"FBC" (space) message & send to 7575

سچ کیا ہے اورجھوٹ کیا؟

آئینے میں یہ میرا عکس نہیں بلکہ پوری انسانیت نظریں جھکائے کھڑی ہے ۔ایک شرمندہ مجرم ۔ میں نے فردِ جرم عائد کرنا شروع کی۔ 
یہ کہانی ہے کرّہ ء ارض کی۔ انسان نے اپنے اس خوبصورت سیارے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔خودوہ ایک مصنوعی زندگی جی رہا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ قدرت کو تباہ کرنے کے درپے ہے ۔ وہ ایسا روّیہ برداشت کرنے کی عادی نہیں اورجواباً انسانیت کو برباد کرنے پہ تلی ہے ۔دیکھیے ، جیت کس کا مقدّر ہے ۔ 
زیادہ وقت نہیں گزرا،سرِ شام جب سورج کی آخری کرنیں نیند کا پیغام لاتیں لیکن پھر آدمی نے زمانے اور خود اپنے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ یاد رہے کہ تب تک دوسرے جانوروں پہ اپنی ذہانت اور برتری وہ ثابت کر چکا تھا۔دوسروں کے مقابل اس کی زندگی کہیں آسان تھی لیکن اب اس نے فضا میں اڑنا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دریا اس کے بتائے ہوئے راستے پر بہے۔وہ لیبارٹری میں گوشت اگانا چاہتا تھا۔ اس نے بجلی ایجاد کی اور اس کے بل پہ حرکت میں آنے والی ایجادات۔ اس نے زمین سے کوئلہ ،گیس اور تیل نکالا۔ انجن بنایااور پھر موٹر سائیکل سے لے کر راکٹ تک میں اسے نصب کیا۔ جو آگ اس نے پتھر کے دور میں دریافت کی تھی، اب وہ ان تمام چھوٹے بڑے انجنوں میں دہکنے لگی۔
ریفریجریٹر اور ائیر کنڈیشنر افریقہ کے تپتے ہوئے صحرا ہی میں نہیں، شمالی امریکہ کے برف زاروں میں بھی استعمال ہونے لگے۔ خطرناک گیسوں نے کرّۂ ارض کو ڈھانپ لیا۔وہ سورج کی تپش اپنے اندر مقید کرنے لگیں ۔ درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ ماحول کا توازن برقرار رکھنے والے گلیشیر پگھلنے لگے ۔موسم بدل گیا ۔ اوزون کا سینہ شق ہو گیا۔ یہی نہیں ، اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے اس نے ایٹم توڑ ڈالا اوراپنے ہم نسلوں پہ تابکاری نازل کی۔اسے کائنات تسخیر کرنا تھی لیکن وہ اپنے ہی جیسوں کو زیر کرنے میں جت گیا۔ وہ کائنات کی وسعتوں کو بھول گیا اور ایک چھوٹے سے سیارے پر خشکی کے ٹکڑوں کی ملکیت پہ جھگڑنے لگا۔ وہ تیل کے لیے لڑا، پانی اورہیرے جواہرات کے لیے ۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اس نے جانوروں اور پرندوں کی نسلیں مٹا ڈالیں ۔ جنگلات سکڑ گئے ۔ اس انسان نما حیوان کے جرائم اتنے ہیں کہ شمار ممکن نہیں۔ 
میرا خیال تھا کہ وہ شرمسار ہو گا، ڈوب مرے گالیکن اس نے صفائی پیش کرنا شروع کی ۔ کہنے لگا کہ جس زندگی کی فکر میں تم گھل رہے ہو ، وہ تو ہے ہی سراب۔ ذرا پیچھے جائو اور 25کروڑ سال پہلے کا جائزہ لو۔پرمین دور کی عالمگیر ہلاکت (Permian Mass Extinction)۔ کرّہ ء ارض کی بدترین آتش فشانی کے بعد سمندر کی تہوں سے میتھین گیس نکل کے جلنے لگی ۔ درجہ ء حرارت میں دس درجے کا اضافہ ہوا اور کرّہ ء ارض کے 95فیصد جانوروں کی نسلیں مٹ گئیں ۔ آہستہ آہستہ نیلا سیارہ پھر زندگی سے لبریز ہو نے لگا۔ پھر ساڑھے چھ کروڑ سال قبل آسمان سے دس کلومیٹر کی ایک چٹان آگری اور 70فیصد جاندارہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ ہوگئے ۔ سورج کے گرد زمین کا مدار ذرا سا تبدیل ہوتا اور وہ طویل برفانی ادوار(Ice Ages) میں دھنس جاتی ہے ۔ فرض کرو، آج پھر وہ اپنا راستہ ذرا سا بدل لے تو ماحول کی فکر میں گھلنے والا انسان کیا اپنے سارے ایٹم بم استعمال کر کے بھی اسے واپس لا سکتاہے ؟ ایک خبر اور سنو کہ اب ناپید ہو جانے والے کئی جانوروں کی نسلیں دوبارہ پیدا کی جائیں گی ۔ برف میں ان کے جمے ہوئے اجسام سے ایک خلیہ لیا جائے گا اور کلوننگ ہو گی۔
اُس کے انکشافات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے ۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ پھر بولنے لگا: جن ماحول دشمن سرگرمیوں میں انسان آج مشغول ہے ، ان کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی ، جب اس کے دماغ پہ تجلّی عقل کا نزول ہوا تھا۔ جب سات ارب ذہین جانور ایک سیارے پہ آباد ہوں تو لازماًاپنے لیے سہولیات تخلیق کریں گے ۔ کوئی جنگلات اور غاروں میں رہناپسند کرے گااور نہ ان کی ضروریات روایتی طریقوں سے پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے صنعتی انقلاب رونما ہوا ۔ اسی لیے تیزی سے پروان چڑھنے والے جانور اور فصلیں ایجاد ہوئیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ کسی باریک بین کے تخلیق کردہ نقشے پر انسانیت کی عمارت اُٹھ رہی ہے ۔ فرض کرو ، کوئی حادثہ رونما نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایٹمی جنگ۔ فرض کرو، قیامت نازل نہیں ہوتی، تو بھی کب تک ہم ایک چھوٹے سے سیارے کے وسائل نگلتے رہیں گے ؟ ایک دن یہ سب ختم ہو جائے گا۔ تیل اور پانی کے کنویں سوکھ جائیں گے ۔ کوئلہ ختم ہو گا۔ زیرِ زمین ساری مفید دھاتیں بھی ۔ دو صدیاں پہلے کل انسانی آبادی ایک ارب تھی ۔ آج سات ارب سے بڑھ چکی۔انسان اپنی نسل بہت تیزی سے بڑھا رہا ہے ۔ آخر کو سب ختم ہو جانا ہے ۔ ایک عظیم منصوبہ ساز اپنے سوپر کمپیوٹر کو ہدایات جاری کر چکا ہے ۔ اب تو وہ صرف معاملے کو پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہوا (Execution) دیکھ رہا ہے۔ اپنے رخِ پُر نور پہ حجاب ڈالے ، وہ عقل اور جبلّت کی جنگ دیکھ رہا ہے ۔وہ جانچ رہا ہے کہ ذہانت کے حتمی امتحان میں کون کامیاب ہوتاہے ۔ باقی سب تو کھیل تماشا ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ دنیا کی نہیں ، تم اپنی فکر کرو۔ 
اس کے ان دلائل نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا ۔کوئی شک نہیں کہ جو حقائق اس نے بیان کیے ، وہ سو فیصد درست ہیں لیکن کیا حادثے کے خوف سے آدمی خود کشی کر لے ؟ جس گھر میں ہمیں رہنا ہے ،خوامخواہ اسے آلودہ کیوں کیا جائے ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں