"FBC" (space) message & send to 7575

وہ ایسی تھی ہی نہیں

جیسے ہی میں نے اپنا فیس بک کا اکائونٹ کھولا،ایک سیکولر دانشور اور ''گمنام سپاہی‘‘ نامی اُس فوجی کے ایک جیسے تاثرات (Status)میرا منہ چڑا رہے تھے ۔اس پر مستزاد یہ کہ ہاجرہ نے انہیں پسند (Like)کر رکھا تھا۔ شمالی وزیرستان میں طالب کمانڈر عدنان رشید اور عصمت اللہ بیٹنی کی مبیّنہ ہلاکت پراظہارِ مسرّت۔ پرویز مشرف پہ قاتلانہ حملے اور بنوں جیل توڑنے والا عدنان رشید۔ وہی جس نے ملالہ یوسف زئی کو خط لکھا تھا۔ میرا دل خون ہو گیا۔
روایتی مذہبی شخص نہ ہونے کے باوجود میں اسلام سے محبت کرتا ہوں ۔ فوج سے مجھے یہ شکوہ ہے کہ وہ 12برس سے ہزاروں افغانوں کو مار ڈالنے والی امریکی جنگ میں شریک ہے ۔ یہی نہیں ، ملک کے اندر بھی وہ نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے والی تحریکِ طالبان سے برسرِ جنگ ہے ۔میں اس فوج کو عالمی استعمار کی حامی سمجھتا ہوں لیکن ہاجرہ یہ بات بالکل نہیں مانتی ۔ ایسے میں یہ سوچ کر میں الجھ جاتا ہوں کہ اس متضاد سوچ کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ کیسے نبھے گا ؟ 
ہاجرہ دائود ہمارے سامنے والے گھر میں رہتی ہے ۔ 20برس پہلے کا وہ منظر آج بھی میرے حافظے پر نقش ہے، جب اپنے ہاتھوں میں دبے کھلونے میں نے اُس گوری چٹی بچی کو دکھا تے ہوئے تتلا 
کر کہا تھا ''میرے ساتھ کھیلو گی؟‘‘ کچھ دیر وہ حیرت سے دیکھتی رہی اور پھر اپنا ایک ہاتھ اس نے آگے بڑھا دیا تھا۔ انہی گلیوں میں ہم کھیلتے رہے ۔ معلوم نہیں پھر کب اور کیوں وہ مجھ سے جھجکنے لگی۔ اس کے سر پہ دوپٹہ آگیا۔ پھر اس نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا اور گلی ویران ہو گئی ۔صرف اس لیے نہیں کہ وہ بے حد حسین تھی ۔ اس لیے بھی کہ ہم دونوں ایک زندگی جی رہے تھے ۔ ہمارا ہر پل سانجھا تھا۔ پیار، ہنسی اور ایثار ہی نہیں ، ضد، ہٹ دھرمی اور غصہ دکھانے کے لیے بھی مجھے اس کی ضرورت تھی ۔ گھر میں یہ سب کو معلوم تھا اور کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے نوکری شروع کی اور شادی کا مرحلہ درپیش ہوا تو صرف دوہفتے بعدہم ایک دوسرے سے منسوب کر دیے گئے ۔اب صرف اس کا ماسٹرز مکمل ہونے کا انتظار تھا۔ زندگی کے وہ رنگ جو زمانے نے مجھ سے چھین لیے تھے، لوٹ آئے ۔ 
ہاجرہ پاکستانی طالبان سے نفرت کر تی ہے اور پاک فوج سے اسے عشق ہے ۔ افغان جنگ میں پاکستانی فوج کی شرکت کا سوال اٹھایا جائے تو وہ امیر المومنین ملّا عمر کی طرف سے القاعدہ کو پالنے کا ذکر کرتی ہے ۔ ''تمہارے ملّا عمر نے اسامہ بن لادن کو ملک بدر کیوں نہ کردیا اور یہ کیسا جہاد ہے ،جس میں بچّے اپنے جسم سے بندھے بم پھاڑ کر نہتے لوگوں کو قتل کر تے ہیں‘‘ وہ منہ چڑا کے پوچھتی ہے ''یہ کیسا اسلام ہے ، جو عورت کے برقعہ نہ اوڑھنے پر خطرے میں پڑجاتا اورکوڑے برسانے پر مجبور کرتاہے؟‘‘ میں چڑ جاتا ہوں ''تم لڑکیوں کو ہانڈی روٹی کے سواکسی چیز کا علم ہے اور نہ تم سے بحث کا کوئی فائدہ‘‘ اس پر وہ مٹھی بند کر کے میری فرضی داڑھی ناپنے لگتی ہے اور ایک زوردار قہقہہ ۔ 
آج جب وہ یونیورسٹی سے نکلی تو خلافِ معمول مسکرائی نہیں ۔ اس لیے کہ شیعہ طلبہ مستونگ کے سانحے کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے ۔ ''یہ تمہارے لشکرِ جھنگوی والے مجاہدین کا کیا دھرا ہے‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دھیرے سے اس نے کہا ''ایک خوشخبری اور ہے‘ اظہارِ یک جہتی کے لیے جانے والے تحریکِ انصاف کے وفد کو لاہور مال روڈ کے مظاہرین نے دھتکار دیا ہے ۔ انہیں طالبان کے ہمدردوں کی ضرورت نہیں‘‘۔ اب میں نے اسے ذرا غصے سے دیکھا ''محترمہ مذاکرات کی خواہش طالبان کی ہمدردی نہیں‘‘ ''بھئی کب سے وہ بیچارے چیخ رہے ہیں کہ ہم بات چیت نہیں چاہتے‘‘ اس نے جماہی لی ''اور پھر عمران خان کو کبھی دہشت گردوں کی مذمت کرتے نہیں دیکھا گیا‘‘ اس کے بعد بازار پہنچنے تک میں خاموش ہی رہا، جہاں سے اسے اپنے لیے کپڑے لینا تھے۔ گاڑی پارک کر کے ہم دکانوں کی طرف بڑھے۔میرے ایک جوتے کا تسمہ کھل گیا تھا۔ میں جھک کر اسے باندھے لگا لیکن ہاجرہ چلتی رہی ۔ اُٹھ کر میں نے پہلا قدم ہی بڑھایا تھا کہ کان پھاڑدینے والا دھماکہ ہوا۔ بیک وقت بے شمار لوگ چیخنے لگے اور بھگدڑ مچ گئی ۔ بمشکل دس قدم کے فاصلے پر کچھ آدمی زمین پر پڑے تھے ۔ان میں سے ایک ہاجرہ بھی تھی ۔
اُس وقت تک وہ زندہ تھی لیکن اس کے پیٹ میں ایک شگاف تھا، جس میں سے آنتیں باہر لٹک رہی تھیں ۔ 
مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ ہاں جب میں نے اسے اپنی آغوش میں لیا تو پہلی بار اس نے مجھ سے اظہارِ محبت کیا تھا۔ اُس نے کہا تھا کہ وہ آزاد پیدا ہوئی اور آزاد مر رہی ہے ۔ اُس نے کہا تھا کہ آئندہ دہشت گردوں کی حمایت نہ کرنا۔ اُس نے کہا تھا کہ فوجی جوانوں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ، وہ فقط ہماری خاطر گولی کھاتے ہیں ۔ اُس نے کہا تھا... 
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ بازارمیں موجود پولیس اہلکار نشانہ تھے لیکن پولیس والے دو ہی شہید ہوئے، باقی سب خریدار تھے ۔ جہاں تک ہاجرہ کا تعلق ہے ، میں اسے بچپن سے جانتا ہوں ۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ وہ طالبان کے خلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتی تھی ۔ وہ ایسی تھی ہی نہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں