اخبارات میں ’’امیر المومنین ‘‘ملّا عمر کی شریعت کا چرچا ہے ۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کو پھانسی اورداڑھی نہ رکھنے والوں کوسرِ عام کوڑے ۔ نفاذ ِ اسلام ان کے نزدیک اسلامی سزائیں رائج کرنے تک محدود ہے ۔ تمام تر حماقتوں اور غیر انسانی سلوک کے باوجود، افغان طالبان کسی نہ کسی درجے میں نظریاتی ہیں ۔ کرتے وہی ہیں ، جسے ان کا ضمیر درست قرار دے ۔ پاکستانی طالبان بالکل ہی گئے گزرے ہیں ۔ کسی بھی اصول اور نظریے سے آزاد ۔ سوات اور وزیرستان میں ان کے مورچوں سے جو کچھ برآمد ہوااور موقعہ ملنے پر خواتین سے انہوںنے جو سلوک کیا ،اس کا ذکر تک نہیں کیاجا سکتا۔ دو فوجی آپریشنوں کے ذریعے ان کی کمر نہ توڑ دی جاتی تو پاکستان کے طول و عرض میں وہ انسانیت کو رسوا کرکے رکھ دیتے ۔ مولوی فضل اللہ کی طرف سے جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی ذمہ داری تحریکِ طالبان نے قبول فرما لی تھی ۔ ایک اسلامی ملک کی فوج اور حکومت کے خلاف یہ بغاوت اور فساد ہے۔ موت سے کم اس کی کوئی سزا نہیں ۔ تحریکِ طالبان کے ترجمان کا تازہ ارشاد یہ ہے کہ پشاور چرچ پرحملہ انہوں نے نہیں کیا لیکن تھا وہ شریعت کے مطابق۔دوسری طرف ہم حضرت محمدﷺ کو دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں کے وفد کو مسجدِ نبویؐ میں عبادت کی اجازت عطا فرما رہے ہیں ۔ میں اپنے نبی ﷺ کی پیروی کروں یا اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے ان وحشیوں کی؟ یہ لوگ اپنے مفاد سے متصادم کسی بڑی سے بڑی دلیل کو بھی قبول نہیں کرتے ۔ مذاکرات ضرورکیجئے کہ اتمامِ حجت ہو لیکن ان کی ذہنی کیفیت پیشِ نظر رہے۔ انوکھے لاڈلوں کی تازہ معصوم خواہش یہ ہے کہ جنگ بندی کے لیے ڈرون حملے روکنا ہوں گے ۔کیا وہ جانتے نہیںکہ اس نیک مقصدکے لیے انہیں براہِ راست امریکہ سے رجوع فرمانا چاہیے؟ سوات کے صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ کا تماشہ یاد آتاہے ۔ فروری 2009ء میں جنگ بندی کے بعد ، اپریل میں سابق صدر زرداری مالاکنڈ ڈویژن کے لیے نظامِ عدل ریگولیشن پر دستخط کر چکے تھے ۔ ابتدائی مطالبات تسلیم ہونے کے بعد فضل اللہ نے بینک بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ سود پر قرضوں کے کاروبار کے علاوہ ، بینک بہت سی جائز خدمات بھی انجام دیتے ہیں ۔ مثلاً صارفین کی مال و دولت کی حفاظت، دنیا بھر میں رقوم کی منتقلی اور درآمد و برآمد کنندگان کے درمیان ضامن کا کردار۔ پھر اسلام کا مطالبہ یہ تو نہیں کہ بچت اور سرمایہ کاری سرے سے ختم کر دی جائے ۔اس صورت میں تو معیشت کمزور ہوتی چلی جائے گی ۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ نفع اور نقصان ، دونوں میں سے سرمایہ کاروں کو حصہ دیا جائے۔ (یہ درست ہے کہ درحقیقت ہمارے اسلامی بینک بھی سود کا کاروبار کر رہے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نفع کی شرح گرادی گئی ہے اور چند ماہ بعد اس میں معمولی سا ردّو بدل کر دیا جاتاہے ۔ کبھی کھاتہ داروں کو غیر معمولی نفع ہوتا ہے اور نہ کبھی نقصان سے انہیں واسطہ پڑتا ہے۔ عملاًکم شرح سے سود ادا کرنے کو پاکستان میں اسلامی بینکاری کہا جاتا ہے )۔ فضل اللہ کامطالبہ مگرسود کا خاتمہ نہیں بلکہ سرے سے بینکاری ختم کر ڈالنا تھا اور وہ بند کر دئیے گئے ۔ بالآخر مئی 2009ء میں آپریشن راہِ راست کا آغاز ہوا ۔ فضل اللہ کا ترجمان مسلم خان گرفتار ہوااور خود وہ ذلیل و خوار ہو کر افغانستان فرار ہوا۔ اب مسلم خان کی رہائی تک وہ مذاکرات کا مخالف ہے ۔ اسی لیے جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف ملک اور بالخصوص سب سے اہم صوبے خیبر پختون خوا کی سیاسی اور مذہبی قیادت تعصبات، مفادات یا پاگل پن کی حد تک سادہ لوحی کا شکار ہے ۔صوبے میں میڈیا کے بعض اہم افراد بھی درپردہ انتہا پسندوں کی حمایت کر رہے ہیں ۔ عمران خان سوات اور وزیرستان آپریشن کی شدید مخالفت کرتے رہے ۔ان کے نزدیک حل بہت آسان ہے۔یہ کہ ڈرون حملے روک دئیے جائیں (یا گرا دئیے جائیں ) ، امریکی جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی جائے اور فوج قبائلی علاقوں سے نکل جائے ۔ اس نکتے پر غور کرنے کے لیے وہ سرے سے تیار ہی نہیں کہ 2014ء افغانستان سے امریکی انخلا کا سال ہے ۔ پاکستان کو اب امریکی واپسی کے بعد کی صورتِ حال کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ بارہ برس کی خوں ریزی کے اختتام پر عالمی طاقت سے خوامخواہ کی جنگ ان کے نزدیک ایک مذاق ہے ۔ان کی سفارشات پر عمل کیا جائے تو تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان رقم ہو گی۔ مذاکرات کے لیے چند سیاستدانوں کے اثر و رسوخ کا ذکر ہوتا رہا ہے ۔ 2002ء سے 2008ء کے درمیان ایم ایم اے کے دورمیں ان دہشت گردوں کو اپنے قدم جمانے کا موقع ملا ۔ جہاں تک نون لیگ کی حکومت کا تعلق ہے ، لگتا ہے کہ پھانسیوں پر عمل درآمد روک کرعملاً اس نے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریکِ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے ساتھ کسی امن معاہدے کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ مذاکرات کی پٹاری میں سے کچھ برآمد ہو بھی جائے تو پاکستان بھر میں کارروائیوں کی ،ان کی صلاحیت نہ صرف باقی رہے گی بلکہ وہ اس میں اضافہ کریں گے ۔وہ پھر فساد پھیلائیں گے کہ یہ ان کی فطرت ہے۔ آج نہیں تو کل ، جنگ لکھ دی گئی ہے اور فضا میں بارود کی بو ہے ۔ انشاء اللہ وہ ذلیل و رسوا ہوں گے اور قیامت تک ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا۔