"FBC" (space) message & send to 7575

اب کیا کرنا چاہیے ؟

دو کشتیوں کا سوار منزل پہ تو کبھی نہیں پہنچتا۔دوراہے پر ہم متذبذب کھڑے تھے کہ جنگ کا بگل بجنے لگا۔ میں جانتا ہوں کہ مذاکرات کی پٹاری سے کچھ برآمد ہونے کا نہیں تھا۔ پھر بھی افسوس ہوتاہے کہ فیصلہ پاکستان نہیں ، امریکہ نے صادر کیا لیکن ٹھہر جائیے۔ وہ سامنے ایک آیت لکھی ہے ’’ اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتاـ۔‘‘ واقعی، کوئی نہیں۔ ’’اوراگر اللہ بعض انسانوں کے ذریعے بعض کو دفع (ہلاک ) نہ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد کرتے ۔‘‘کوئی شک نہیں ۔ کوئی شک نہیں ۔ 12برس گزرے، جب اس شخص کو عالمی طاقت نے دھمکی دی تھی، چک شہزاد میں جو قید ہے اور جس کی رہائی کی کوششیں اب آخری مرحلے میں ہیں ۔ وہ شخص سر سے پائوں تک کانپتا ہوگا لیکن بہرحال اپنا اقتدار جاری رکھنے کے لیے اسے پاکستان کی بقا عزیز تھی۔ وہ جانتا تھا کہ امریکہ سامنے آنے والی ہر رکاو ٹ کو روند ڈالے گا۔ جنرل پرویز مشرف کا فیصلہ اگر غلط تھا تو آنے والی حکومتیں اسے بدل سکتی تھیں ۔ملکی مفاد کے برعکس دفاعی پالیسی پر فوج اپنے تحفظات حکومت کے سامنے پیش کر سکتی ہے ۔غلط حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کے لیے اپوزیشن موجود ہے ۔ وہ بھی نہیں تو جلسے جلوس۔ اسلام آباد میں لاکھوں افراد کا دھرنا حکومت کو امریکی اتحاد سے نکلنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ عدلیہ بحالی تحریک انہی اقدامات کے ذریعے کامیاب ہوئی ۔ کسی مسلّح گروہ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ بندوق کے بل پر خارجہ پالیسی ڈکٹیٹ کرائے ۔ اور اگر جذبہ ء جہاد ایساہی شدید ہے تو ذرا فاصلے پر وہ امریکی افواج موجود ہیں ، پوری دنیا کوجنہوں نے فساد سے بھر دیا ہے ۔ عالمِ اسلام کے اس دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تحریکِ طالبان اپنی خدمات ملّا عمر کو پیش کیوں نہیں کرتی ؟پھر اسلام میں ریاست کی اجازت کے بغیر جہاد کا کوئی تصور نہیں ، کجا یہ کہ کوئی فریق ریاست ہی سے نبرد آزما ہو جائے ۔ دورانِ جنگ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، بے گناہ اور غیر مسلّح افراد کا خون بہانے میں تحریکِ طالبان کو کوئی عار نہیں؛ لہٰذا اسلام تو دور کی بات ، وہ انسانی اقدار سے بھی تہی دامن ہے ۔ سچ یہ ہے کہ امریکی مخالفت یا نفاذِ اسلام نہیں ، تحریکِ طالبان کا ایجنڈا پاک سرزمین کو جرائم کی جنّت میں تبدیل کرکے اس پر اپنی حکومت قائم کرنا ہے ۔ کیا حکیم اللہ کا قتل امن کا قتل ہے ؟ مان لیتے ہیں ۔ جنرل ثنا ء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کس کا قتل تھا؟ حکیم اللہ محسود کی گردن امریکہ نے دبائی ۔ پاکستان توڈرون حملے رکوانے کے لیے اپنی تمام تر توانائی بروئے کار لا رہا ہے۔ دوسری طرف جنرل نیازی کے سانحے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان نے پوری ڈھٹائی سے قبول کی تھی ۔ حکیم اللہ محسود کی مرگ ایک قاتل اور فسادی کا قتل ہے اور اپنا انجام اس نے خود چنا تھا۔ولی الرحمٰن محسود تو مذاکرات کا حامی اور وزیر قبائل کے سربراہ ملّا نذیر پاکستان کے خیر خواہ تھے، حکیم اللہ کا دامن تو ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے داغدار ہے ۔ تنبیہ یہ کی جا رہی ہے کہ طالبان اب اور زیادہ شدّت سے کارروائیاں کریں گے ۔ کیا پہلے وہ رو رعایت سے کام لے رہے تھے ؟ مذاکرات پہ آمادگی کو انہوںنے ریاست کی کمزوری جانا اور اسے جھکانے کے لیے مزید شدّ ت سے حملے شروع کیے ۔ ہاں اتنا ضرور کہ زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری اب غیر معروف تنظیموں سے قبول کرائی جار ہی تھی ۔ وہ کس کو پاگل بنانا چاہتے ہیں ؟ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد عمران خان اب نیٹو سپلائی روک دینے پر مصر ہیں ۔ ان کی خد مت میں عرض ہے کہ یہ واپسی کا وقت ہے ۔ کیا وہ افغانستان سے امریکی انخلا روکنا چاہتے ہیں؟ امریکہ کو جانے دیجئے اور اس کے بعد کے منظرِ نامے کو سنواریے۔ ڈرون حملے ہماری خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کی مرگ لیکن وہ دہشت گردوں کو خوف زدہ اور ان کی نقل و حرکت محدود کر دیتے ہیں ۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ پنجاب کے شہروں میں دادِ شجاعت دے رہے ہوتے ۔ افغانستان کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے ۔ ہر فریق دہری چالیں چل رہا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکہ ۔ مثلاً افغانستان میں بھارت کیا امریکی اجازت کے بغیر ناچ رہا ہے اور کیا پاکستان پہ دبائو بڑھانے کے سوا بھی اس کا کوئی ہدف ہے ؟ حامد کرزئی نام کا ایک کارندہ گلے پڑنے لگے تو امریکی پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور لطیف اللہ محسود گرفتار کرلیا جاتاہے ۔ کرزئی حکومت کبھی ہمیں رام کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر امریکہ کا مقابلہ کرنے کابیان داغتی ہے اور کبھی انڈیا سے خطرناک اسلحہ خریدنے کی کوشش۔ پاکستان بھی اپنی چال چل رہا ہے لیکن اس پر بات کرنا مناسب نہیں ۔ ہمیں اب کیا کرنا چاہیے ؟ وزیر اعظم نواز شریف دوراندیشی سے کام لیں تو عمران خان سے فوری رابطہ کریں ۔ ڈرون حملوں اور عمران خان کے امریکہ مخالف جذبات کو وہ بالترتیب تحریکِ طالبان اور امریکہ پر دبائو بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ مذاکرات کی اپنی سی کوشش جاری رکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انٹیلی جنس کی بہتری اور فوجی آپریشن کے لیے تیاری بھی (مناسب وقت پر بہرحا ل جس کا ہمیں انتخاب کرنا ہوگا)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں