقت سے چھٹکارا ملتا ہے ۔ خالی پیٹ اور خالی دماغ والی مخلوق انہیں کھل کھیلنے کا موقع دیتی ہے اور دولت کے ڈھیر وہ اکٹھے کر لیتے ہیں ۔یہ اور بات کہ ان میں سے بعض اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ میں جل مرتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن نسلی اور لسانی عصبیت کے بل پر بظاہر کامیابی کی نئی تاریخ رقم کر چکے تھے ۔ وہ ایک نئی ریاست کے معمار تھے ،حتیٰ کہ بنگالی قوم اور ’’آزادی‘‘کی جنگ میں انہیں اپنا ’’سپریم کمانڈر‘‘ قرار دینے والوں (بشمول جنرل ضیاء الرحمن) پر منکشف ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ صاحب طبعی موت سے محروم رہے ۔ جنرل ضیاء الرحمٰن حکمران بنے تو شیخ کے قاتلوں پہ دستِ شفقت رکھااور پھر اپنے ہی ماتحتوں کے ہاتھوں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ۔ شیخ اور جنرل کی انہی قربانیوں نے ایک کی بیٹی اور دوسرے کی بیوہ کو حقِ حکمرانی عطا کیا۔ پچھلے کئی انتخابات سے ایک بار شیخ حسینہ واجد اور دوسری بار خالدہ ضیا کو اقتدار پیش کیا جاتاہے ۔ اپنے خاندانوں کی عبرت انگیز ہلاکت کے باوجود دونوں خواتین اسی ولولے سے دادِ شجاعت دے رہی ہیں ۔ شیخ حسینہ واجد کا حالیہ پانچ سالہ دور مکمل ہو چکا اور انصاف کی بات یہ ہے کہ باری اب خالدہ ضیا کی تھی لیکن مجیب الرحمن کی بیٹی نے کمال چالاکی سے کام لیتے ہوئے قوم کے سامنے علیحدگی کی فلم چلا ڈالی ۔ پہلے پاکستان سے 1971ء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ معافی کا مطالبہ کیااور پھر پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو سزائے موت سے نوازنا شروع کیا۔ حسبِ توقع نتیجہ یہ ہے کہ قوم مکمل طور پر دو متحارب گروہوں میں بٹ چکی ہے ۔سالِ رواں کے اختتام یا 2014 ء کے آغاز میں ہونے والے انتخابات میں اب شیخ حسینہ واجد کی پوزیشن بہتر ہے لیکن کسی دن ان عظیم خواتین میں سے کسی ایک کی موت اسے آ لے تو حیرانی کی کوئی بات نہیں ۔ دو تازہ کھدی ہوئی قبریں اپنے مکین کا انتظار کر رہی ہیں ۔ بھٹو قوم پرست رہنما تھے ۔71ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کی فتح وہ تسلیم نہ کر سکے اور ملک پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا (اور انہوںنے جو کیا سو کیا) ، بعد میں بھٹو ازم خود ایک عصبیت بن کر رہ گیا؛حتیٰ کہ ان کے مخالفین کو ایک مصنوعی سیاسی قوت تشکیل دینا پڑی ۔آج کے پاکستان میں دائیں بازو کے وہ عناصر جو بھارت سے نفرت اور انتقام پر تلے ہیں ، چند ہزار کا مجمع اکھٹا کر کے بمشکل اپنا چورن بیچ پاتے ہیں ۔ لسانی، مذہبی اور صوبائی قوم پرستی کی بنیاد پر قائم جماعتیں البتہ اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔بعض مذہبی جماعتیں تو صرف ایک فرقے کے بل پر جی رہی ہیں ۔ انڈیا میں تو پاکستان مخالف انتہا پسند‘ ووٹ کے ذریعے مرکزی حکومت بھی تشکیل دے سکتے ہیں ۔ سودا ان کے پاس بھی وہی ہے کہ دشمن کو فنا کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اپنا رزق کماتاہے ۔ فوج کا حال یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی چیف انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی میں سیاسی کیرئیر شروع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم دشمنی کے یہ جراثیم دورانِ ملازمت ہی اس میں موجود رہے ہوں گے ۔آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل (ر) اطہر عباس کہتے ہیں کہ 2001ء میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد انڈین میڈیا نے اس قدر آگ بھڑکائی کہ معاملہ سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ پاک بھارت فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھیں ۔ ایک گولی چلنے کی دیر تھی اور بات پھر شاید ایٹمی ہتھیاروں پہ جا کر ختم ہوتی ؟برسبیلِ تذکرہ پرویز مشرف کی ساری ناکامیاں اور حماقتیں اپنی جگہ لیکن 2001ء میں صرف تین دن میں سرحد پر فوج کی تیز ترین تعیناتی ایک فوجی کارنامہ تھالیکن یہ ایک الگ بحث ہے ۔ جہاں تک پاک بھارت پرامن روابط کا تعلق ہے ، ایک لاکھ کشمیریوں کے قتل(اور ہزاروں گم شدگیوں، عصمت دریوں اور خودکشیوں ) نے ان کی بنیاد میں بارود بھر دیا ہے ۔پچھلے ڈیڑھ عشرے میں عوام نہیں ،یہ حکمران تھے ، جو اہلِ کشمیر کو بھول گئے (اقوامِ متحدہ میں نواز شریف کا حالیہ خطاب اس حوالے سے خوش آئند ہے )۔ دونوں ممالک کو ترقی اور خوشحالی درکا رہے تو عوامی دبائو کے تحت ایک دن دونوں طرف کے سیاستدان ایک دوسرے کے پاس امن کی بھیک مانگنے آئیں گے ۔فی الحال تو بھارت میں یہ انتخابات کا سال ہے اور بی جے پی کی انتہا پسند سیاست کی عوامی تائید نے کانگریس کو اس کی پیروی پر مجبور کر دیا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں