"FBC" (space) message & send to 7575

ازل کا قصہ

'' ساڑھے چار ارب سال مکمل ہو گئے میرے بچّو‘‘ مکروہ صورت شخص نے رو کر کہا ۔ تاریک اور بدبودار ہال میں موجود ہزاروں افراد چیخنے لگے ۔ غیر انسانی غرّاہٹوں اور کراہوں نے ماحول آلودہ کر ڈالا ۔ شیطانِ مردود کے دربار میں وہ سب پچاس کروڑ سال بعد ایک بار پھر یکجا تھے ۔ 
ابلیس لعین نے ہاتھ بلند کیا اور خاموشی چھا گئی ۔ 
''میرے آقا، ہمارا قصور کیا تھا؟‘‘ایک نوجوان نے کھڑے ہوکر کہا۔ 
''آدم‘‘ابلیس یکایک طیش میں آگیا''دوٹانگوں والی وہ حقیر مخلوق...‘‘ہال ایک بار پھر چیخوں سے گونج اٹھا ۔ وہ سب یک زبان ہو کر بنی نوعِ انسان کو کوسنے لگے ۔
شیطان کھڑا ہوا اور سنّاٹا طاری ہو گیا۔ اب وہ بلند آواز سے خطاب کرنے لگا۔ 
''اے میری اولاد، میں تجھے ازل کی داستان سنا تا ہوں۔ وہ دن ، جب میں معزز و معتبرتھا۔‘‘وہ خیالات میں جیسے کھو سا گیا'' ہم خداکی حمد و ثنا میں محورہاکرتے ۔ سیّارۂ ارض کے ٹھنڈا ہونے کے بعد حیات جنم لے چکی تھی ۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے درندے ایک دوسرے کا لہو بہاتے اور ہم انہیں حقارت سے دیکھا کرتے ۔ ایک دن خداکو جانے کیا سوجھی کہ اس نے زمین پہ اپنا نائب مقرر کرنے کا اعلان کیااور وہ بھی دو ٹانگوں والے ایک جانور کو۔ دوسروں کی طرح وہ بھی بے شمار جسمانی حاجات کا مارا ہوا تھا۔ انسان کہلانے والی وہ مخلوق ہمیں بڑی حقیر محسوس ہوئی ۔یہ دیکھو ‘‘ شیطان نے اشارہ کیا تو سامنے ہزاروں سکرینوں میں سے ایک روشن ہو گئی ۔ اوّلین عہد کے دو انسان ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں
 
اور دونوں لہو لہان ۔ہر طرف ہذیانی قہقہے گونجنے لگے۔ 
رفتہ رفتہ سب خاموش ہو گئے ۔ اب وہ ایک بار پھر گویاہوا۔ 
 
''خدا کی بارگاہ میں ہم سب نے عرض کیا، کہ ہم بڑی پاکیزگی والے ہیں ۔ ہم تقدس کے تمام تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ ربّ ِ عظیم، یہ مخلوق تیری بندگی کا حق ادا نہیں کر سکتی۔ اس نے کہا کہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ ہم خاموش تو ہو گئے لیکن ہمارے ذہنوں میں چھائے شبہات دیکھ کر اس نے کہا کہ اچھا تم زمین و آسمان کی اشیا کے نام سیکھ کر آئو۔ ادھر اس نے آدم کو وہ سب سکھا دیا اور ہمارے روبرو کیا۔ ہم اس سے شکست کھا گئے۔‘‘کئی رقیق القلب شیطان سسکیاں لینے لگے ۔ 
'' آدم کے سامنے جھک جانے کا حکم ہوالیکن میں ڈٹ گیا۔ میں نے کہا کہ یہ مٹی کا ڈھیلا مجھ سے افضل کیسے ہوگیا۔ میں ،جو سراپا آگ ہوں ۔ اس پر میرا تمام تر مرتبہ چھین لیا گیا۔ ربّ کائنات کے حضور تب میں نے ایک دعویٰ کیا۔ کہا ، جب چاہوں ، جیسے چاہوں، اس حقیر مخلوق کو بھٹکا کر تجھ سے دور کردوں اور میں نے ایسا کر دکھایا۔ پہلے ہی وار میں ، میں نے اسے جنّت سے نکال باہر کیا۔‘‘داد و تحسین کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ تمام شیطانی ذریّات یک زبان ہو کر اپنی بڑائی کاگیت گانے لگیں ۔ 
ٹہلتے ٹہلتے شیطان رک گیا''ہم نے ان گنت بار اسے ٹھوکر لگائی ۔ دوسری طرف وہ خود بھی ہوسِ مال و دولت ، اقتدار اور طرح طرح کی خواہشات کا غلام تھا۔ روزِ ازل کا ہمارا دعویٰ درست ثابت ہوا کہ انسانیت صرف فساد اور خون بہانے کا نام ہے ۔ میرے بچّو ، ہم جیت چکے ہیں ۔ آئو میں تمہیں آدمیت کا حالِ زار دکھلائوں۔‘‘سامنے نصب ہزاروں سکرینیں روشن ہونے لگیں۔ تاتاری لشکر خون کی ندّیاں بہا تے نظر آئے۔ دو عالمی جنگوں کے مناظر ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں گرتے ایٹم بم،ایران عراق جنگ کے مناظر، افغانستان میں امریکی افواج۔ عیش و عشرت میں محو عرب نظر آئے ۔، ظلم وستم اور لذّتِ گناہ میں گم انسانیت... ہال حقارت بھرے قہقہوں سے گونجنے لگا ۔
اب آخری سکرین روشن ہوتی ہے ۔ ایک نوجوان بستر پر پڑا ہے ۔وہ کسی مہلک بیماری سے نبرد آزما ہے۔ اس کی ٹانگیں اور بازو سوکھی ہوئی لکڑیوں جیسے ہیں اور جسم پیپ زدہ ۔ اس کی آنکھیں ترہیں اور وہ کچھ بڑبڑا رہا ہے ... ''اے میرے رب، بے شک مجھے ضرر پہنچا اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘
ہال میں موجود ہزاروں سکرینیں زورداردھماکے سے پھٹ گئیں اور کہرام برپا ہو گیا۔''یہ فقرہ پہلے بھی کہیں سنا ہے‘‘ شیطان اپنی مکروہ آواز میں چیخا اور اس کی آواز تمام کائنات میں سنی گئی ۔ مرکزی دروازہ کھلنے لگا اور ایک انسان داخل ہوا۔ 
''ابلیسِ لعین ،یہ وہی کلمات ہیں ، جو تجھے شکستِ فاش سے دوچار کرنے والے ایوبؑ نے اپنے رب کے حضور ادا کیے تھے۔ اپنی اولاد کو ازل کی داستان کا صرف وہ حصہ تو نے سنایا، جو تجھے موافق تھا۔ آسمان کی مخلوقات جسمانی تقاضوں سے ماورا تھیں اور خدا کی شان و شوکت سے واقف۔اْس نے چاہا کہ کوئی اسے دیکھے بغیر ، اس کی عطا کردہ عقل کی بنا پر اس سے محبت کرے ۔ کوئی ہو ، جو اپنی تمام بشری کمزوریوں کے ساتھ، اپنی مرضی سے اسے پکارے۔ وہ چاہتا تو ساری انسانیت کے دل میں اپنی ہیبت طاری کر دیتا اور وہ ہمیشہ اس کے حضور سجدہ ریز رہتی لیکن وہ بڑا بے نیاز ہے ۔ ساری اولادِ آدم میں سے صرف ایک بندہ اسے پکارتا رہے تو بھی کائنات کی بقا کا جواز باقی رہے گا۔اپنے چیلوں کو یہ کیوں نہیں بتاتا کہ آدم گڑگڑا تا رہا اور معاف کر دیا گیا۔ادھر تو اربوں برس سے خدا سے نبرد آزماہونے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے ۔ جس نے آگ بنائی ، اسی نے مٹی تخلیق کی۔ تو بڑائی کا دعویدار کیسے ہوگیا ؟ شیطانِ جاہل، آدم نہ سہی ، اس کی اولاد کے سامنے ایک ذرا سا جھک جا اور خدا سے معافی کا طلب گار ہو۔ ‘‘
''معافی؟‘‘شیطان نے غصّے سے کہا ''میرے نصیب میں تو جہنم لکھ دی گئی ہے لیکن تم سب کو بھی میں اپنے ساتھ گھسیٹ لوں گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، آگ مٹی سے افضل ہے‘‘اس نے احمقانہ تکبّر سے کہا اور اپنی اولاد سمیت غائب ہوگیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں