اگر وہ اتنا دیدہ دلیر ہو سکتا ہے تو میں اسلام کا فرزند ہونے کے باوجود خاموش رہتا ؟ خم ٹھونک کر میں نے دلائل دیے اور اسے بے نقاب کر کے رکھ دیا۔
ہم لنگوٹیے تھے ۔ وہ اکلوتا، میں بھی اکلوتا ۔ دونوں خاندان دوست ۔ ایک گلی ، سکول بھی ایک ۔ پڑھائی، کھیل کود، ناظرہ، شرارتیں ، لڑائی جھگڑا ، سب ساتھ ساتھ ۔ پانچویں جماعت کے بعد میں نے مدرسے کا رخ کیا۔۔۔ میں عالم بن گیا۔ اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔اب میںدین کا وارث تھا اور وہ دفاع کا۔
ندامت کی بجائے، اسے خود پر فخر تھا ۔ وہ قبائلی علاقے میں تعینات تھا۔ گھر آتا تو سینہ تان کر چلتا۔ اُس دن وہ (بقول اس کے ) کچھ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر ہمارے مشترکہ دوستوں کی محفل میں بغلیں بجا رہا تھا ۔ میں تلخ ہو گیا اور اس سے یہ کہا ''یہ وہی جنگجو ہیں جو سویت یونین کو توڑنے کے لیے تخلیق کیے گئے تھے ۔ سب جانتے ہیں کہ ضیا دور میں کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا گیا ۔ اس تباہی کے ذمہ دار تم ہو‘‘۔
اس نے جواب دیا ''گو کہ جنرل ضیا ء الحق کی آمد ان حالات میں ہوئی تھی کہ مظاہرین پرگولی چلانے کا حکم دیا جا رہا تھا۔گو کہ سیاستدانوں کی نا اہلی ، کرپشن اور باہمی تنازعات بھی بہت بڑی
وجہ تھے ۔ پھر بھی اقتدار پر قبضے کی حد تک میں بھی گلا پھاڑ کراس کی مذمّت کرتا ہوں مگر تم لوگ اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ چلو آج میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہمی نے دہشت گردی تخلیق کی۔ جنرل ضیاء الحق نے سویت یونین کو افغانستان پر حملے کی دعوت دی۔ دوسری طرف اس نے افغانوں میں آزادی کا ولولہ پھونکا۔ یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے اقوامِ عالم کو افغان جہاد میں شرکت کی دعوت دی۔ سویت یونین کسی قسم کے توسیع پسندانہ عزائم نہ رکھتی تھی ۔ اس نے مشرقی یورپ پہ فوجی یلغارکی اور نہ ہی روپے کے بل پرکمیونسٹ انقلاب برآمد کیے۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ پاکستان میں اس وقت اشتراکی انقلابی دندنا رہے تھے ، جن کی ایک ٹانگ یہاں اور دوسری دریائے آمو کے اُس پار ہوا کرتی۔ سچ تو یہ ہے کہ سرخ فوج اگر افغان سرزمین پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی تو سوائے پیازکی تجارت کے ، پاکستان سے اس کا کچھ لینا دینا نہ ہوتا‘‘۔
مجھے خامو ش دیکھ کر وہ پھر بولنے لگا: ''سرخ عالمی طاقت کی شکست و ریخت کے بعد اسٹیبلشمنٹ ایک دہائی بیکار بیٹھی رہی ۔ وہ بوریت کا شکار تھی ؛ چنانچہ اس نے القاعدہ سے امریکہ پر حملے کی درخواست کی ۔ دوسری طرف وہ ملّا عمرکو ثابت قدم رہنے اور اسامہ بن لادن کو امریکہ کو حوالے نہ کرنے یا ملک بدر نہ کرنے کا مشورہ دیتی رہی اور تباہی آکر رہی‘‘۔
''اس سب کے ذمہ دار تم ہو‘‘۔ میں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
''میں تسلیم کر تو رہا ہوں‘‘۔ وہ مسکرا کر بولا'' دو عالمی طاقتوں کی افغانستان پہ یلغار سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی ۔ سب ہمارا کا کیا دھرا ہے لیکن اب کریں تو کریں کیا؟ ڈھول گلے پڑ گیا ہے ، بجانا تو پڑے گا‘‘۔
اُس کی یہ سوچ مجھے غصہ دلا رہی تھی ۔ میں نے کہا: ''دس برس کی کارروائیوں کے باوجود تم جیت نہیں سکے ۔ اب شمالی وزیرستان میں کیا ڈھونڈنا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے کہا:''تم دانشوروں اور طالبان کے ہمدردوں کا لکھا گیت گا رہے ہو۔ جب حکیم اللہ محسود کا دستِ راست لطیف اللہ افغان خفیہ اداروں سے برآمد ہوا تو یہی ہمدرد قوم کو سمجھا رہے تھے کہ لطیف اللہ کے پاس تحریکِ طالبان کا کوئی عہدہ نہیں ۔ تمہارے جیسے گنوار جنگ کی نوعیت سے واقف ہی نہیں ۔ فوج قبائلی علاقوں میں تعینات ہے ۔ دہشت گرد چھپتے چھپاتے حملہ آور ہوتے اور پھر جان بچا کر بھاگتے ہیں ۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں انہوں نے اپنی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی تو ہم نے ہفتوں میں ان کا صفایا کر دیا۔ اب شمالی وزیرستان میں تین ہفتے کی کارروائی درکار ہے۔ اس سے ان خارجیوں کی طاقت میں چالیس فیصد کمی آئے گی۔کوئی جاہل ہی اس صورتِ حال میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم دس سال سے آپریشن میں مصروف ہیں‘‘۔
میں نے کہا: ''طالبان قیدیوں کی ہلاکت کے بعد جواباً انہوں نے بھی حملے جاری رکھے ۔ انجام یہ ہے کہ مذاکراتی عمل ناکام ہونے کو ہے‘‘۔
اس نے کہا: ''ہم نے تو جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی جوابی کارروائی سے گریز کیا تھا ۔ پھر بھی ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ ہم نے قیدی مارڈالے لیکن وہ تو پولیس کو بھی الزام دے رہے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے آزاد اور فعال میڈیا اور عدلیہ کی موجودگی میں پولیس باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قیدیوں کو قتل کرنا شروع کر دے ؟یاد رکھو، فوج دہشت گردوں کی پٹائی نہ کرتی تو کبھی وہ میز پر نہ بیٹھتے۔ایسی سخت جان فوج نہ ہوتی تو پاکستان کب کا افغانستان بن چکا ہوتا۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی ایک طویل جنگ کا مختصر اور ناگزیر حصہ ہے اور زیادہ عرصے وہ ٹل نہیں سکتی ۔ بات چیت سے امن قائم ہوا بھی تو عارضی ہوگا ، اس لیے کہ وہ مزید منظّم ہو کر ریاست پہ حملہ آور ہوں گے‘‘۔
ہمارے مشترکہ دوست بظاہر ا س کی باتوں پر زور و شور سے سر ہلا رہے تھے لیکن ایسا وہ صرف اس کا دل رکھنے کے لیے کر رہے تھے ۔ بھلا اس نے کون سی عقل کی بات کی تھی کہ وہ اس کے ہم نوا ہوتے ۔ بڑی چالاکی کے ساتھ میں نے اسے بے نقاب کر ڈالا تھا چنانچہ میں سینہ پھلا ئے وہاں سے چلا آیا۔